ان کی قربانیاں کیا اس لیے تھیں؟

زاہدہ حنا  بدھ 5 جولائی 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ان دنوں صف اول کے سیاسی رہنماؤں اور مختلف جماعتوں کے سیاسی کارکنوں کی کردار کشی کا جو سیلاب اُمڈا ہوا ہے، وہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہماری بنیاد اور نہاد میں وہ کون سی خرابی تھی جو کردار کشی کا یہ رویہ کسی عفریت کی طرح ہماری گردن اُدھیڑ رہا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کی تباہی و بربادی اور سیاسی رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کی بے توقیری کی تمام ذمے داری صرف جنرل ضیاء الحق پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد رواداری اور جمہوری اصولوں کے بجائے اقتدار کے لیے ایک آپا دھاپی مچ گئی۔ایسے میں یہ سیاسی رہنما ہوسکتے تھے جو لوگوں کو راستہ دکھاتے اور یہ سیاسی کارکن تھے جن کے ذریعے لوگوں کی سیاسی اور سماجی تربیت کی جاسکتی تھی لیکن پہلے دن سے ان تمام سیاسی رہنماؤں کو پیچھے دھکیلنے کا سلسلہ شروع ہوگیا جو ملک کی تعمیر میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرسکتے تھے۔

سندھ میں جی ایم سید اور ان جیسے دوسرے بے توقیر ہوئے‘ صوبہ سرحد میں باچا خان اور ان کے ساتھی غدار ٹھہرے۔ پنجاب میں وزارتوں کی بندر بانٹ میں بڑے جاگیر دار یوں مصروف ہوئے جیسے آزادی کا اصل مقصد یہی تھا۔ بلوچستان کا جس طرح بندوق کی نال پر الحاق کیا گیا وہ 1948ء کے ابتدا کی کہانی ہے۔ میر غوث بخش بزنجو اور دوسرے نوجوان بلوچ سیاسی رہنما جو الحاق کے لیے رضامند نہ تھے اسی وقت سے ’’غدار‘‘ ٹہرے اور گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ان سے وہی سلوک روا رکھا گیا جو حکمران ’’غداروں‘‘ کے ساتھ رکھتے ہیں۔

مشرقی بنگال جس کے ووٹوں کے بغیر پاکستان نہیں بن سکتا تھا۔ اسے اکثریت میں ہونے کے باوجود روز اول سے مغربی پاکستان کی نوآبادی تصور کیا گیا اور وہاں کے حقیقی سیاسی رہنماؤں کو دیوار سے لگادیا گیا۔ پنجاب میں ترقی پسند رہنما میاں افتخار الدین جو  پنجاب کی پہلی صوبائی کابینہ میں وزیر تھے اور جنہوں نے اگست 1947ء کو وزارت کا حلف اٹھایا ، وہ معاملات سے اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ صرف 3 مہینے بعد نومبر 1947ء میں وزارت سے مستعفی ہوگئے۔ مارچ 1948ء سے انھوں نے اپنے سیاسی مشن کی تکمیل اپنی صحافیانہ سرگرمیوں کے ذریعے چاہی‘ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا کہ صرف دس برس بعد ان کے ادارے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخباروں پر بندش اور سنسرکے کیسے عذاب نازل ہونے والے ہیں۔

راجا صاحب محمود آباد جن کے والد اور خود جنہوں نے اپنی دولت اور شب و روز محنت قیام پاکستان کے لیے صرف کی تھی، وہ مایوس ہوکر پاکستان ہی چھوڑ گئے۔ پاکستان کی پہلی کابینہ کے کئی مرکزی او رصوبائی وزیر چند برسوں کے اندر ’’غدار‘‘ ٹہرے۔ کوئی ایبڈوکی نظر ہوا اور کسی کا اخبار بند ہوا۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے شیخ ناظم الدین کو ’’قائد ملت‘‘ کے وزن پر ’’قائد قلت‘‘ کے توہین آمیز خطاب سے نوازا گیا۔ سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کے خون سے پاکستان کی سرزمین کو رنگنے کاکام تو اس کے قیام کے ایک برس پورے ہونے سے پہلے ہی شروع ہوگیا تھا۔ خان عبدالغفار خان اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کے خلاف بھابڑا میں ایک بڑا مظاہرہ ہوا۔ ان مظاہرین پر اس بے دردی سے گولی چلائی گئی کہ 600 سے زیادہ سیاسی کارکن مارے گئے۔

پاکستان بننے کے ہفتے بھر بعد تمام جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صوبہ سرحد کی حکومت برطرف کی گئی۔ سال بھر کے اندر خان عبدالغفار خان‘ عبدالصمد اچکزئی گرفتار ہوئے۔ خدائی خدمت گار تحریک خلاف قانون قرار دی گئی۔ سیاست کے ساتھ ساتھ صحافت پر جو افتاد پڑی، اس کا مظاہرہ صرف چھ مہینے کے اندر ہوا اور ایک اخبارکی اشاعت دو مہینے کے لیے بند کردی گئی۔ ایک غلط خبرکی اشاعت پر ملک بننے کے آٹھ مہینے بعد اس اخبار کے مدیر فیض صاحب گرفتار ہوئے۔ پاکستان بننے کے چند دنوں اور چند مہینوں کے اندر سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے لیے  غداری کے الزامات‘ قیدوبند ‘ذلت،بے توقیری اور دفعہ 144 توڑنے کی سزا میں زندگی سے رہائی کا جو نسخہ تجویز کیا گیا تھا، آنے والے دنوں میں جنرل ایوب ‘ جنرل ضیاء اور جنرل پرویز نے اس نسخے میں اپنی ہنرمندی سے اضافہ کیا۔

پنڈی سازش کیس میں گرفتار ہونے والے اور دوسرے کتنے ہی چہرے نگاہوں میں گھوم گئے ہیں جن میں سے بیشتر جان سے گزر گئے لیکن جن کی خدمات کا اعتراف تک نہیں کیا گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جمہوری اقدار کے تعاقب میں اپنی زندگیاں گنوادیں‘ اپنے گھر والوں کی ضرورتوں کو نظر انداز کیا ‘ ذاتی آسائشوں کی فکر نہ کی اور اس جہان سے ناکام و نامراد گئے۔

امام علی نازش یاد آرہے ہیں جو کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل تھے اور چند برس پہلے آدھے پھیپھڑے پر سانس لیتے ہوئے کراچی کے اوجھا سینی ٹوریم میں اس جہان سے رخصت ہوئے۔ ان کی تمام زندگی انڈرگراؤنڈ گزری‘ جب زیر زمین رہنے کا عذاب ختم ہوا تو عمر تمام ہورہی تھی اور سانس کا چلنا آکسیجن سلنڈر کا مرہون منت تھا۔ ڈی ایس ایف‘ این ایس ایف اور ایس این ایس ایف کے سیکڑوں نہیں ہزاروں کارکنوں کی جوانیاں جیلوں میں گزریں۔ آزادیٔ صحافت کے لیے ہمارے صحافیوں نے اور ٹریڈ یونین سے جڑے ہوئے رہنماؤں اورکارکنوں نے محنت کشوں کے حقوق کے لیے بے مثال جدوجہد کی۔

ان میں سے جانے کتنے لوگوں پر غداری کے مقدمے بنائے گئے۔ جام ساقی ترقی پسند سیاست کا ایک اہم نام‘ ایس این ایس ایف کا صدر ’’غدار‘‘ ٹھہرا۔ دس برس اذیتوں اور عقوبتوں کے ساتھ جیل کاٹی ‘ اسی دوران بیٹا ختم ہوا۔ بیوی نے خود کشی کی۔ اسی تنظیم کے بانی سینئر نائب صدر ندیم اختر نے اس وقت جیل کاٹی جب ان کے والد ایس پی  تھے۔ کیسے کیسے نام ہیں۔

شاہ محمد شاہ جس نے جیل کاٹی‘ ملک بدر ہوا ‘ طویل جلاوطنی گزاری‘ منہاج برنا ‘ معراج محمد خان‘ پیکر نقوی‘ خالد علیگ‘ حسن حمیدی‘ نعیم آروی‘ احفاظ الرحمان‘ کوئی شاعر‘ کوئی صحافی لیکن سب سیاست سے جڑے ہوئے۔حبیب جالب جیسا عوامی شاعر‘ سیکڑوں نہیں بلامبالغہ ہزاروں نام ہیں۔ مفلسی کا سورج ان سب کو اور ان کے گھر والوں کو جھلستا ہوا گزرا۔ ان سب کی زندگی میں سکھ کا چاند طلوع نہیں ہوا۔ حسن ناصرکو اذیتیں دے کر ہلاک کیا گیا۔ ایاز سموں‘ نذیر عباسی اور ان جیسے ہزاروں سیاسی کارکن تھے جن کی خطا صرف اتنی سی تھی کہ وہ اس ملک کے لوگوں کے لیے انصاف‘ مساوات‘ جمہوریت اور خوشحالی کے خواب دیکھتے تھے۔

اے آر ڈی‘ ایم آر ڈی جیسی تحریکوں سے وابستہ گمنام  سیاسی کارکن‘ نیپ‘ اے این پی‘ عوامی لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی‘ سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں ‘ پی ایم ایل (ن)کون ہے جو یہاں راندۂ درگاہ نہیں ٹھہرا۔ شروع کے لوگوں میں حیدر بخش جتوئی‘ شیخ عبدالمجید سندھی‘ دادا امیر حیدر‘ ولی خان‘ سوبھوگیان چندانی‘ نوابزادہ نصراللہ ‘شیخ ایاز‘ عطاء اللہ مینگل‘ گل خان نصیر‘ میجر اسحاق‘ مرزا ابراہیم‘ لال بخش رند‘ سبط حسن‘ جمال نقوی‘ ڈاکٹر اعزاز نذیر‘ احمد الطاف اور سیکڑوں دوسرے۔ ان کے بعد آنے والوں میں عنایت کشمیری‘ ہدایت حسین‘ یوسف تالپور‘ اقبال ترین‘ احمد خان جمالی‘ حبیب الدین جنیدی‘ امیر حیدرکاظمی‘ ڈاکٹر رشید خان‘ تنویر شیخ‘ سہیل سانگی‘ ڈاکٹر حسان‘ سی آر اسلم‘ منصف رضا‘ امین خٹک اور وقت کی دھند میں کھوجانے والے دوسرے ہزاروں نام۔

2008 کے انتخابات کے نتیجے میں عوام کو جو بھی جمہوری اور بنیادی حقوق ملے اورہمارے یہاں لولی لنگڑی جیسی بھی جمہوریت ہے وہ ان ہی بے غرض سیاسی کارکنوں کے دم قدم سے آئی ہے، اسے قائم رہنا چاہیے۔ سرچشمۂ اقتدار پر قابض قوتوں نے ابتدا سے سیاسی رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کو بے توقیر کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس میں روز بہ روز اضافہ ہوا ہے۔ یہ قوتیں جانتی ہیں کہ اگر یہاں جمہوریت لانے والے پنپ گئے تو جمہوریت کو روندنے والی قوتیں وقت کے کوڑے دان میں پھینک دی جائیں گی۔ یہاں دس دس برس کے تین عسکری عشرے یوں گزر جاتے ہیں جیسے وہ نعمت غیر مترقبہ تھے جو پاکستانیوں کے لیے آسمان سے اتارے گئے لیکن اگر کبھی یہاں منتخب عوامی نمایندے برسراقتدار آجائیں تو چھ مہینے بھی نہیں گزرتے کہ ان کی کردار کشی کا سلسلہ تیز ہوجاتا ہے۔

ہمارے ایک اینکر پرسن مبشر زیدی نے یہ سوال کیا کہ ہمارے وہ اہم اور منتخب سیاستدان جو برسر اقتدار ہیں اور جن کو ذبح کرنے کے لیے چھریاں تیز ہورہی ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عسکری گملوں میں اُگے، اس لیے گردن زدنی ہیں، مبشر زیدی نے سوال اٹھایا کہ عسکری گملوں میں پروان چڑھنے والی پنیری اگر نجس اور گردن زدنی ہے تو گملے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیسا کھرے سونے جیسا سوال ہے۔

یہ درست ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ایوب خان کی سرپرستی میں ابھرے تھے اور یہ بھی درست ہے کہ میاں نواز شریف کو جنرل ضیاء الحق کی آشیرواد حاصل رہی۔ لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ ان دونوں سیاستدانوں میں سے ایک کو سولی دے دی گئی، دوسرے نے جیل اور جلا وطنی بھگتی، سالہا سال اقتدار سے باہر رہا۔ اور ایک نظر شہید بے نظیر بھٹو پر ڈالیے جو یکسر مجبوری کے تحت ایک آمر سے این آر او کر کے وطن واپس آئیں اور اپنے سیاسی آدرشوں کی خاطر جان پر کھیل گئیں۔ان لوگوں کی قربانیاں کیا اس لیے تھیں کہ انھیں صرف مطعون کیا جائے؟ اور ان کے لیے ذاتی عدالت لگائی جائے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔