واہ میاں! تیری کرکٹ

ایاز خان  جمعرات 6 جولائی 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

کارنامہ ہی اتنا بڑا تھا کہ شایان شان تقریب کا انعقاد بنتا تھا۔ منگل کو چیمپئنز ٹرافی کی فاتح قومی کرکٹ ٹیم کپتان سرفراز احمد کی قیادت میں وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہوئی تو اس کے کھلاڑیوں کو وہی پروٹوکول دیا گیا جو سربراہان مملکت کو دیا جاتا ہے۔ انھیں پروٹوکول ہی نہیں دیا گیا ،کروڑوں روپے کی انعامی رقوم سے بھی نوازا گیا۔ انٹر نیشنل کرکٹ میں تازہ تازہ وارد ہونے والے کرکٹر بھی آج سے کروڑ پتی بن گئے ہیں۔

دولت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن کھلاڑیوں کی جو عزت افزائی کی گئی وہ اس تقریب کا حاصل ہے۔ آئی سی سی کا کوئی کرکٹ ٹورنامنٹ جیتنا یقیناً اعزاز کی بات ہے لیکن اگر اس ٹورنامنٹ کے فائنل میں روایتی حریف بھارت کو شکست دی جائے تو خوشی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس فاتح قومی ٹیم نے انڈیا کو شکست بھی اتنی عبرت ناک دی جو مدتوں یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ کم ازکم فادرز ڈے پر یہ انڈین قوم کو ہمیشہ یاد آیا کرے گا اور سال میں ایک بار ضرور ان کے زخم ہرے ہوا کریں گے۔

تقریب کی طرف واپس چلتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت کھلاڑیوں کو قومی خزانے سے انعام و کرام دینے کے حق میںہے مگر کچھ لوگ اس کے خلاف بھی ہیں۔ انھی مخالف لوگوں میں سے ایک نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔کھلاڑیوں کے ساتھ البتہ ٹیم مینجمنٹ کے نام پر کچھ ایسے لوگوں کو بھی انعامی رقوم دی گئی ہیں جو کسی طرح بھی اس کے حق دار نہیں تھے۔ بہرحال ہمارے وزیراعظم چونکہ پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دیتے ہوئے بھی یہ فرماتے رہے ہیں کہ وہ یہ سبسڈی اپنی جیب سے دے رہے ہیں اس لیے ان کے اس اقدام پر اعتراض کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔

تقریب کے لیے ایک خوبصورت اسٹیج بھی بنایا گیا تھا جہاں باری باری کچھ کرکٹرز کو خیالات کا اظہار کرنے کے لیے بلایا گیا۔ اس کا آغاز شعیب ملک اور اختتام کپتان سرفراز احمد پر ہوا۔ کرکٹرز نے اس شاندار تقریب کے اہتمام پر وزیراعظم کا باری باری شکریہ ادا کیا۔ اس دوران بڑی ٹی وی اسکرینوں پر کچھ رپورٹس بھی چلتی رہیں جو بڑی محنت سے تیار کی گئی تھیں۔تمام رپورٹس میں یہ اہتمام کیا گیا کہ وزیراعظم کی بھرپور تعریف کی جائے ۔ ڈاکٹر نعمان نیاز اس میں پیش پیش نظر آئے۔ انھوں نے ہی میاں صاحب کو یاد دلایا کہ1973-74میں وہ پاکستان ریلوے کی طرف سے پی آئی اے کے خلاف ایک فرسٹ کلا س میچ کھیلے تھے ۔ نعمان نیاز نے بتایا کہ اس میچ میں وزیراعظم نے اننگز اوپن کی تھی اور ان کی ٹیم ایک اننگز کے مارجن سے جیت گئی تھی۔

اس دوران وزیراعظم کے چہرے پر غیر معمولی لالی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔تاہم انھوں نے کمال مہارت سے اس حقیقت کو بیان کرنے سے گریز کیا کہ میاں صاحب اس اننگز میں بغیر کھاتہ کھولے آؤٹ ہو گئے تھے۔ نعمان نیاز نے اس ’’تاریخی حقیقت‘‘ سے بھی پردہ اٹھایا کہ جب ہم نے 1992ء میں ورلڈ کپ جیتا تو وزیراعظم نواز شریف تھے اور اب 2017ء میں چیمپئنز ٹرافی جیتی تب بھی وہی وزیراعظم ہیں۔ آیندہ ورلڈ کپ 2019ء میں ہونا ہے اس لیے ہمیں نواز شریف کی بطور وزیراعظم دوبارہ ضرورت ہو گی۔ میں سوچ رہا تھا کہ واقعی ہم شاید جب بھی آئی سی سی کا کوئی بڑا ٹورنامنٹ جیتیں گے تو وزیراعظم نواز شریف کو ہی ہونا چاہیے۔

یوں یہ خواب پورا کرنے کے لیے ان کا  تاحیات وزیراعظم بن جانا ضروری ہے۔ تب اچانک خیال آیا کہ 2009ء میں جب ہم ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ کپ جیتے تھے تو پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ تقریب کے دوران جس طرح عمران خان کا نام گول کیا گیا، اسی طرح یہ حقیقت بھی کمال مہارت سے چھپا لی گئی۔ نعمان نیاز کے بعد پاکستان سپر لیگ(پی ایس ایل) کے ڈائریکٹر اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی کو مدعو کیا گیا۔ موصوف نے بھی اپنی بساط کے مطابق میاں صاحب کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا ۔ اور اب چیئرمین پی سی بی شہریار خان کی باری تھی۔ ان کی تقریر کے دوران میں سوچ رہا تھا کہ نجم سیٹھی نے کمال مہارت سے وزیراعظم کی خوشامد کر کے ان کا دل جیت لیا ہے۔

شہریارخان کیریئر ڈپلومیٹ ہیں اور 83 سال کے ہو چکے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا تھا کہ وہ کوئی ایسی بات کریں گے جو ان کے مرتبے اور عمر کے شایان شان نہیں ہو گی۔میری یہ خام خیالی جلد دور ہو گئی۔ بزرگ چیئرمین گویا ہوئے، وزیراعظم صاحب آپ کو شاید یاد نہیں ہو گا جب ایک میچ کے دوران صرف دو اوورز میں آپ نے 5چھکے ماردیے تھے۔ ویری گڈ شہریار خان صاحب!آپ نے خوشامد میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ میاں صاحب نے غالباً پورے کیریئر میں 5چھکے نہیں مارے ہوں گے لیکن شہریار کو صرف 12گیندوں پر 5چھکے لگوانے پڑگئے۔ معلوم نہیں یہ خوشامد کوئی بیماری ہے یا مجبوری۔ اکثریت کا خیال ہے یہ مجبوری ہے۔

نجم سیٹھی اور شہریار خان جب میاں صاحب کی بطور کرکٹر صلاحیتوں کا ذکر کر رہے تھے تو مجھے اپنا ایک دوست احسن رانا یاد آگیا۔ احسن رانا ان دنوں امریکا میں مقیم ہے۔ وہ گورنمنٹ جاب میں میرا کولیگ رہا ہے۔ احسن رانا کا تعلق کرکٹ کی معروف شفقت اور شکور رانا فیملی سے ہے۔ احسن نے ایک بار بتایا کہ جم خانہ کرکٹ گراؤنڈ میں ان کا ایک میچ تھا۔ نواز شریف تب وزیراعلیٰ پنجاب تھے اور چھٹی کے روز کرکٹ ضرور کھیلا کرتے تھے۔ احسن رانا کے بقول میاں صاحب اوپننگ کر رہے تھے اور وہ اپنی ٹیم کی طرف سے اٹیک۔ احسن نے رن اپ کے بعد اپنی پوری قوت سے پہلی گیند کی جو سیدھی مڈل سٹمپ پر جا لگی۔ میاں صاحب بولڈ ہو چکے تھے مگر امپائر نے دایاں ہاتھ باہر نکالا اور زور سے بولا نو بال۔ احسن نے امپائر سے پوچھا نو بال کیسے ہو گئی جب کہ اس کا اگلا پاؤں لائین کے اندر تھا۔

امپائر نے سرگوشی کی اور احسن کو سمجھایا وزیراعلیٰ صاحب کو آؤٹ نہیں کرنا انھیں باری دینی ہے۔ اس کے بعد بتانے کی ضرورت نہیں کہ وی آئی پی بیٹسمین نے کتنے چوکے مارے ہوں گے۔ ویسٹ انڈینز کی ٹیم کے خلاف میاں صاحب کی بیٹنگ نجم سیٹھی اور شہریار خان کیسے بھول گئے۔ میلکم مارشل نے تیسری گیند پر اننگز ختم کر دی تھی۔ امپائر مجبور تھا ورنہ… چیئرمین پی سی بی کو میاں صاحب نے بتادیا کہ زمبابوے کے شہر ہرارے میں کھیلے گئے جس میچ کا حوالہ انھوں نے دیا وہ فرینڈلی میچ تھا۔1991ء میں وزیراعظم نواز شریف کی فرمائش پر کھیلا گیا تھا۔ میاں صاحب کامن ویلتھ کے وزرائے اعظم کی ٹیم کی نمایندگی کر رہے تھے جب کہ مقابلے پر ورلڈ الیون جس کے ایک کھلاڑی کلائیولائیڈ انھیں یاد رہ گئے ہیں۔ وزیراعظم نے بتایا کہ انھوں نے اس میچ میں سب سے زیادہ 36رنز ناٹ آؤٹ بنائے تھے جس میں چھکے تو شاید دو ہوں گے، البتہ چوکے کافی مارے تھے۔ وہاں اگر کوئی کہہ دیتا کہ 36رنز میں دوچھکے اور 15چوکے مارے گئے تو کس کی جرات تھی کہ وہ یہ ماننے سے انکار کر دیتا۔ فرینڈلی میچ میں ایک وزیراعظم کو کس قسم کی بولنگ کی جاتی ہے یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔

کرکٹ کے چوکے چھکے تو ماضی کی بات ہے ۔ تقریب کے دوران میاں صاحب نے سیاسی چوکے چھکے خوب لگائے۔ انھوں نے کہا بچپن سے ہی انھیں باؤنسر کبھی برداشت نہیں ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ اسے باؤنڈری کے باہر پھینکنے کی کوشش کرتے ۔ یہ الگ بات کہ کبھی کبھار باؤنڈری پر کیچ بھی ہو جاتے تھے۔ اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ گراؤنڈ سے نکالے جانے پر اتنی تکلیف ہوئی تھی جتنی پانامہ کیس میں بھی نہیں ہوئی اور جے آئی ٹی سے بھی نہیں ہوئی۔ پھر انھوں نے ایک شعر پڑھا کہ گزرا ہوا کل بھی اپنا تھا ، آنے والا کل بھی اپنا ہو گا۔ ساتھ یہ بھی فرما دیا اس شعر کو جس مرضی تناظر میں لے لیا جائے۔ میرے خیال میں نواز شریف اتنے ہی بڑے کرکٹر تھے، عمران خان جتنے بڑے سیاستدان ہیں۔ نعمان نیاز،نجم سیٹھی اور شہریار خان کی باتوں سے البتہ یوں لگا جیسے اس ملک میں کرکٹ شروع ہی میاں صاحب سے ہوئی ہے۔

وزیراعظم کو جن لوگوں نے کرکٹ کھیلتے دیکھا ہے وہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ ، واہ میاں!تیری کرکٹ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔