آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

رئیس فاطمہ  اتوار 2 جولائی 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

22 جون کو ایک خبر نے مجھے رونے پہ مجبور کردیا۔ اتوار کا کالم بھیج چکی تھی ورنہ اگر وقت ہوتا تو اس خبر کو ضرور جگہ دیتی۔ 22 جون کے ایکسپریس میں صفحۂ اول پر ایک خبر خیبر پختون خوا کے وزیر اور تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈا پور کے حوالے سے شایع ہوئی کہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ووٹروں کو عیدی دینے کے لیے گلائیڈر جہاز کے ذریعے نوٹ پھینکیں گے۔

یہ ہے پاکستان کے وڈیروں، صنعت کاروں، سرمایہ داروںکا کلچر۔  غیر مسلم ملکوں میں سے کسی نے کبھی تہواروں پر ایسا نہیں کیا ہوگا۔ لیکن یہ پاکستان ہے۔ بھلا ہو عمران خان کا کہ انھوں نے اپنے وزیر کو ایسا کرنے سے روکا۔ لیکن اس اعلان سے تحریک انصاف کی مقبولیت ضرور کم ہوگئی۔ لوگ یہ سوچنے پہ مجبور ہوگئے کہ اگر تحریک انصاف کو مکمل اقتدار مل گیا تو ان کے وزراء کی سوچ کیسی ہو گی۔ کبھی جہاز سے نوٹ گرا کر لوگوں کو دست و گریباں ہوتے دیکھیں گے تو کبھی انتخابی جلسے کے بعد بریانی کی دیگوں پہ بوٹیوں کے لیے چھینا جھپٹی کرتے ہوئے دیکھ کر تسکین حاصل کریں گے۔

ٹیلی وژن اسکرین پہ بارہا یہ مناظر لوگوں نے دیکھے ہیں اور اپنا سر پیٹا ہے کہ خواہ پی پی ہو، (ن) لیگ ہو یا تحریک انصاف، ان کے جلسوں میں لیڈر کے جانے کے بعد کھانے کی دیگوں پر جو حملہ ہوتا ہے، جس طرح لوگ ایک دوسرے سے بوٹیاں اور روٹیاں چھینتے ہیں، دیگوں میں اپنے ہاتھ ڈال کر قمیض کے دامنوں میں ذردہ، بریانی اور پلاؤ بھرتے ہیں،یہ ان کے اجتماعی شعور کی نمائندگی کرتا ہے لیکن یہاں بھی زور آوروں کا راج ہوتا ہے، جو زبردست ہوتے ہیں وہ بریانی کی دیگ کو راستے ہی میں لوٹ لیتے ہیں اور جو نحیف و نزار، کمزور اور بے بس ہوتے ہیں ان کے ہاتھ نہ روٹی کا ٹکڑا آتا ہے نہ چاول کا دانہ۔ مسلسل غربت اور بھوک ہی ان کا مقدر بنتی ہے۔

خواہ کوئی آئے یا کوئی جائے۔ ہر آنے والا کرپشن ختم کرنے کی، لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی، مہنگائی اور بے روزگاری ختم کرنے کی باتیں کرتا ہے، لیکن جوں ہی حلف اٹھاکر محلات شاہی میں قدم رکھتا ہے عوام کے لیے نہ صرف دروازے بند کروا دیتا ہے بلکہ جن عوام کے ووٹوں سے وہ منتخب ہوکر آتا ہے اسی عوام کو وہ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ محلات شاہی کے اسرار اور سازشیں اپنا رنگ جمانا شروع کردیتی ہیں، عوام پر راستے بند کر دیے جاتے ہیں، عجب کہانی ہے، وہی عوام جن کے در پہ جاکر ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں، وہی بعد میں ان کے قریب نہیں پھٹک سکتے۔ وہی ورکرز جو انھیں کندھوں پہ بٹھا کر ’’آوے ہی آوے‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں، وہی دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیے جاتے ہیں۔ ایک جاتا ہے دوسرا آتا ہے سب ملی بھگت ہے۔ اس ملک میں انصاف کا ترازو کبھی برابر نہیں ہوتا، کرپشن کی کہانیاں الف لیلیٰ کی داستانوں کی طرح رقم کی جاتی ہیں لیکن کوئی انصاف نہیں کرتا۔ کیونکہ جو سچ بولے گا، جو سچ لکھے گا، وہی راندۂ درگاہ ہوگا۔

سب ایک ایسے اندھے سسٹم کے غلام ہیں۔ صرف سرکاری افسروں اور پولیس کا محکمہ ہی نہیں ہمارے بہت سے قلم کار، صحافی، ادیب اور شاعر بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں، کرپشن کے سمندر کی مچھلی بن کر خوب خوب تیر رہے ہیں۔ بڑے بڑے اعزازات پا رہے ہیں۔ بڑے بڑے محکموں کے سربراہ بنائے جا رہے ہیں۔ لیکن کسی مستحق اور اہل انسان کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ خواہ ادبی ادارے ہوں یا دوسرے سب میں اقتدار کی چومکھی لڑی جا رہی ہے۔ کیسے عہدے کو برقرار رکھنا ہے، کیسے کسی کو دھوکا دینا ہے، کیسے کسی کا راستہ بند کرنا ہے، خواتین و حضرات دونوں اپنے اپنے اقتدار اور نام کے لیے تمام ہتھیاروں سے لیس کبھی ادبی محفلوں میں سرگرم، دکھائی دیتے ہیں، کبھی مختلف ادبی کانفرنسوں میں۔ چند نام ہیں وہی ہر تقریب میں اور ہر جگہ نظر آتے ہیں۔

مطلب کہیں یہ منافق لوگ مسلک کا سہارا لیتے ہیں کہیں اپنے آبائی علاقے کا۔ ضرورت پڑنے پر گدھے کو کیسے باپ بنایا جاتا ہے کوئی ان سے پوچھے۔ اس معاملے میں خواتین زیادہ پھرتی اور تیزی دکھا رہی ہیں۔ نہ انھیں عزت و ناموس کی پرواہ ہے نہ بدنامی کی۔ اقتدار کی دیگ کے چاول کھانے اور پلیٹیں بھرنے کا شوق انھیں بچپن ہی سے تھا۔ ایسے ہی لوگ آج کامیاب ہیں جو اس مقولے پر عمل کرتے ہیں ’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘۔ مذہب، مسلک، لسانی تعصب اور علاقائی تعصب کے بت تراشے جا رہے ہیں، ذات برادری کے بل بوتے پر تقرریاں ہو رہی ہیں۔ بڑے بڑے محکموں کا سربراہ جن کو بنایا جا رہا ہے وہ اقتدار کی کرسی پہ بیٹھتے ہی سب سے پہلے اپنے اپنے مسلک کے لوگوں کو نوازنا شروع کردیتے ہیں۔ کسی قابل انسان کو آگے نہیں آنے دیتے۔ جس کو بھی ’’اذن باریابی‘‘ ملتا ہے اس کا حد درجہ کا خوشحال ہونا لازمی ہے تاکہ وہ ’’باس‘‘ کے انگوٹھے کے نیچے رہے۔

اپنوں کے لیے سارے دروازے اور راستے کھلے لیکن دوسروں کے لیے یہ جواب کہ انھیں کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں۔ انھیں تو ہاتھ پاؤں باندھ کر دریا میں ڈال دیا گیا ہے لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک محفوظ کشتی میں انھیں بٹھا دیا گیا ہے وہ خوب سیر کرتے رہیں۔ اوپر والوں کو جب خوش کرنا ہو تو خاموشی سے ہاتھ پاؤں کھول دیے جاتے ہیں اور جوں ہی کسی نے میرٹ کا معاملہ اٹھایا تو پتا چلا کہ ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔ اداروں میں تعصب اپنی انتہا پر پہنچا ہوا ہے، کہیں میرٹ نظر نہیں آتا، خوشامدیوں کے جنگل میں لومڑیاں اور بھیڑیے مٹر گشت کر رہے ہیں۔ کہاں کس کا شکار کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے؟ جس ادارے کو آپ اٹھا کر دیکھیں وہاں نااہل افراد کی کھیپ کی کھیپ نظر آئے گی۔ اداروں میں قدم رکھتے ہی آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہاں کس کی حکومت ہے۔

’’گول خانے میں چوکھونٹی چیز‘‘ کا عمل دخل ہر جگہ نظر آئے گا۔ ایک شخص M.B.A ہے لیکن ادبی ادارے کا سربراہ بنادیا جائے تو وہ کیا کارکردگی دکھائے گا؟ ایک سائنٹسٹ کو لغت بورڈ میں بٹھادیا جائے تو وہ جو لغت کے کام سے ناواقف ہے کیا کرے گا سوائے تنخواہ لینے کے۔یہی وجہ ہے کہ تمام ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔ ہم زیادہ تر پولیس کے محکمے کو نشانہ بناتے ہیں کہ آئی جی سے لے کر تھانہ انچارج تک سب سفارشی بنیادوں پر تعینات کیے جاتے ہیں۔ اسی لیے وہ عام آدمی کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کرتے۔ کیونکہ جو ان کو لائے ہیں ان کے خلاف وہ کیسے ایکشن لے سکتے ہیں۔ لیکن ہم ادبی اداروں کو بھول جاتے ہیں انھیں الزام نہیں دیتے صرف لوگ آپس میں بات کرکے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں، لیکن یہاں بھی خوشامد کا کلچر عروج پر ہے۔ سیاسی اور سفارشی بنیادوں پر تقرریاں عام ہیں ’’من تورا حاجی بگویم‘ تو مرا حاجی بگو‘‘ کا نظارہ جیسا آپ کو ادبی اداروں میں نظر آئے گا ویسا کہیں اور نہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ سب ادب پروری کے نام پر ہو رہا ہے۔ لیکن جتنا گند اور فساد ادبی اداروں میں ہے اس کو دیکھ کر ایک عام تو دور کی بات، سچا ادیب اور سچا شاعر منہ پیٹ کر کونے میں دبک جاتا ہے۔ مشاعرے ہوں یا ادبی کانفرنسیں ہر جگہ خوشامدی ٹولہ جلوہ گر ہے۔

ہر طرف شکار کرنے والی لومڑیاں گشت کر رہی ہیں۔ انسانی خون منہ کو لگ جانے والے بھیڑیے مٹر گشت کر رہے ہیں۔ ان لومڑیوں اور بھیڑیوں نے جو بظاہر بھیڑ کی کھال میں نظر آتے ہیں حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو یرغمال بنایا ہوا ہے تاکہ وہ اپنی من مانی کرسکیں۔ اپنے فرقے، مسلک اور اپنے اپنے علاقے کے نااہل لوگوں کو اہم عہدوں پر بٹھاسکیں۔ میرٹ کا قتل عام جس طرح ادبی اداروں میں ہو رہا ہے، تعصب اور اقربا پروری جس طرح ہو رہی ہے اسے دیکھ کر جینوئن ادیب پناہ مانگتا ہے۔ یہ تعصب اور اقربا پروری یوں ہی جاری رہے گی اور لوگ سر پیٹتے رہیں گے۔ لومڑیاں اور لومڑ یوں ہی باصلاحیت افراد کا خون کرتے رہیں گے، کیونکہ یہ پاکستان ہے یہاں ہر چیز بکتی ہے خریدار ہونا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔