احمد پور شرقیہ میں قیامت صغریٰ کا منظر

نسیم انجم  اتوار 2 جولائی 2017
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

پاراچنار اور کوئٹہ میں دھماکے اور خودکش حملے عید کی خوشیوں کو ماند کررہے تھے لیکن جب دوسرے روز احمد پور شرقیہ میں المناک حادثہ پیش آیا تو فضاؤں میں غم کے بادل لہرانے لگے، ہر آنکھ اشکبار اور دل اداس ہوگیا، محض ایک چھوٹی سی غلطی نے قیامت صغریٰ کو جنم دیا اور تقریباً پورے گاؤں میں حشر بپا ہوگیا۔ اس بات سے بے شمار لوگ واقف ہیں کہ آگ سے کھیلنا بعض اوقات موت کا سبب بن جاتا ہے لیکن گاؤں کے سیدھے اور معصوم لوگوں کے ذہنوں میں تھوڑے سے فائدے کے لیے یہ بات ذہن میں نہیں آئی کہ کہیں کوئی حادثہ نہ پیش آجائے۔ عقل سے پیدل، دانائی سے محروم، علم سے بے بہرہ شخص کوئی غلطی نہ کر بیٹھے اور سگریٹ سلگاکر ننھے بچوں اور ان کے بڑوں کو موت کی وادی میں نہ دھکیل دے، سو یہی ہوا، اس شخص نے نہ صرف سگریٹ کے کش لیے بلکہ چلتے ہوئے سگریٹ کو جانے انجانے میں اس جگہ پھینک دیا اور پھر کیا تھا، دھماکا ہوا، شعلے بلند ہوئے، آگ بے قابو ہوئی اور وہاں موجود لوگوں کو جلاکر بھسم کردیا۔ وہ جیتے جاگتے ہنستے بولتے، عید کی خوشیوں کے منتظر کوئلوں کی شکل اختیار کر گئے۔

استغفر اﷲ۔ ہر سمت جلی ہی لاشیں اور لواحقین کی آہ و بکا، ایک ایک گھر سے کئی کئی جنازے اٹھے، کہرام مچ گیا اور پھر اس حادثے کے بعد ہی حبس اور گرمی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ بہن بھائی، والدین اور عزیز و اقارب کی آہوں نے چنگاریوں کی شکل اختیار کرلی، یہ چنگاریاں پورے ملک میں اڑنے لگیں۔ ہر صاحب دل جھلسا، وزیراعظم جو عمرہ کرکے لندن تشریف لے گئے تھے وہ بھی زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے آگئے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس موقع پر کہاکہ نواز شریف صاحب کو کوئٹہ اور پارا چنار میں بھی جانا چاہیے تھا۔ آخر وہ وہاں کیوں نہیں گئے؟ وہاں بھی ایسی ہی قیامت اتری تھی۔ جس ملک میں علم کی روشنی گل ہونے لگے تو اندھیرے دور دور تک پھیل جاتے ہیں۔

گاؤں کے چوہدری، وڈیرے اپنے ہاریوں اور کسانوں کو غلام بناکر رکھتے ہیں، تشدد کرتے ہیں، انھیں جانوروں سے بدتر سمجھتے ہیں، ایسا ہی حال حکومت کا ہے۔ وزیرتعلیم اور سیکریٹری تعلیم اور دوسرے وزرا اور مشیروں کی طرح عوام کی محنت کی کمائی پر اپنا پور احق رکھتے ہیں اور زندگی کی رعنائیوں سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن تعلیم کو لازمی اور عام کرنے کے لیے لوگوں کو آگاہی نہیں پہنچاتے ہیں، شعور جیسی انمول دولت سے محروم رکھتے ہیں، اگر حادثے کی نذر ہونے والوں کو ذرا سی بھی سمجھ ہوتی تو وہ کبھی خطرناک ترین چیز کے گرد چکر نہ کاٹتے، نہ ہی ان کے کسی بزرگ نے انھیں سمجھایا، وہ بالٹیاں، ڈبے بھر بھر کر لے جارہے تھے، گھر پہنچاکر دوبارہ آجاتے۔ احمد پور شرقیہ میں کوئی تھانہ اور اس کا ایس ایچ او، ڈی سی موجود نہیں تھا کہ جو اپنا فرض نبھاتا اور حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہجوم کو منتشر کردیتا احتیاطی تدابیر لازمی ہوتی ہیں۔ لیکن افسوس! پاکستان کے تقریباً ہر ادارے میں لاپرواہی اور بے حسی عروج پر ہے۔

ٹی وی چینلز پر مختلف اشیا کے ہزاروں اشتہارات نظروں سے گزرتے ہیں ان میں زیادہ تر اشتہارات کو دیکھ کر باہر کے چینلز کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور وہ بھی اشتہارات نظر آتے ہیں جو ان لوگوں کے حوالے سے ہوتے ہیں جو سادہ لوح یا کمزور ایمان کے لوگوں سے پیسہ بٹورنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ خصوصاً وہ ماہر نجوم جو نگینوں کے ذریعے انسان کی قسمت بدلنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ استخارہ کرنے والے لیکن لوگوں کو آگہی پہنچانے انھیں حادثات سے بچانے کی تدابیر سے مطلع کرنے کے لیے کوئی بھی صاحب بصیرت ٹی وی پر اشتہارات چلوانے کی زحمت گوارا نہیں کرتا، اگر آج پٹرول سے جھلسنے اور شہید ہونے کو یہ بات ازبر ہوتی کہ ذرا سی بھول جان لے گی اور عیدکی خوشیوں کو بھسم کردے گی تو کبھی یہ غلطی نہ کرتے۔ اسی قبیل کی بہت سی باتیں ایسی ہیں جن سے عوام واقف نہیں، حکومت کا ہی کام ہے کہ بذریعہ چینل لوگوں کو آگاہ کرے، حادثات سے بچنے کے لیے طریقے بتائے، غربت و افلاس کی چکی میں صبح و شام پسنے والے لوگ خیرات و زکوٰۃ کی رقوم سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اس پیسے پر غریبوں کا حق ہے اسلام اعتدال اور امرا و غربا میں دولت کی مساوی تقسیم کا حکم دیتا ہے تاکہ زکوٰۃ و خیرات کی رقم سے غریب کے گھر کا چولہا جلتا ہے اور وہ عید کی خوشیوں میں برابر کا شریک ہوسکے۔

لیکن مسکینوں، بیواؤں کے حصے کی رقم تو افسران بالا آپس میں ہی تقسیم کرلیتے ہیں اور تو اور حکومت کے گوداموں میں ذخیرہ کی ہوئی گندم کی بوریاں پھپوندی اور کیڑوں کی نذر ہوجاتی ہیں لیکن غریب کے بھوکے شکم کی آگ بجھانے سے محروم رہتی ہیں پچھلے دنوں اخباری خبر کے مطابق سندھ حکومت کی بے توجہی کے باعث سیکڑوں من گندم خراب ہوگئی۔

اگر پاکستان کے تمام صوبوں میں تعلیم کو عام اور خوشحالی کو فروغ دیا جاتا تو احمد پور شرقیہ کے لوگ اس طرح جل کر نہ مرتے، غربت اور افلاس بہت سے مسائل اور جرائم کو جنم دیتے ہیں۔ اس موقع پر ایک بڑی اہم بات ذہن کے گوشے میں دستک دے رہی ہے وہ یہ کہ اس قسم کے سانحات آئے دن پیش آتے ہیں، کبھی ایک معمولی سی غلطی پر ایک معمر شخص کو پورا مجمع تشدد کا نشانہ بناتا ہے تو کبھی ڈاکوؤں اور چوروں کو زندہ جلادیا جاتا ہے، کبھی طالب علموں کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے جس طرح ایک سازش کے تحت مشال کے ساتھ ہوا۔ ان واقعات کی لوگ ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر فوراً ڈال دیتے ہیں لیکن ویڈیو بنانے والے انسانیت کی لاش کوئلہ ہوتے دیکھتے اور اسے اپنے کیمرے میں محفوظ کرلیتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں کرتے کہ پولیس، رینجرز، چھیپا اور ایدھی سینٹر میں فون کردیں کہ وہ فوراً مدد کو پہنچیں۔

چونکہ یہ امر ویڈیو بنانے سے کروڑوں درجہ بہتر ہے، ایک انسان کی جان بچانا گویا انسانیت کو بچانا ہے۔ احمد پور شرقیہ کے واقعہ کا سب سے بڑا قاتل ڈرائیور ہے جس نے ٹرک اور اس کے پٹرول کو شہریوں کے حوالے کردیا اور اس نے اعلیٰ حکام کو اطلاع کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اگر زندہ ہے تو اسے سرعام پھانسی دینی چاہیے لیکن ہمارے ملک میں تو فوری انصاف کا حصول ناممکن ہے۔ بڑے سے بڑا دہشت گرد جیلوں میں بند ہے۔ ثبوت موجود ہیں لیکن عدالت کو کس کی گواہی کا انتظار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔