ملا واحدی، معاصرین کی نظر میں

رفیع الزمان زبیری  پير 3 جولائی 2017

جلیل قدوائی بتاتے ہیں کہ واحدی نہ ان کا نام تھا نہ خاندانی یا قلمی لقب۔ نام تو ان کا سید محمد ارتضیٰ تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں ایک دن اپنے ہم جماعت مشتاق احمد زاہدی سے مذاق میں کہنے لگے ’’تم زاہدی تو ہم واحدی‘‘ پھر یہ اتفاقی نام انھیں ایسا راس آیا کہ لوگ ان کا اصلی نام بھول گئے اور وہ اسی نام سے مشہور ہوگئے۔

راشد اشرف نے ’’ملا واحدی معاصرین کی نظر میں‘‘ کے عنوان سے جو کتاب مرتب کی ہے، اس میں شامل اپنے مضمون میں جلیل قدوائی لکھتے ہیں ’’میری ان کی سولہ برس سے زائد ہمسائیگی و ہم نشینی رہی۔ وہ خدا ترس، خداشناس، پاک دامن، پاک نہاد، نیک سرشت، نیک نفس، نرم خو، نرم گفتار تھے۔ کسی نے ان کی زبان یا قلم سے دکھ نہیں پایا۔ وہ قول کے کھرے فرشتہ صفت انسان تھے۔ جھوٹ اور ریاکاری سے انھیں چڑ تھی‘‘۔

واحدی صاحب دلی کے رہنے والے تھے۔ اسکول کے دنوں سے لکھنا شروع کردیا تھا۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی میں غیر افسانوی ادب، سیرت نگاری، آپ بیتی، سفرنامے سب ہی میں اپنے جوہر دکھائے۔ سیرت پاک پر ان کی کتاب ’’حیات سرور کائنات‘‘ ایک بڑا کام ہے۔ واحدی صاحب کا خواجہ حسن نظامی سے عقیدت کا رشتہ تھا، ماہنامہ رسالہ نظام المشائخ کے پچاس سال ایڈیٹر رہے۔ تاثرات کے عنوان سے اخبار میں کالم لکھتے رہے جو بعد میں کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ کئی ہفتہ وار پرچوں کی ادارت کی۔

رازق الخیری صاحب بتاتے ہیں کہ واحدی رسالوں کی ایڈیٹری ہی نہیں کرتے تھے، دفتر کی منیجری بھی کرتے تھے۔ وہ بہت سی مقبول کتابوں کے ناشر بھی تھے۔ ان میں غیر معمولی انتظامی قابلیت تھی اور یہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔ وہ لکھتے ہیں ’’واحدی صاحب کے والد انجینئر تھے، اپنے بعد انھوں نے بہت سی جائیداد چھوڑی جو سب کی سب واحدی صاحب نے اپنے صحافتی اور ادبی ذوق کی نذر کردی‘‘۔

واحدی صاحب کی زندگی بڑی منظم تھی۔ وہ بہت سویرے جب پو پھٹتی ہے بیدار ہوتے، نماز فجر سے فارغ ہوکر دو تین میل کی ہوا خوری کو نکل جاتے۔ پھر واپس آکر ناشتہ کرتے اور دفتر میں کام شروع کردیتے۔ وہ بہت ہی محنتی اور جفاکش انسان تھے۔ ظہر کی نماز اور دوپہر کے کھانے کے بعد کچھ دیر آرام کرنے کے عادی بھی نہ تھے۔ عصر کے وقت تک وہ مسلسل کام کیے جاتے اور درمیان میں ملنے جلنے والے آتے تو ان سے بھی باتیں کرتے رہتے۔ کھانا ہمیشہ انھوں نے مردانے میں کھایا، عشا کی نماز پڑھ کر نو بجے سوجایا کرتے تھے۔ دلی کے میونسپل کمشنر منتخب ہوئے تو اپنے علاقے کے لوگوں کی بہبود میں لگ گئے۔ اصولی آدمی تھے، کبھی قاعدے قانون کے خلاف کوئی کام نہ کیا۔

صادق الخیری نے ایک الگ انداز سے ملا واحدی کی شخصیت بیان کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دلی میں واحدی صاحب کا مکان ایک تاریخی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ وہ مکان تھا جہاں برسہا برس خواجہ حسن نظامی مقیم رہے۔ یہ فخر واحدی صاحب کے مکان کو ہی حاصل ہے کہ اسے مولانا ظفر علی خاں، نیاز فتح پوری، علامہ اقبال، مولانا حسرت موہانی، مولانا عبدالحامد دریا آبادی، عبدالحکیم شرر اور نہ جانے کون کون شعر و ادب کی عظیم شخصیات اور نامور علما نے زینت بخشی۔

صادق الخیری لکھتے ہیں ’’پاکستان آنے کے بعد واحدی صاحب کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس عرصے میں انھوں نے جو کچھ کیا، جو سوچا اور ان پر جو گزری وہ ان کی پچھلی زندگی سے یکسر مختلف تھی اور میرا خیال ہے ان کا یہ دور زیادہ مذہبی، زیادہ فلسفیانہ اور زیادہ بین تھا‘‘۔ واحدی صاحب کی طبیعت کا یہ انداز ان کے ان خطوط سے ظاہر ہوتا ہے جو صادق الخیری نے اپنے مضمون میں شامل کیے ہیں۔

مختار مسعود ملا واحدی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کے تین امتیازات ہیں۔ عبارت، ادارت اور رفاقت۔ ان کی عبادت میں ستر برس کی مشق اور مہارت شامل ہے، ادارت کا یہ حال ہے کہ ایک وقت میں اکٹھے نو رسائل کے مدیر اور مہتمم تھے، جہاں تک رفاقت کا تعلق ہے تو وہ شہروں میں دلی کی اور انسانوں میں خواجہ حسن نظامی سے۔ واحدی صاحب کی زندگی میں کوئی تصنع نہیں ہے، جو سوچتے ہیں وہی کہتے ہیں، لکھتے ہیں اور اسی پر عمل کرتے ہیں۔

مختار مسعود لکھتے ہیں ’’نوائے وقت‘‘ میں جب ’’تاثرات‘‘ کے عنوان سے واحدی صاحب کا کالم چھپنے لگا تو پہلا کالم پڑھتے ہی دل مچل گیا اور واحدی صاحب کو جاننے اور ان سے ملنے کی خواہش پیدا ہوگئی۔ اکثر تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ مصنف کی ذات ان میں ڈھکی چھپی رہتی ہے اور بعض ایسی ہوتی ہیں جوکہ مصنف کو ان سے علیحدہ کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ واحدی صاحب اپنی تحریروں میں نمایاں رہتے ہیں۔ ان کی تحریر ایک طرز نگارش سے زیادہ ایک طرح حیات سے عبارت ہے۔

مغلیہ تہذیب کی وراثت، خاندانی شرافت کا سرمایہ، مرشد کی خاص عنایت ظاہر ہے۔ ہر وقت کا تعین، لکھنے پڑھنے کا شوق اور کاروبار محبت کی عادت، معاملگی کی دیانت، عہد کا پاس، عروس البلاد سے وابستگی، دین کا ذوق، حضورؐ کی محبت اور خدائے بزرگ و برتر کے فضل و کرم پر ایمان کامل حاصل ہو تو لکھنے والے کی ذات تحریر کے ہر لفظ اور فکر ہر انداز میں جھلکتی ہے۔ ساری عمر اگر ایک خاص ڈھب سے گزرتی ہو تو سوچ کا یہ ہمہ گیر پختہ اور یکساں انداز نصیب ہوتا ہے۔‘‘

انور خلیل مشہور صحافی ہیں۔ انھوں نے واحدی صاحب سے ایک لمبی ملاقات یوں سمجھ لیجیے ایک انٹرویو کیا۔ واحدی صاحب نے اپنے زندگی کے واقعات سنائے، اپنے دوستوں کا ذکر کیا۔ اس ملاقات کے حوالے سے انور خلیل لکھتے ہیں کہ واحدی صاحب نے شعر کہنے شروع کیے پھر شاعری چھوڑدی۔ شاید اس لیے کہ شاعری کے موضاعات جو زیادہ تر عشقیہ ہوتے ہیں ان کے مزاج سے لگاؤ نہیں رکھتے تھے۔ ان پر جوانی آئی تو ایک دینی اور ثقہ رسالے کی ایڈیٹری ساتھ لائی۔ جوانی ان پر نہیں چھائی انھوں نے جوانی کو مغلوب کرلیا۔

واحدی صاحب نے انور خلیل کو بتایا کہ شمس العلما ذکا اللہ پہلے بڑے آدمی تھے جن سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ان ہی کے ہاں وہ مولانا محمد حسین آزاد سے ملے۔ مولانا حالی کو بار بار دیکھا مگر ملاقات نہ ہوئی۔ مولانا شبلی سے اکثر ملاقاتیں ہوئیں۔ واحدی صاحب نے دو آدمی ایسے دیکھے کہ ان کی شخصیت سے ان کی طبیعت کا اندازہ نہیں ہوسکتا تھا۔

ایک مصور غم علامہ راشد الخیری اور دوسرے اکبر الٰہ آبادی۔ کہنے لگے ’’آپ سوچتے ہوںگے راشد الخیری دقیانوسی قسم کے کوئی بزرگ ہوںگے جو ہر وقت تصویر غم بنے رہتے ہوں گے لیکن ان سے زیادہ ہشاش بشاش آدمی میں نے نہیں دیکھا۔ اکبر الٰہ آبادی کے بارے میں لوگوں کا خیال ہوگا کہ ہر وقت ہنستے ہنساتے رہتے ہوںگے۔ ہنساتے تو وہ تھے لیکن خود نہیں ہنستے تھے۔ میں نے انھیں کبھی مسکراتے نہیں دیکھا‘‘۔

مولانا محمد علی کا ذکر کرتے ہوئے واحدی صاحب کہنے لگے کہ ایک زمانے میں ان کا معمول تھا کہ وہ ہر جمعہ کو نماز پڑھ کر گھر جانے کے بجائے میرے ہاں آجاتے تھے اور عشا تک رہتے تھے۔ کھانا گھر سے منگاتے کہ پرہیزی ہوتا تھا مگر کھاتے میرے ساتھ ہی تھے۔

ڈپٹی نذیر احمد سے واحدی صاحب کی ملاقات خواجہ حسن نظامی کے ساتھ ہوئی۔ ان دنوں مولانا شرر کا ناول ’’بدرالفاء‘‘ تازہ تازہ چھپا تھا اور اس کی بڑی شہرت تھی۔ اس میں پردہ کی مخالفت کی گئی ہے۔ خواجہ صاحب نے ڈپٹی صاحب سے پوچھا ’’پردے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ ڈپٹی نذیر احمد بلند آواز سے بولتے تھے، زور سے بولے ’’آپ کس پردے کی بات کررہے ہیں، لڑکیوں کے پردے کی یا لڑکوں کے پردے کی؟ زمانہ اب ایسا آگیا ہے کہ میرے خیال میں لڑکوں کو بھی پردہ کرنا چاہیے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔