ہم کہاں کے منصف!!

شیریں حیدر  اتوار 2 جولائی 2017
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

پردیس کی عید… اس پر مستزاد صبح سویرے جاگتے ہی جو خبر پاکستان سے ملی وہ اس قدر پریشان کن بلکہ دل دہلا دینے والی تھی، فوراً ٹیلی وژن آن کیا… 25جون، ہمارا تو یوم عید تھا مگر پاکستان میں اس روز انتیسواں روزہ تھا، جس دن احمد پور شرقیہ کے علاقے میں لوگوں پر ایسی قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ اس میں غلطی کس کی تھی، فرشتہ اجل اپنا کام کر رہا تھا، کہا جا رہا تھا کہ لوگوں کو ان کا لالچ لے ڈوبا۔ یہاں دیار غیر میں ایسی خبر سن کر اور بھی دکھ ہوا کہ یہ خبر دنیا بھر میں سنی جا رہی تھی۔ کیا کوئی قوم اتنی بے وقوف ہو سکتی ہے کہ جہاں ایسا حادثہ ہوا ہو، پٹرول لیک ہو کر سارے میں پھیل گیا ہو، اس سے دور رہنے اور ممکنہ احتیاطی تدابیر کرنے کی بجائے… لوگ اس موت کے حوض میں سے لوٹ مار کر رہے تھے۔ انھیں معلوم ہی نہ تھا کہ ان کی موت نے انھیں وہاں لالچ کا دانہ ڈال کر یکجا کر دیا تھا۔

دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ اسی طرح ایک مشروب ساز کمپنی کے ایک ٹرک کے حادثے میں ٹرک ڈرائیور کے بھاگ جانے کے باعث، لا وارث ٹرک کی لوٹ مار کی تصاویر اور وڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی نظر آئیں۔ ہمارے ہاں مفت کا مال دیکھ کر ہر کوئی اپنی اخلاقیات کو پس پشت کیوں ڈال دیتا ہے۔ عید کے روز ہی بیٹھے ہوئے کسی کا یہ فقرہ دل میں ترازو ہو گیا کہ پاکستان میں صرف وہی حرام اور مال مفت نہیں کھاتا جسے موقع نہیں ملتا۔ اپنے اور اپنی قوم اور ملک کے بارے میں ایسا تبصرہ سن کر دل دکھ سے بھر گیا، کیا ہم اخلاقیات سے گری ہوئی ایسی قوم بن گئے ہیں کہ جس میں اوپر سے نیچے تک ہر کوئی اس ملک کو لوٹنے اور کھسوٹنے میں مصروف ہے؟

کئی بار سوشل میڈیا پر شادیوں، افطاریوں یا مختلف پارٹیوں کے جلسوں کے دوران عوام پر ’’ کھانا کھلنے ‘‘ کے مناظر کی وڈیو، لوگ لطیفوں کی مانند شئیر کرتے ہیں، ایسی وڈیوز میں لوگوں کا ’’ جذبہ‘‘، ان کی طلب اور ان کی ’’ جدوجہد‘‘ قابل دید ہوتی ہے۔ ا س پر ہمیں یعنی دیکھنے والوں کو شرمندگی ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کی بھوک کیوں ختم نہیں ہوتی، کم از کم اس کا ایسا مظاہرہ کیوں ختم نہیں ہوتا۔ من حیث القوم، سوشل میڈیا کے آ جانے کے بعد ہم نے ملک میں اور ملک سے باہر جو نام کمایا ہے، وہ ہمارے لیے باعث ندامت ہے۔ ایسے واقعات میں ملوث لوگ… ان کی وڈیوز بنانے والے، انھیں سوشل میڈیا پر شئیر کرنے والے، دیکھ کر بے ساختہ ہنس پڑنے والے، بغیر کسی احساس کے ایسی وڈیوز کو مزید لوگوں تک بھجوانے والے اندازہ ہی نہیں کر پاتے کہ سوشل میڈیا نے دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں کی طرح بنا دیا ہے۔ دنیا بھر سے گھوم پھر کر ایسی وڈیوز واپس ہمارے پاس پہنچ جاتی ہیں۔

کل مجھے ایک اور پیغام وصول ہوا تو میں نے جواد سے رابطہ کیا کہ اس کی صحت کو چیک کر کے مجھے بتائے، اس نے بتایا کہ واقعی یہ پوسٹ درست تھی، اس لیے میں آپ سب سے شئیر کرتی ہوں، یوں بھی یہ پوسٹ آپ میں سے زیادہ تر لوگوں کو ملی ہو گی۔

’’ خدا کی بے آواز لاٹھی اور دو سچے واقعات۔

۱… 6 جولائی 2012 ، احمد پور شرقیہ۔ ایک دماغی ابنارمل آدمی، غلام عباس کو قرآن پاک کے اوراق جلانے کے جھوٹے الزام کے تحت گرفتار کر کے پولیس اسٹیشن لایا گیا۔ بعد ازاں اشتعال انگیز اعلان کیا گیا کہ اس آدمی نے توہین قرآن کی ہے اور وہ حوالات میں ہے۔ اس اعلان کے بعد گاؤں والے مشتعل ہوگئے اور گھروں سے نکل کر گاؤں سے گزرتی ہوئی، لاہور تا کراچی، اہم ترین شاہراہ کو بلاک کر دیا۔ حوالات کے دروازے توڑ کر اس مشتعل ہجوم نے اس دماغی طور پر مفلوج شخص کو باہر نکالا، اس پر پٹرول چھڑکا اور اسے اسی سڑک پر آگ لگا کر یہ سارا ہجوم تماشہ دیکھتا اور اس کی آخری سانس تک اس جلتے ہوئے شخص پر پتھر برساتا رہا۔ لگ بھگ دو ہزار لوگوں کا وہ مجمع اس شخص کے راکھ ہو جانے تک اس فعل کا حصہ یا عینی گواہ رہا۔

۲… پچیس جون، 2017 ۔ احمد پور شرقیہ۔ اسی لاہور تا کراچی کی اہم شاہراہ پر چالیس ہزار لٹر پٹرول لے کر جاتا ہوا ایک ٹرالر تیز رفتاری کے باعث الٹ گیا۔ لوگوں کو اعلان کر کے اطلاع کی گئی کہ پٹرول سے بھرا ایک ٹرالر الٹ گیا ہے، ساتھ ہی انھیں ترغیب دی گئی کہ وہ چاہیں تو ’’ لوٹ مچا دیں!‘‘ ہر عمر کے بچوں، عورتوں اور گاؤں کے مردوں پر مشتمل ایک بڑا مجمع اپنے اپنے گھروں سے ہر وہ برتن لے کر پہنچ گیا۔

جس میں وہ مفت کا پٹرول لوٹ کر لے جاسکتے تھے۔ بوتلیں، جگ، کنستر، گیلن، بالٹیاں اور ٹب۔ ( یہ سب کچھ ان وڈیوز میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جو کہ لوگوں نے لوٹ مار کے دوران بنائیں اور چینلوں کو بھیجیں) پھر جب کسی نے ہتھوڑے کے وار سے آئل ٹینکر کے سوراخ کو بڑا کرنے کی کوشش کی تو پٹرول نے آگ پکڑ لی۔ ( یہ محض مفروضہ ہے کیونکہ کوئی یہ بتانے کو غالباً بچا ہی نہیں ہو گا کہ ٹینکر نے آگ کیوں پکڑ لی)۔ ٹینکر دھماکے سے پھٹ گیا اور آگ نے وہاں موجود مجمعے کو پکڑ لیا۔155  سے زائد لوگ عین اس جگہ کے قریب جل کے راکھ ہو گئے جہاں غلام عباس کو پانچ سال پہلے زندہ جلایا گیا تھا۔‘‘ حالیہ اطلاعات کے مطابق، اس حادثے کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد اب بڑھ چکی ہے۔

ہمیں کیا علم کہ کون لوگ تھے جنھوں نے غلام عباس کو جلایا تھا… اس کی ذہنی حالت کے بارے میں کسی نے تصدیق کی؟ کہ ہمارے مذہب کی بہت سی عبادات سے بھی دیوانوں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس پر جو الزام لگایا گیا تھا ، اس کی جانچ اور تحقیق بھی نہ کی گئی تھی کیونکہ ہم سب ایسے ہی ہیں، جذباتیت میں قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ ہمیں کیا معلوم کہ وہ کون سا مقام تھا جہاں غلام عباس کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا تھا۔ کیسے کیسے واقعات کا سامنا ہمیںکرنا پڑتا ہے، کیا ہمیں کبھی احساس ہوتا ہے کہ ہمارے کسی عمل کی سزا ہمیں دنیا میں بھی مل سکتی ہے؟

بیماری، حادثات اور دیگر کئی نقصانات اسی لیے ہوتے ہیں کہ یا وہ ہمارے کسی بد عمل کی سزا ہوتے ہیں یا اللہ تعالی ہماری دراز رسی کو ذرا کھینچتا ہے۔ مگر ہم ان کے بارے میں یہی گمان کرتے ہیں کہ ہمیں دشمنوں کی بد نظر لگ گئی ہے۔ ہاں جب کسی اور کے ساتھ کچھ برا ہوتا ہے تو ہمیں فوراً علم ہو جاتا ہے کہ یہ ان کے کیے کی سزا ہے، انھوں نے فلاں وقت کسی کے ساتھ ایسا کیا تھا تو انھیں اس کی سزا ملی تھی۔ اسے عرف عام میں مکافات عمل کہتے ہیں۔

درست ہے کہ ہم اپنے افعال کے لیے بہترین وکیل اور دوسروںکے لیے بہترین جج ہوتے ہیں ۔ ہمیں دوسروں کے معاملات کی ٹوہ بھی بہت ہوتی ہے، ان پر بغیر مانگے رائے دینا بھی ہم اپنا حق سمجھتے ہیں اور ہم بھول جاتے ہیں کہ خدا کی بے آواز لاٹھی سب کو ایک طرح سے ہانکتی ہے۔ اس کی دسترس سے کوئی محفوظ نہیں، نہ ہم اور نہ کوئی اور، وہ سب کو راہ ہدایت دکھاتا اور اس پر چلنے کی تاکید کرتا ہے، ہمیں مواقع دیتا ہے کہ ہم دو راستوںمیں سے درست کا انتخاب کریں اور اگر ہم راہ سے بھٹکے ہوئے ہوں تو وہ ہماری رسی کو ایک حد تک دراز کر کے دیکھتا ہے۔ مگر جہاں ہم اپنی انسانی حدود سے تجاوز کر کے خود کو خدا نما سمجھنا شروع کر دیں تو وہاں وہ ہمیں ہمارا اصل چہرہ اور اختیار کی حد بتا دیتا ہے۔

واقعات کو مکافات عمل سمجھنے سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہم ان سے عبرت اور آئندہ کے لیے سبق حاصل کریں۔ حکومت ایسے واقعات پر خاموش تماشائی بنی نہیں رہ سکتی۔ یہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے اور عین عید سے ایک دن پہلے رونما ہوا، اس سے ان گھروں میں صف ماتم بچھ گئی جہاں اگلے روزعید کی خوشیاں واقع ہوتیں… مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، جو جہاں عید منا رہا تھا، مناتا رہا۔ ایک طرف ٹیلی وژن پر اعلانات کیے جا رہے تھے کہ عید سادگی سے منائی جائے گی اور مسلسل پٹی چل رہی تھی کہ عید پر فلاں فلاں محکموں، ڈاکٹروں کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں، اسپتالوںمیں ایمر جنسی نافذ کر دی گئی ہے اور ساتھ ہی عید کے رنگا رنگ پروگرام اسی اہتمام سے چل رہے تھے جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

حیف ہے اس معاشرے پر۔ ایسے معاشروں کی اخلاقیات کو دور بیٹھے لوگ اپنے پیمانوں پر جانچ کر پوری قوم کو بے حس کہہ دیتے ہیں تو بے جا نہیں۔ دکھ ہوتا ہے سن کر مگر کیا کیا جائے، ہم اپنی ریپوٹیشن کے بارے میں فکرمند ہیں ہی کہاں۔ ہمیں موقع چاہیے جہاں ہم کچھ غلط ہوتا ہوا دیکھیں اور اسے سوشل میڈیا پر پھیلانے میں فخر محسوس کریں، اس بات کا کریڈٹ لے کر خوش ہوں کہ ہم نے سب سے پہلے اس معاملے کی رپورٹنگ کی ہے۔ کاش ہم سمجھ لیں کہ ہر انسان اپنے اعمال کا خود ذمے دار ہے، اس کی عزت اپنے ہاتھ میں ہے اور کسی ملک کا شہری ہونے کے باعث وہ اپنے ملک کی عزت ا ور ناموس کا ذمے دار بھی ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔