ہمارے گناہ اور نیکیاں سب الگ الگ

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 5 جولائی 2017

جرمنی کاانتہائی اہم فلسفی مارٹن ہیڈیگر کہتا ہے کہ ’’ہم سب خود ایسی ہستیاں ہیں جن کا تجزیہ ہونا ہے ‘‘ کہاجاتا ہے کہ قدیم ایتھنز میں افلاطون کے پیروکار ایک دن خود سے یہ سوال کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ’’ ایک انسان کیا ہوتا ہے ‘‘ ایک طویل سوچ بچار کے بعد وہ لوگ درج ذیل جواب تک پہنچے ۔ ’’ایک انسان ایک بے بال و پر دو پایہ ہے‘‘ ہر فرد انسان کی اس تعریف پر مطمئن نظر آتا تھا یہاں تک کہ دیو جانس کلبی لیکچر ہال میں اس طرح داخل ہوا کہ اس کے ہاتھوں میں پر نوچی ہوئی ایک مرغی تھی، اس نے باآواز بلندکہا ’’ٹہرو میں تمہیں ایک انسان دکھاتا ہوں ‘‘ ہر طرف ایک کھلبلی مچ گئی جب یہ شور ختم ہوا تو فلسفیوں نے پھر سر جوڑا اور انسان کے لیے اپنی تعریف میں اصلاح کی۔ انھوں نے کہا ’’ایک انسان ایسا بے بال و پر دو پایہ ہوتا ہے جس کے ناخن چپٹے ہوتے ہیں۔‘‘

آئیں ! ہم اپنے ملک کے انسانوں کا جن میں کرپٹ سیاست دان ، بیوروکریٹس ، جاگیردار، ملا اور سر مایہ دار شامل ہیں کا تجزیہ کرتے ہیں۔کانٹ کے مطابق ہم میں سے ہر ایک دنیا کے بارے میں ایک نقشہ یا خاکہ اپنے فہم و ادراک سے مرتب کرتا ہے اور یہ مظہری دنیا ہوتی ہے۔ چنانچہ دنیا ہماری نظر میں ایک محدود علاقہ رہتی ہے اور یہ منظر اوراس کے بارے میں مرتب ہونے والی معلومات ہمارے ادراک اورمحدود حواس کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

شوپن ہار اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ہر انسان اپنی بصارت کی حدود کو دنیا کی حدود سمجھتا ہے۔‘‘ یہ نظریہ کہ علم ہمارے تجربے تک محدود ہوتا ہے مکمل طور پر نیا تصور نہیں تھا۔ قدیم فلسفی ایمپیڈوکلیز نے کہا تھا ’’ہر انسان صرف اپنے تجربے پر یقین رکھتا ہے‘‘ پھر سترہویں صدی میں جان لاک نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’کسی انسان کا علم اس کے تجربے سے آگے نہیں جاسکتا۔‘‘ اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ ہم سب کی اپنی اپنی ایک چھوٹی سی دنیا ہوتی ہے جسے ہم اپنی اپنی عینکوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں جو میں دیکھ رہا ہوتا ہوں وہ آپ نہیں دیکھ پاتے ہیں اور جو آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ میں کبھی نہیں دیکھ پاتا ہوں۔

اس لیے ہم سب کے گناہ اور نیکیاں الگ الگ ہوتے ہیں جو آپ کے نزدیک نیکی ہوتی ہے وہ میرے لیے گناہ ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ ہم سب کی بصیرت مختلف ہوتی ہیں جب کہ اب یہ بات طے ہوچکی ہے کہ ہم میں سے ہر انسان اپنی بصارت کی حدودکو دنیا کی حدود سمجھتا ہے تو پھر ہم اپنے ملک کے کر پٹ سیاست دانوں ، بیوروکریٹس ، ملاؤں، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں پرکیوں بگڑتے پھرتے ہیں کیوں انھیں ہر وقت بر ابھلا کہتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے جس انسان کی بصارت صرف روپے پیسے کے ڈھیر تک محدود ہوگی اور جوکرپشن ، لوٹ مار، دھونس، غنڈہ گر دی،کمیشن بازی کو ہی دنیا سمجھ رہا ہوگا اور جس کے نزدیک یہ سب نیکیاں ہوں گی تو وہ ان کے علاوہ اورکچھ کر بھی کیسے سکتا ہے، ظاہر ہے جیسی اس کی سوچ ہوگی، ویسا ہی اس کا علم ہوگا اور جیسا اس کاعلم ہوگا ویسا ہی اس کا تجربہ ہوگا۔

اب ہمارے تمام موجودہ لٹیروں نے اپنے اپنے بڑوں جب یہ ہی سب کچھ کرتے ہوئے دیکھا ہے تو وہ پھر خود طاقت میں آکر لوٹ مار،کر پشن ، غنڈہ گردی نہیں کریں گے تو پھرکیا لوگوں کی خدمت کریں گے اورکیا صرف نیکیاں ہی نیکیاں کمائیں گے اور نیکیاں کمانے کی خاطر کیا، اپنے بڑوں کا جمع شدہ مال لوٹادیں گے اور کمانے کے بجائے کیا عوام کے مسائل حل کرنے بیٹھ جائیں گے اور ملک کے وسائل کا رخ اپنے اور اپنے پیاروں وساتھیوں کے بجائے عوام کی طرف کردیں گے اور ساتھ ساتھ کر پشن ، لوٹ ما ر،کمیشن کوگناہوں کی طرح ہمیشہ کے لیے ترک کردیں گے اورتمام حکومتی و ملکی معاملات میں مکمل میرٹ کا نفا ذ کریں گے تمام تر نوکریاں اور اعلیٰ عہدے صرف اور صرف اہل او ر ایماندار لوگوں میں تقسیم کیاکریں گے۔

کرپشن ، لوٹ مار ، کمیشن ، قانون توڑنے والوں کو جیلوں میں ڈال دیں گے اور ان پر حکومتی عہدے حاصل کرنے پر تاحیات پابندی عائد کردیں گے۔ بیرون ملک بینکوں میں موجود ملک اور عوام کے لوٹے ہوئے پیسوں کو فوراً وطن واپس لاکر ملکی خزانے میں جمع کروادیں گے تمام بیرون ملک جائیداد کو ضبط کر لیں گے جن لوگوں نے اربوں روپوں کے قرضے معاف کروارکھے ہیں ان سے تمام قرضے واپس لینے کے فوری اقدامات اٹھائیں گے۔ ملک سے مہنگائی،لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ پانی اور بجلی کی قلت ، ٹرانسپورٹ کی قلت کاخاتمہ کردیں گے۔ ملک سے عدم رواداری ، عدم برداشت ، نفرت کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کریں گے ملک میں مکمل مساوات کا نفاذکردیں گے۔

اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو پھر آپ سے زیادہ کوئی اور بے وقوف اور احمق دوسرا ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ اس لیے کہ پوری دنیا کے لوگ بدل سکتے ہیں لیکن ہمارے کر تا دھرتا اورکرداروں کے کردار کبھی نہیں بدل سکتے ۔ ایک بار اعصابی امراض کی تحقیقات پر بحث ہورہی تھی کہ سگمنڈ فرائڈ نے ایک باتصویر کارڈ نکالا جس پر ایک جاہل کی تصویر تھی جو ایک کمرے میں کھڑا پھونکیں مار کر بجلی کا بلب بجھا رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ’’ اگر آپ لوگ بیماری کی علت کو براہ راست پکڑنا چاہتے ہیں تو آپ بالکل اس جاہل کا سا عمل کرتے ہیں چاہیے تو یہ کہ آپ سوئچ کو تلاش کریں جس سے بجلی کو بند کیاجاسکتا ہے ‘‘ اصل میں ہمیں ان پر لعنت ملامت بھیجنے کے بجائے ٹھنڈے دل کے ساتھ ان کی حرکات وسکنات ،عمل،کردار، تجربے پر غورکرناچاہیے اور ان کے نتیجے میں ان کی بننے والی نفسیات کو سمجھناانتہائی ضروری ہے ظاہر ہے ہم میں سے کوئی کانٹ، شوپن ہار، ایمپیڈوکلیز اور جان لاک جتنا سمجھ دار اور عقل مند تو ہے نہیں ۔ جب کہ وہ سب صدیوں پہلے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ انسانی اعمال اس کے تجربے تک محدود ہوتے ہیں۔

اس لیے موجودہ حالات میں ہم اپنے کرپٹ سیاست دانوں، بیوروکریٹس، ملاؤں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے کردار نہیں تبدیل کرسکتے ہیں۔ ہاں اگر ہم ان سب کا تجربہ بدل دیں تو پھر یہ بھی تبدیل ہوجائیںگے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ان سب کوکچھ عرصے کے لیے ان ممالک میں جا کر بسا دیں جہاں ملک کے تمام معاملات میں شفافیت ہوجہاں ہر کام میرٹ پر ہورہاہو، جہاں کر پشن ، لوٹ مار ، غنڈہ گردی ،کمیشن ، اقربا پروری کو سب لوگ گناہ اور نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہوں اور حکومتی کردار ان خرافات میں مبتلا نہ ہوں اور نہ ہی ان کے ماضی کے حکومتی کردار مبتلا رہے ہوں پھر دیکھیں کہ کچھ عرصے وہاں رہنے کے بعد ہمارے کرداروں کے کردار کیسے بدلتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔