ایک ممبر قومی اسمبلی کا شکریہ

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 3 جولائی 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

راقم نے ماہ فروری میں عوام کے ایک اہم مسئلے پر کالم بعنوان ’’ذاتی رہائش کا مسئلہ اور چند تجاویز‘‘ لکھا تھا، جس پر قارئین کا بہت اچھا ردعمل موصول ہوا تاہم ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ کراچی شہر سے تعلق رکھنے والی ایک ممبر قومی اسمبلی محترمہ کشور زہرہ نے اس کالم کو پڑھنے کے بعد راقم کو فون کیا اور کہا کہ وہ کالم میں پیش کی گئی تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے اس اہم عوامی مسئلے پر قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کریں گی۔

مجھے یہ بات لکھتے ہوئے بہت مسرت ہو رہی ہے کہ فروری کے مہینے میں یہ کالم شایع ہوا اور محترمہ کشور زہرہ نے اپنے وعدے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے بائیس مارچ کو قومی اسمبلی میں یہ بل جمع بھی کرادیا اور مجھے اس بل کی ایک کاپی میل بھی کردی۔ میں محترمہ کی اس کاوش اور فوری توجہ پر نہ صرف اپنی بلکہ اس ملک کے مسائل زدہ تمام عوام کی جانب سے تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ دیگر اراکین قومی اسمبلی بھی اس بل کو جلد از جلد عملی شکل میں لے آئیں گے جس سے تمام لوگوں کو نہ سہی لیکن بے گھر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی ذاتی رہائش میسر آسکے گی۔

اس بل کے چند خاص پہلو یہ ہیں کہ یہ صرف کراچی نہیں بلکہ پورے ملک کے بے گھر لوگوں کے لیے ہے، اس پر عمل درآمد کے لیے باقاعدہ ایک بورڈ تشکیل دیا جائے گا، اس بورڈ کے توسط سے بے گھر لوگوں کو رہائشی یونٹ (تیار مکانات) ماہانہ قسطوں پر فراہم کیے جائیں گے جس کی وصولی ملازمین کی تنخواہوں سے کی جائے گی، خواہ مکان حاصل کرنے والا سرکاری ملازم ہو یا کسی نجی ادارے کا۔ رقم کی وصولی کی مدت دس سال رکھی جائے گی۔

اس منصوبے کے لیے رقم حکومت اور دیگر ملکی اور بین الاقوامی فلاحی اداروں کے تعاون سے حاصل کی جائے گی۔ ماہانہ قسطوں پر مکان حاصل کر نے والے شخص کی اگر آدھی قسطیں ادا ہوچکی ہوں اور اس کا انتقال ہوجائے، جب کہ اس کے چھوٹے بچے ہوں تو بقایا قسطیں معاف کردی جائیں گی۔

یہاں راقم نے چند ایک اہم باتوں کا ذکر کیا ہے، اسمبلی میں دوران بحث اس میں مزید بہتر تبدیلیاں بھی کی جاسکتی ہیں، تاہم اس کالم کے توسط سے راقم کی گزاش ہے کہ اس بل میں رقم کی وصولی کی کل مدت دس سال کے بجائے بیس سال رکھی جائے، اس طرح غریب اور مڈل کلاس لوگوں پر ماہانہ قسط کا بوجھ کم سے کم ہوجائے گا اور تقریباً اتنا ہی ہوجائے گا جتنا کہ وہ کسی مکان کا ماہانہ کرایہ ادا کرتے ہیں، نیز اس کے ساتھ یہ شرط لازمی رکھی جائے کہ اس منصوبے کے تحت حاصل کیے جانے والے مکانات بیس سال تک ناقابل فروخت ہوں گے، اس شرط کے باعث کسی بھی قسم کی لینڈ مافیا یا کوئی اور مافیا یا گروہ اس منصوبے کا ناجائز استعمال یا فائدہ حاصل نہیں کرسکے گا۔

تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ حکمرانوں کی غفلت، غلط حکمت عملی اور سرمایہ داروں کا اس طرف سرمایہ داری میں لامحدود منافع کمانے کا کردار اس مسئلہ کو آج اس سطح پر لے آیا ہے کہ اب انیس، بیس گریڈ کا ایک ایماندار سرکاری افسر بھی اپنا ذاتی مکان بنا نہیں سکتا۔ جیسا کہ راقم نے اپنے پچھلے کالموں میں بھی اس طرف توجہ دلائی تھی کہ شہروں خصوصاً کراچی میں جس تیزی سے جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، وہیں کرائے کے نرخ بھی تیزی سے بڑھے ہیں اور اب یہ حال ہے کہ جو شخص جس طبقے سے بھی تعلق رکھتا ہے، یعنی وہ لوئر مڈل کلاس کا ہو یا مڈل کلاس کا، کرائے کی مد میں اسے اپنی آدھی تنخواہ ہر مہینے مالک مکان کو دینی پڑتی ہے۔ مڈل اور لوئر مڈل علاقوں میں بھی آج ایک سو بیس گز کے پورشن مکان کا کرایہ بھی بیس ہزار سے بڑھ گیا ہے۔

عموماً کرایہ بڑھانے کی غرض سے کسی بہانے کرائے دار سے گھر بھی خالی کرایا جاتا ہے، کبھی خود مجبوراً کرایہ دار اپنا گھر تبدیل کرنے پر مجبور ہوتا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ اس شفٹنگ میں کم از کم پچاس ہزار روپے لگ جاتے ہیں، کوئی گاڑی والا سامان کا ایک چکر بھی ہزار روپے سے کم نہیں لگاتا ہے۔ مختصر یہ کہ کرائے دار کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں۔

راقم نے اس مسئلے کے حل سے متعلق اپنے مختلف کالموں میں کئی تجاویز دی تھیں مثلاً ایک صورت یا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایسے افراد جو سرکاری ملازم ہوں، ان کو ان کا اپنا ادارہ خود اپنے پاس سے یا حکومتی بینک کے توسط سے مکان خریدنے کی مد میں پچاس سے اسی فیصد بلاسود قرضہ دے اور قرضہ کی وصولی کے لیے ملازمیں کی ماہانہ تنخواہوں سے قسط منہا کر لی جائے۔ یوں پانچ سے دس سال میں یہ قرضہ ختم ہوجائے گا اور قرضے کی واپسی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں بنے گا۔

اسی طرح وہ افراد جو پرائیویٹ ملازم ہیں، ان کو بھی بلاسود (ہاؤس بلڈنگ فنانس کی طرز پر) مکان کی خریداری کے لیے پچاس فیصد قرضہ بلاسود دیا جائے، مگر ان پر قانونی پابندی عائد کردی جائے کہ قرضہ پر لی گئی جائیداد بیس یا تیس سال تک قابل فروخت نہیں ہوگی۔ اس عمل سے صرف حقیقی بے گھر افراد ہی اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکیں گے، موقع پرست اپنی کارروائی نہیں دکھا سکیں گے۔

اس قسم کے بے گھر افراد کے لیے ایک اور اسکیم یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ لوگ جو بمشکل صرف ماہانہ کرایہ ہی نکال سکتے ہیں انھیں بنے بنائے مکانات قسطوں پر فراہم کرکے بیس، پچیس سال میں کل رقم وصول کرلی جائے۔ اسی طرح ایک اور تجویز یہ ہے کہ حکومت بلڈرز کو زمین اس شرط پر مفت فراہم کرے کہ وہ اس زمین کا گراؤنڈ فلور خود استعمال کرے اور فروخت کرے، مگر فرسٹ فلورکے رہائشی یونٹ بنا کر کرائے پر رہنے والوں کو فوری قبضے پر دے اور ان سے ماہانہ آسان قسطوں پر رقم وصول کرے، اور اس اسکیم میں بھی رہائشی یونٹ فروخت کرنے پر کم از کم بیس سال تک پابندی عائد ہو۔

درحقیقت کرائے کے مکانات میں رہنے والوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ماہانہ ایک معقول رقم تو ادا کرسکتے ہیں مگر ان کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ یکمشت ادا کرکے کوئی فلیٹ یا مکان وغیرہ خرید سکیں۔ ویسے بھی ہر کرایہ دار ماہانہ کرایے کی رقم تو ادا کرتا ہی ہے، اب صرف اتنا سا مسئلہ ہے کہ کسی طرح انھیں قبضہ پہلے دے دیا جائے، کل رقم وہ مکان میں رہتے ہوئے ماہانہ کرائے یعنی قسط کی شکل میں ادا کرتا رہے گا۔

اس ضمن میں ناجائز فائدہ اٹھانے سے روکنے اور حق دار کو رہائش فراہم کرنے کے لیے دو طریقے بہت کارگر ثابت ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ نادرا سے ریکارڈ لیا جائے کہ کون کون کرائے دار ہے؟ اور دوسرا یہ کہ اس قسم کی اسکیم کے تحت مکان کی فروخت پر بیس سال تک کی پابندی عائد ہو، نیز اسی طرح سے ووٹر نمبر بھی طلب کیا جائے، اس عمل سے بے گھر حقیقی شہری کو یہ سہولت مل سکے گی۔

راقم نے پہلے بھی یہ تجاویز دی تھیں ان پر کوئی این جی او بھی عمل کرسکتی ہے (چاہے وہ سو پچاس افراد ہی کو مکان فراہم کرسکے) اور بلڈرز حضرات بھی یہ کام کرسکتے ہیں، جب کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیے بھی کوئی مشکل کام نہیں، تھوڑی بہت تعداد کی یہ بھی مدد کرسکتے ہیں ان تجاویز کی شکل میں۔ ہر صاحب حیثیت اپنی گنجائش کے مطابق اپنے شناسا لوگوں کو یہ سہولت پہنچا سکتا ہے، خاص کر مذہبی ذہن رکھنے والے یہ عمل کرکے بہت بڑی نیکی کما سکتے ہیں، کیونکہ بحثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ سود پر قرضہ لینا اللہ اور اس کے رسول سے جنگ ہے اور جو کوئی کسی دوسرے کو بلاسود قرضہ دے دے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے سود کے حوالے سے یہ جنگ ختم کرنے میں بہت بڑا کر دار ادا کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔