رمضان پروگرام…تلخ حقائق

ڈاکٹر یونس حسنی  منگل 4 جولائی 2017

اس سال ہدایت نامہ جاری کیا گیا کہ رمضان کے پروگراموں میں کوئی قابل اعتراض بات برداشت نہیں کی جائے گی اور کوئی ایسا کام برداشت نہیں کیا جائے گا، جو رمضان کے تقدس کو پامال کرنے کا باعث ہو۔

ہمیں خوشگوار حیرت ہوئی کہ ہمارے اداروں کو ابھی مذہبی اقدارکا احترام ہے اور وہ ان اقدار کا احترام کرانے پر کمربستہ ہیں۔

مگر ہوا یہ کہ اس سال بھی بیشتر معروف و مقبول چینلوں نے دوسرے سالوں سے کہیں زیادہ دیدہ دلیریاور مکمل اعتماد کے ساتھ پروگرام نشر کیے۔ ایک دو چینل ایسے ضرور تھے جو رمضان کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر پروگرام کرتے رہے اور اپنے طور پر محتاط انداز اختیار کیے رہے۔ ہمیں یقین کامل ہے کہ ان چینلوں کی ریٹنگ ضرور خراب ہوئی ہوگی۔

برا ہو اس تاجرانہ ذہن کا جو ہر چیزکو بکاؤ مال بنا دیتا ہے اور اس بار اسلام کی گرم بازاری کچھ زیادہ ہی رہی اور دام سستے اور کاروبار میں تیزی رہی۔

رمضان تزکیہ نفس کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں روزہ سلم ہونے کے لیے نہیں رکھا جاتا بلکہ حکم خداوندی کی تعمیل میں رکھا جاتا ہے اگر کوئی اسمارٹ بننے کے لیے روزہ رکھے تو وہ محض اسمارٹ بن کر رہ جائیگا البتہ ثواب سے محروم رہے گا۔ نمازوں کی پابندی غربا اور مساکین سے ہمدردی اپنے پاس پڑوس کے لوگوں کو افطارکی فکر اور کثرت تلاوت اس ماہ کی خصوصیات ہیں مگر برا ہو پروگراموں کا کہ انھوں نے بنام اسلام شعائر اسلام کی دھجیاں اڑانے کا سامان فراہم کیے رکھا عین وہ وقت جو افطار کا ہوتا ہے جس میں خواتین افطار تیار کر کے دوسروں کو افطار کرا رہی ہوتی ہیں وہ وقت مخلوط محفلوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ اسپانسر کے فراہم کردہ افطار سے جی بھر کے افطار کیا جاتا ہے اور ثواب کسی کو بھی نہیں ملتا کہ یہ افطار اللہ کی رضا کے لیے نہیں کمپنی کی مشہوری کے لیے کیا جاتا ہے۔

پردہ شعائر اسلام میں داخل ہے۔ اگرچہ اس کا رواج اٹھتا جاتا ہے اور اس کی روح پہلے ہی مجروح ہو رہی ہے مگر جس طرح خواتین نک سک سے درست ہوکر کیمرے کے سامنے آنے کے لیے بیقراری کے مظاہرے کیساتھ پروگرام میں شریک ہوتی ہیں اتنی بے قراری تو انھیں بھوک پیاس اوراس کے نتیجے میں افطار کے لیے بھی نہیں ہوتی۔

افطار کے فوراً بعد انعامات کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ انعامات بارش کی طرح برستے ہیں اور اس وقت اینکر کسی شہنشاہ سے کم تر نہیں ہوتا۔ یہ انعامات اسلامی تعلیم سے واقفیت، تاریخ سے آگاہی، مسائل دینی کی شدبد پر مبنی سوالات کے جوابات پر نہیں دیے جاتے بلکہ اینکر ’’مانگ کیا مانگتا ہے/مانگتی ہے‘‘ کہہ کر خود ہی عطا کردیتا ہے۔ مانگنے والے کی مراد بر آتی ہے۔ بعض اوقات تو پروگرام میں شامل افراد فرمائش کرکے انعامات حاصل کرتے ہیں اور اینکر کے تاحیات احسان مند رہتے ہیں۔ اس پروگرام میں کہیں احسان ایزدی کا ذکر نہیں آتا۔ رمضان کا تقدس سرے سے ملحوظ ہی نہیں رکھا جاتا۔ ان پروگراموں کے اینکر علم دین کو علم سینہ کے ذریعے منتقل کرتے ہیں اور ایک معانقہ میں سارا علم ایک ہی بار انڈیل دیتے ہیں۔

آپ علاج ڈاکٹر سے کراتے ہیں، مکان سول انجینئر سے بنواتے ہیں، حکمرانی سیاستدانوں سے کراتے ہیں، قانون کا نفاذ ججوں سے کراتے ہیں مگر اسلام اداکاروں، اداکاراؤں، کھلاڑیوں اور موسیقاروں سے سیکھتے ہیں۔

ہم نے بعض پروگرام بہ نظر خود دیکھ کر گناہ سمیٹا ہے، مگر اللہ گواہ ہے کہ ان پروگراموں میں ان کے ناموں کے علاوہ کہیں اللہ، رسول، اسلام، دین، شریعت کا نام سنا ہو تو قسم لے لیجیے۔ چلیے یہ نام نہ بھی سنتے مگر جس طرح یہ پروگرام پیش کیے گئے وہ اسلام کی بیخ کنی کا باعث تھے۔ وہ ہمارے معاشرے سے اسلامی شعائر کو بے دخل کرنے کی جرأت مندانہ کوشش ہے۔

ہم نے محسوس کیا کہ اس بے ہودگی کے سبب ہی صاحب علم اور متقی علمائے دین نے عام طور پر ایسے پروگراموں سے اجتناب کیا اور وہ ان میں شریک نہ ہوئے البتہ برائے بیت کچھ مولوی صاحبان بھی بعض پروگراموں میں شریک ہوتے رہے، ہوسکتا ہے وجہ شرکت ذریعہ شہرت رہی ہو۔

ان پروگراموں نے قوم کو انعامات کا بھوکا اور کوزہ گر کے طور پر پیش کیا ایک موٹرسائیکل کے لالچ میں ایک عورت اپنی تمام نسوانیت، تمام اسلامی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر غیر محرموں کے ساتھ موٹرسائیکل کی سواری پر فخر کرتی رہی۔ حالانکہ یہ تو کچھ ایسے پروگرام تھے جن پر حرمت شراب کی سی پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ یعنی شراب بنانا، بیچنا، ڈھونا، فراہم کرنا اور پینا سب کچھ حرام ہے۔

اسی طرح ان پروگراموں کو لکھنا، ان کو اسپانسر کرنا، ان کو نشر کرنا، ان کی ہدایات دینا، ان کا اینکر پرسن ہونا، ان سے انعامات وصول کرنا، ان کو نشر کرنا اور ان کو دیکھنا سب حرام ہیں کہ انھوں نے ہمارے معاشرے کو ایک ماہ مقدس میں بے غیرتی بے حمیتی اور اپنے شعائر سے بیگانگی کے اس مقام پر پہنچا دیا جس پر وہ اگر گرتے تو سالوں لگ جاتے۔ ہمیں اپنے مذہب اور اس کی اقدار سے بے نیاز کرنے کا اس قدر تیز رفتار نسخہ اس سے پہلے کبھی نہیں آزمایا گیا۔

گناہ گار تو یہ آنکھیں بھی ہیں مگر ارباب حل و عقل روز حشر کیا جواب دیں گے جب ان سے پوچھا جائے گا کہ تمہاری نگاہوں کے نیچے اور تمہاری سرپرستی میں وہ سرگرمیاں ہوتی رہیں جنھیں خود تم غلط سمجھتے تھے تو تم نے ان کو کیوں نہیں روکا جب کہ تم اس کی طاقت رکھتے بلکہ اس کام پر مامور تھے۔

ہمارے مولوی صاحبان نے ان پروگراموں کے خلاف آواز اٹھائی مگر اس وقت جب رمضان رخصت ہو رہا تھا اور ہم نے بھی یہ کالم جب لکھا تو رمضان ہاتھ سے جاتا رہا اور کسے معلوم کہ اگلے رمضان تک کیا ہو؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔