مدد کی منتظرایک بیٹی اور بیماریاں

شبیر احمد ارمان  منگل 4 جولائی 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

ملک میں صحت کا شعبہ خاص طور پر سرکاری اسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے، جہاں علاج ومعالجے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے، نجی اسپتالوںکی فیسیں غریبوں کے دسترس سے باہر ہیں  ایسے میں غریب جائیں توکہاں جائیں ؟ نتیجتا غریب ایڑیاں رگڑ رگڑکر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ، نہ داد نہ فریاد غریب یوں ہی سسک سسک کر جہاں سے گزر جاتے ہیں اورکوئی پوچھتا تک نہیں کہ کون مرا ہے کس کا جنازہ اٹھا ہے ، بے علاج غریب مریض کی موت ہمارے بے بس اور بے حس معاشرے کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتی، نہ جانے روزکتنے غریب مریضوں کی لاشیں ہم سے سوال کرتی ہوگی کہ تمہارے معاشرے میں غریبوں کی حیثیت کیڑے مکوڑوں کے سوا کچھ بھی نہیں،ایسے میں انسانیت یقینا کسی کونے میں منہ چھپائے ہمیں کوس رہا ہوگا اور ہم پھر بھی انسانیت کا لبادہ اوڑے انسانیت کے قتل عام پر مسکرا رہے ہوتے ہیں ۔ ان ہی بے بس غریب لاچار مسکین غریبوں میں سے سفید پوش ایک غریب مریضہ ایسی بھی ہے جو ایک ایسے عظیم باپ کی بیٹی ہے جس نے ہمیشہ اپنے قلم سے معاشرے کی آبیاری کی ہے۔

لیکن آج اس کی اپنی بیٹی موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتا کیوں کہ وہ منوں مٹی تلے ہے ۔ جی ہاں !  لیاری سے تعلق رکھنے والے بلوچی زبان کے نامور شاعر وادیب بیگ محمد بیگل ( مرحوم)  جہنوں نے اپنی پوری زندگی اردو ، بلوچی اور انگریزی زبان و ادب میں صرف کی ہے اور متعدد کتابیں تصنیف کیں ، صدارتی ایوارڈ کے حق دار ٹھہرے لیکن رواں سا ل وہ کسمپرسی اورگمنامی میں انتقال  کرگئے اور آج ان کی صاحبزادی لیلیٰ شبانہ گزشتہ دو سالوں سے بریسٹ کینسر جیسے مہلک مرض سے نبرد آزما ہے اور وہ روروکر کہتی ہے کہ آج اگر اس کے والد زندہ ہوتے تو وہ  اس طر ح سوالی نہ ہوتیں۔

لیلیٰ شبانہ کی تین اولادیں ہیں دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے تینوں کمسن ہیں ، وہ خود سندھ حکومت کی ملازمہ ہیں ، لیاری سندھ گورنمنٹ جنرل اسپتال میں بطور نرس کام کرتی ہیں ، وہ ایک عرصے سے دوسروں کی زندگی بچانے کے لیے دن رات مگن رہتی ہیں لیکن آج وہ خود اپنی زندگی بچانے کے لیے اپنا علاج کروانے میں بے بس اور مجبور نظر آتی ہیں، ان کی جمع پونجی اس مرض کے علاج میں خرچ ہوچکی ہیں ، مزید علاج کروانا اس کے دسترس سے باہر ہے ، اللہ کے بعد اس کی امیدیں خدا ترس انسانوں سے وابستہ ہیں کہ وہ اس کی مدد کریں۔

لیلیٰ شبانہ بتاتی ہے کہ وہ دو سالوں سے اپنے مرض بریسٹ کینسرکا علاج کرواتی رہی ہے ، اب دو سال بعد میں نے پھر ٹیسٹ کروائے ہیں جس کی رپورٹ کے مطابق میری ہڈیوں میں کینسر سرایت کر گیا ہے ، میری پوری کوشش ہے کہ میں اپنا علاج جاری رکھ سکوں لیکن کینسر کا علاج مہنگا ہونے اور تنگ دستی کی وجہ سے اپنا علاج جاری رکھنے سے قاصر ہوں ، اب ڈاکٹروں نے مزید ٹیسٹ لکھ کر دیے ہیں مگر غربت اس کی ا جازت نہیں دیتی ہے، ان ٹیسٹوں کی تخمینی لاگت تقریبا 60ہزار روپے بتائی جارہی ہے جو میرے پاس نہیں ہے ، جو کچھ میرے پاس روپے تھے وہ گزشتہ دو سالوں کے علاج و معالجے میں خرچ ہوچکے ہیں ، میں خود بھی لیاری جنرل اسپتال میں نرس ہوں ، لیکن اپنی بیماری کی وجہ سے ان دنوں چھٹیوں پر ہوں ، مجھے اپنے ادارے سے بھی کسی قسم کی مدد و تعاون حاصل نہیں ہے۔

مگر منتظر ہے کہ ایم ایس انہیں کوئی مدد مہیا کرسکیں، ان کا کہنا ہے کہ میں نے اس سلسلے میں سندھ حکومت سے علاج ومعالجے اور تعاون کی درخواست کی تو وہاں سے جواب ملا کہ پہلے اپنا علاج کروائیں اس ضمن میں جو رقم خرچ ہوگی اس کا بل بنا کر جمع کروائیں ۔  ان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے تھی کہ اگر میرے پاس اتنی رقم ہوتی تو میں اپنا علاج خود کرواتی ان سے ہمدردانہ درخواست نہ کرتی ۔ اس لیے اب میں بلوچستان کی صوبائی حکومت سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ میری مدد کریں ۔ لیلیٰ شبانہ نے روتے ہوئے کہا کہ آج اگر میرے والد زندہ ہوتے تو شاید مجھے علاج کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا نہ پڑتے ، وہ مجھے کبھی نہ کہتے کہ اووروں کے سامنے جھولی پھیلاؤ ، میرے والد جب تک زندہ تھے انھوں نے ہر ممکن حد تک میرے علاج کے لیے میری مدد کی ، ان کے انتقال کے بعد میں مجبور اور بے بس ہوں ، آج میں اپنی بلوچ قوم سے مدد طلب کررہی ہوں ۔ انھوں نے ہچکی لیتے ہوئے اور اپنے بہتے ہوئے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے قوم سے اپیل کی کہ وہ ان کے علاج و معالجے کے لیے ان کی مدد کریں تاکہ وہ اپنا علاج و معالجہ جاری رکھ سکیں۔

جو خدا ترس مخیر حضرات لیلیٰ شبانہ کی مدد کرنا چاہیں درج ذیل پتے پر رابطہ کریں ۔  لیلیٰ شبانہ  ، بینک  اکاؤنٹ نمبر 956018 نیشنل بینک آف پاکستان ، آگرہ تاج  برانچ ( 1065)۔   جزاک اللہ  ۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر سال 40 ہزار سے زائد خواتین چھاتی کے سرطان کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اس بیماری کی منتقلی میں مورثیت کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

قابل افسوس مقام یہ ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں صحت کا شبہ ناگفتہ بہ ہے ، سرکاری اسپتالوں کی حالت ایسی ہے کہ جومریض علاج کے لیے جاتا ہے۔ میت کی صورت میں اس کی واپسی ہوتی ہے ، نجی اسپتال غریبوں کے دسترس سے باہر ہیں ، ایسے میں کچھ نجی اسپتال ایسی ہیں جہاں عطائی ڈاکٹروں کا راج ہے جو انسانی جانوں سے کھیلتے ہوئے لوگوں سے رقم بٹورتے ہیں ایسے میں غریب مریض جائیں تو کہاں جائیں۔

اکا دکا کینسر کے جو اسپتال ہیں وہاں بھی بے سہارا مریضوں کا سفارشی نہ ہونے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔  ہمارے یہاں نظام صحت انتہائی کمزور ہے ، عوام الناس صحت کی بنیادی سہولتوں سے یکسر محروم ہیں ، قومی بجٹ میں شعبہ صحت کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، ملک میں کم عمر بچوں کی شرح اموات 952فی ہزار ہے ، ہر سال 30ہزار خواتین حمل سے متعلق پچیدگیوں سے موت کا شکار ہورہی ہیں ، منہ کے کینسر  کے مبتلا مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ، ٹی بی سے سالانہ ہلاکتوں میں شرح اموات 177فی لاکھ ہے ، ہر سال ملیریا کے 5لاکھ کیس رپورٹ ہوتے ہیں ، دل ، گردوں اور کینسر کی بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے ، ہیپا ٹائٹس بی اور سی ہولناک صورت اختیار کررہا ہے ، ملک میں 80ہزار افراد ایڈز کا شکار ہیں ، گیارہ فیصد افراد ذیا بیطس کا شکار ہیں ، 6 لاکھ سے زائد عطائی ڈاکٹر ز غریبوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔

حکومت کینسر  اور جنسی بیماریوں کے لیے کرشماتی دواؤں کی روک تھام کے لیے ڈرگ پالیسی بنانے میں ناکام ہے ، امراض نسواں کی بیماری فیٹیولا خواتین میں پائے جانے والی بیماری ہے ، یہ خواتین کی ایسی بیماری ہے جس سے نہ صرف بچا جا سکتا ہے بلکہ اس کا موثر علاج بھی ممکن ہے مگر افسوس ! پاکستان میں سالانہ ہزاروں خواتین اس بیماری کے باعث معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، فیٹیولا زچگی کا دورانیہ طویل ہونے سے ہوتی ہے ، خواتین لاحق ہونے پر الجھنوں کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ بلند فشار خون خاموش قاتل ہے ، پاکستان کی نصف آبادی کسی نہ کسی حد تک بلند فشار خون کے مرض میں مبتلا ہے ، پاکستان میں 20 لاکھ افراد مرگی کے مرض میں مبتلاہیں ، طبی ماہرین کے مطابق بڑھتی عمر کے ساتھ مرد اور خواتین جوڑوں میں درد کے علاوہ دیگر بیماریاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ اسی طرح دیگر بیماریاں عام سی بات ہے لیکن سستا اور معیاری علاج دن بہ دن غریب مریضوں کے دسترس سے دور ہوتا جارہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ غریب عوام جو ایک بیمار قوم ہے علاج کے لیے جائیں تو کہاں جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔