اٹلی کی جانب گامزن

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 6 جولائی 2017

’’گامزن‘‘ عشرت معین سیما کے اٹلی کے ایک سفرکی داستان ہے، ان کے مشاہدات اور تبصروں کا بیان ہے۔ عشرت معین سیما کون ہیں؟ ان کا کراچی سے تعلق ہے۔ یہیں انھوں نے تعلیم حاصل کی، ابلاغ عامہ میں ایم اے کیا، کچھ عرصہ اخباروں اور ریڈیو میں کام کیا، شادی ہوئی اور اپنے شوہر انور ظہیر کے ساتھ جرمنی چلی گئیں، یہ 1991 کی بات ہے۔ انور ظہیر کہتے ہیں عشرت پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ جرمن اخبار، ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک ہونے کے ساتھ بی بی سی ریڈیو پر بھی اپنی صحافتی جھلک دکھاتی ہیں لیکن جو بات ان کو بہت منفرد بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کو ہندی زبان پر مکمل دسترس حاصل ہے۔ وہ نہ صرف اردو بلکہ ہندی کی بھی تربیت یافتہ مترجم ہیں۔ برلن یونیورسٹی کے شعبہ لسانیت کے ایک محقق کے ساتھ اردو اور ہندی زبان کی استاد ہیں۔ یورپی ملکوں کی زبانوں کو اردو زبان سے جوڑنے کا ہنر سکھا رہی ہیں۔ وہ شاعر ہیں اور افسانہ نگار بھی۔ انور ظہیر کہتے ہیں کہ عشرت کے افسانوں میں پریم چند اور عصمت چغتائی کا رنگ واضح نظر آتا ہے۔

اس پس منظر کے ساتھ عشرت معین سیما کو اٹلی کے ایک ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے جرمن زبان کے اردو اور ہندی سے تعلق پر تحقیق اور ترجمہ کے ایک پروجیکٹ پر کام کرنے کی پیشکش ہوئی جس میں ان کے ادھورے پی ایچ ڈی کے مکمل ہونے کا بھی موقع تھا۔ اس کے ساتھ اٹلی میں ہونے والی کانفرنس اور سیمینار میں شرکت کی دعوت بھی ملی۔ یہ میلان یونیورسٹی کا بلاوا تھا۔ انھوں نے پیشکش قبول کرلی اور کچھ ذاتی مجبوریوں کے باعث کچھ تاخیر تو ہوئی لیکن بالآخر میلان پہنچ گئیں۔ ’’گامزن‘‘ اسی سفر کی داستان ہے۔

میلان یونیورسٹی کی طرف سے ان کے ٹھہرنے کا انتظام شہر سے قریب ایک مقام وریسے میں کیا گیا تھا۔ ان کی میزبان ایک ایسی خاتون تھیں جن کا تعلق یورپ کے ایک قدیم شاہی خاندان سے تھا۔ عشرت نے ان خاتون کا اور ان کے خاندان کا نام نہیں بتایا ہے کیونکہ انھیں اس کی اجازت نہیں تھی۔ ان خاتون نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر غریب اور غیر ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیم پھیلانے کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا اور وہ ان ملکوں میں ’’پہلے روٹی پھرکتاب‘‘ کے عنوان سے بھوک اور جہالت کے خلاف سرگرم عمل تھیں۔

عشرت معین سیما کا پہلا تاثر ان خاتون کی رہائش گاہ پہنچنے سے پہلے کیا تھا ، لکھتے ہیں۔ ’’میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں کسی محل میں رہوں گی۔ زندگی میں یہ میری کبھی خواہش بھی نہیں تھی اور نہ ہی میں نے محل میں رہنے والوں کے بارے میں سوچا تھا۔ میں جب کسی اخبار یا رسالے میں کسی سیاستداں، کسی صنعت کار یا کسی زمیندار و جاگیردار کے بارے میں پڑھتی تھی تو بہت کوفت ہی ہوتی تھی۔ میلوں تک پھیلی زمینیں، گھوڑوں کے اصطبل، بڑی بڑی پجیرو جیپ اور گاڑیاں، بے راہ رو بچے، قانونی اور بے قانونی بیویاں اور ان کے متعلق عجیب عجیب باتیں۔‘‘ لیکن جب عشرت ان کے محل پر پہنچیں تو کیا دیکھا۔ لکھتی ہیں۔ ’’گاڑی ایک قدیم محل نما عمارت کے سامنے آکر رک گئی جو چاروں طرف سے باغات اور نہر کے علاوہ اونچے اونچے درختوں سے گھری ہوئی تھی۔ وہاں ایک دبلی پتلی درمیانی عمر کی خاتون جو میری میزبان تھیں پرخلوص مسکراہٹ لیے میرے استقبال کو کھڑی تھیں۔

گاڑی سے اترکر میں نے ان سے مصافحہ کیا اور جواباً انھوں نے مجھے پرجوش طریقے سے خوش آمدید کہا۔ سادہ جینز کی پینٹ، دھاری دار بھورے، سوئیٹر اور جوگر جوتوں میں دیکھ کر یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اس محل کی مالکن ہیں اور شاہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ یقینا خاتون خانہ ملکہ الزبتھ کی طرح شاہی لباس، پروں والی ٹوپی اور زیورات سے مزین ہوں گی۔‘‘ عشرت کو لے کر وہ خاتون جس کمرے میں گئیں وہ یورپ کے قدیم اور روایتی نقش و نگار اور سامان آرائش سے سجا ہوا تھا۔ انھیں یہ لگ رہا تھا جیسے وہ کسی میوزیم میں ہیں اور وہ خود بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ خاتون خانہ نے عشرت کو بالائی منزل پر ان کا کمرہ دکھایا اور کہا۔ ’’تم یہاں آرام سے رہو، بس شام کو چھ سات بجے میری طرف آجانا۔ رات کے کھانے کے بعد تم سے تفصیلی گفتگو ہوگی۔‘‘ پھر واپس نیچے کی طرف سیڑھیاں اترنے لگیں۔ اچانک جیسے کچھ یاد آیا ہو، واپس آئیں اور کہنے لگیں ’’اور ہاں غیر ضروری بتیاں نہ جلانا اور پانی اور ہیٹر کا غیر ضروری استعمال بھی نہیں کرنا۔ توانائی کی بچت ملک کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔‘‘ عشرت لکھتی ہیں۔ ’’میں حیران ہوکر ان کا منہ دیکھنے لگی۔‘‘

دوسرے دن عشرت معین سیما میلان یونیورسٹی گئیں جہاں تاریخ و تہذیب کے شعبے کی پروفیسر انجیلا مسواتی نے ان کا استقبال کیا اور جنوبی ایشیا کی زبانوں پر کی گئی مختلف تحقیقات سے انھیں آگاہ کیا۔ ان کے کام کی تعریف کی۔

وریسے جہاں محل میں ان کی رہائش تھی پہاڑوں کی بلندی پر ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے۔ یہ اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر واقع ہے۔ وریسے میلان سے جڑا ہوا ہے۔ عشرت کا سارا دن میلان میں گزرتا کہ ان کا ریسرچ سینٹر اور یونیورسٹی وہیں تھی۔ وہ لکھتی ہیں ’’میلان میں قدم رکھتے ہی ہمیں اس شہر کی تمام خصوصیات سے آگاہ کردیا گیا تھا، ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہاں چور و چکاری اور دھوکہ دہی اتنے زوروں پر ہے کہ بازار میں کھڑے کھڑے آپ کا سودا ہوجائیگا اور آپ کو پتا بھی نہ چلے گا۔ جیب کتروں کی شہر میں بھرمار ہے۔ دنیا بھر کے ٹھگ بھی یہاں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ شہر کے اس منفی پہلو سے جب آگاہی ہوئی تو حیرت ہوئی مگر اطمینان بھی کہ ہم تو پاکستانی ہیں، ٹھگوں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کو اپنی سیاست، وزارت اور زندگی کے تمام شعبوں میں بھگتنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔‘‘

اٹلی میں عشرت معین سیما کا کام برصغیر پاک و ہند اور یورپ کی زبانوں کے تعلق اور ان کے ارتقا کے حوالے سے تھا۔ دو روزہ کانفرنس کے علاوہ انھیں اردو اور ہندی کا ابتدائی تعارف اور ساٹھ گھنٹے اردو زبان کی مشق بھی کروانی تھی۔ وہ لکھتی ہیں۔ ’’اس شعبے میں طلبا اور طالبات کی تعداد کثیر تو نہیں تھی مگر جو لوگ اس سیمینار میں شامل تھے وہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ اردو اور ہندی زبان کے یورپی بالخصوص جرمن زبان سے تعلق اور ارتقائی عمل کے بارے میں جاننے کی جستجو رکھتے تھے۔ ان میں سے بہت لوگ اس بات پر حیران بھی تھے کہ جنوبی ایشیا میں اردو اور ہندی زبانیں اپنے رسم الخط کے لحاظ سے مختلف ہیں اور ان زبانوں کے بولنے والے دو مختلف خطوں کے لوگ تحریری طور پر ابلاغ نہیں کر پاتے مگر بات چیت میں یہ ابلاغ نوے فیصد سے زیادہ کامیاب ہے۔ نیپالی اور ہندی کا رسم الخط ایک ہے لیکن بولنے میں دس فیصد بھی ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھ سکتے‘‘

وریسے میں اپنے قیام کے دوران ہفتے کی صبح عشرت اور ان کی میزبان خاتون کار سے وینس روانہ ہوئے۔ وینس ان کا اور انور ظہیر کا پسندیدہ شہر تھا۔ نہروں اور جزیروں میں گھرے اس شہر کا یہ ان کا دوسرا سفر تھا۔ عشرت کا دل تھا کہ وینس کی روایتی کشتی ’’گونڈول‘‘ میں شہر کی سیر کریں ان کی یہ خواہش پوری ہوئی اور ساتھ ہی واٹربس میں سیر کرنے کا لطف بھی اٹھایا۔ ان کی میزبان خاتون نے ان کی دونوں خواہشوں کا احترام کیا۔ عشرت لکھتی ہیں۔ ’’سارا دن گھومتے پھرتے، آئس کریم اور پیزا کھاتا اور اٹلی کی خاص کپاجینو کافی پیتے ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ سورج اپنی واپسی کی تیاری کر رہا تھا۔ ہم نے بھی واپسی کا فیصلہ کیا۔ ڈوبتے سورج کی کرنیں ہمیں وینس کی جانب سے الوداع کہنے لگیں اور ہم وریسے کی جانب بڑھنے لگے۔‘‘

اگلے ہفتے کے آخر میں انھیں جرمنی واپس آنا تھا ’’زنگی کے نئے تجربوں، مثبت ارادوں اور نئی توانائیوں کے ساتھ۔‘‘ اچھا ویک اینڈ گزارنے سے ان کا دل و دماغ خاصا پرسکون تھا۔ میلان میں قیام کے دوران تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق اور مباحثے کا سلسلہ جاری تھا اور روزانہ شام کو اپنی میزبان کی اردو کی پرائیویٹ کلاس کا بھی۔ وہ محترمہ اردو زبان اور گرامر اور اس کے لفظ و معنی کو رومن لکھائی میں سیکھ رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہ زبان صرف بولنے کے لیے سیکھنی ہے۔ زبان کے ارتقا سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں تھی اردو زبان کے حروف تہجی ان کے لیے خاصے مشکل تھے خاص طور پر ع، غ، ٹ، ٹھ، ڈ، خ اور ق سے نکلے الفاظ کی آواز نکالنے اور تلفظ ادا کرنے میں انھیں خاصی پریشانی ہوتی تھی۔

سیمینار کے آخری دن جب عشرت معین سیما اپنا محنت سے تیار کیا ہوا لیکچر دینے کو اٹھ رہی تھیں تو ان کے موبائل فون میں ہلکا سا ارتعاش ہوا۔ انھوں نے جلدی سے فون نکال کر دیکھا۔ جرمنی سے انور کا فون تھا۔ وہ یہ پوچھ رہے تھے کہ کپڑے دھونے کی مشین کس پروگرام پر چلتی ہے۔ اے پر، بی پر یا سی پر؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔