شہید برہان وانی کی پہلی برسی اور ’’پِیر صاحب‘‘

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 7 جولائی 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ٹھیک ایک سال قبل، 8جولائی 2016ء کو جنوبی مقبوضہ کشمیر کے مشہور مجاہد برہان وانی نے بھارتی قابض وجابر افواج سے مقابلہ کرتے ہُوئے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی تھی۔

ایک اسکول ٹیچر، مظفر وانی، کے اکیس بائیس سالہ اِس لختِ جگر نے مقبوضہ کشمیر میں حریت وجرأت کی ایسی لازوال داستاں رقم کی ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود سارا کشمیر آج بھی اُس کی یاد میں دلوں کو گرما رہا ہے اور بھارت ہے کہ شہید برہان وانی کی پہلی برسی کے موقع پر لرزہ بر اندام ہے۔ مودی و محبوبہ انتظامیہ کی حتمی کوشش ہے کہ کل مقبوضہ کشمیر میں کوئی کشمیری اپنے اس عظیم سپوت کو خراجِ عقیدت و تحسین پیش نہ کر سکے۔ سر بکف کشمیری بھلا کہاں جابروں کے سامنے سر جھکانے والے ہیں!! گزشتہ ایک سال کے دوران بھارتی فوج تین سو سے زائد کشمیریوں کو شہید ، دو ہزار سے زائد افراد کو پیلٹ بندوقوں سے نابینااور دس ہزار کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کر چکی ہے، محض  اس لیے کہ برہان وانی کی یاد میں احتجاج نہ کیا جائے لیکن کشمیریوں نے اپنا راستہ نہیں چھوڑا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں متعین سینئر بھارتی سیکیورٹی حکام بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں ہر طرف آگ بھڑک اُٹھی تھی (جو اَب تک بجھ نہیں سکی ہے)سارے کشمیر میں سیکیورٹی فورسز پر چاروں اطراف سے حملے ہونے لگے تھے۔ یکم جولائی 2017ء کو مقبوضہ کشمیر میں CRPF (سینٹرل ریزرو پولیس فورس) کے سربراہ، راجیو رائے بھٹناگر،نے بھارتی اخبار(دی ہندو) کی رپورٹر(وجائتا سنگھ)کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا:’’ پچھلے سال برہان وانی کے مارے جانے (شہادت) کے بعد (مقبوضہ) کشمیر میں، جولائی تا دسمبر، سی آر پی ایف کے جوانوں اور افسروں پر پتھروں سے 1600حملے ہُوئے جب کہ رواں برس (جنوری تا جون 2017ء) اِن حملوں کی تعداد سات سو ریکارڈ کی گئی ہے۔‘‘

اِس اعترافی بیان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کشمیریوں نے برہان وانی کی شہادت کو فراموش نہیں کیا بلکہ اِس شہادت سے کشمیری نوجوانوں کو ایک نیا ولولہ، جوش، عزم اور حوصلہ ملا ہے۔اگرچہ اِس جہادی جوش کو دبانے کے لیے بھارتی فوجوں نے کشمیریوں پر مزید وحشیانہ حملے کرنا شروع کر دیے۔اِن حملوں میں مقبوضہ کشمیر میں تعینات سی آر پی ایف کی 30ہزار نفری کو بھی بطور مہلک ہتھیار بروئے کار لایا گیا ۔

شہید برہان وانی کی پہلی برسی کے موقع پر کشمیریوں کا جوش و خروش دیدنی ہے لیکن کشمیر میں قابض بھارتی افواج، بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی کٹھ پُتلی حکومت کی انتہائی کوشش ہے کہ برسی منانے اور اس کا اہتمام کرنے والوں کے حوصلے توڑ دیے جائیں؛ چنانچہ کشمیری حریت پسند اور بھارت مخالف قیادت کو مختلف طریقوں سے ہراساں اور پریشان کرنے کی قابلِ مذمت کوششیں کی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پر ممتاز کشمیری حریت رہنما جناب سید علی گیلانی کے خلا ف ایک پندرہ سال پرانے نام نہاد مقدمے کی فائل کھول لی گئی ہے۔

کشمیر پر بھارتی قابضوں اور غاصبوں کا دعویٰ ہے کہ 2002ء کے دوران سرینگر میں حیدر پورہ کے علاقے میں گیلانی صاحب کے گھر پر انکم ٹیکس والوں نے چھاپہ مارا تھا تو اُن کے گھر سے دس ہزار ڈالر نقد بر آمد ہُوئے تھے۔ اِسی بنیاد پر اُن پر مقدمہ بنا دیا گیا تھا کہ بتایا جائے یہ ڈالر کہاں سے آئے ہیں؟اِس بے بنیاد مقدمے کا جواب پندرہ سال پہلے بھی نہیں دیا گیا تھا، اب کیوں دیا جائے گا؟

بھارتی حکومت کے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے مگر 87سالہ بزرگ اور درویش صفت سید علی گیلانی کو اِسی حوالے سے شو کاز نوٹس جاری کر دیا ہے تاکہ اُن کے حواس مختل کیے جا سکیں۔شہید وانی کی پہلی برسی کے اِس موقع پر بھارتی ظالم فوجوں نے مقبوضہ کشمیر میں جعلی پولیس مقابلوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔مقصد فقط یہی ہے کہ کشمیریوں کو ڈرایا دھمکایا جا سکے تاکہ وہ شہید وانی کی برسی کی تقریبات میں شرکت کرنے سے انکار کر دیں۔ یہ ہتھکنڈے بھی مگر کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ ناکامی پر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی جھنجھلاہٹ قابلِ دید ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں شہید وانی کی پہلی برسی کو ناکام کرنے کے لیے امریکا نے بھی بھارت سے تعاون کرتے ہُوئے اپنا گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔اس برسی کے انعقاد میں ابھی تیرہ دن باقی تھے کہ امریکا نے وانی کے لیڈرمحمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین عرف ’’پِیر صاحب‘‘ کو ’’عالمی دہشت گرد‘‘ (Special Designated Global Terrorist) قرار دے دیا۔ سید صلاح الدین صاحب کشمیری مجاہدین کے ایک بڑے لیڈر بھی ہیں، جہادی جماعت’’حزب المجاہدین‘‘ کے سربراہ بھی اور کئی برسوں سے آزاد کشمیر میں مقیم ہیں۔ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی آتے جاتے رہتے ہیں لیکن اُن کا سارا خاندان اور بیوی بچے مقبوضہ کشمیر میںرہائش پذیر ہیں۔اُنہیں ’’عالمی دہشت گرد‘‘ اُس وقت قرار دیا گیا جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی واشنگٹن میں امریکی صدر سے پیار کی پینگیں بڑھا رہے تھے۔

کہا جارہا ہے کہ سید صلاح الدین کے خلاف امریکی ’’فتویٰ‘‘ دراصل مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کے خلاف بھارت کی بڑی سفارتی کامیابی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو امریکا اصولی طور پر ’’دہشت گرد‘‘ قرار نہیںدے سکتا۔ سید صلاح الدین نے تو ویسے بھی کہا ہے کہ ’’مَیں اِس امریکی اعلان کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہُوں۔‘‘پاکستان نے بھی صلاح الدین کے خلاف اٹھائے گئے اس غیر منصفانہ قدم کی مخالفت کی ہے۔

وزیراعظم جناب نواز شریف کے مشیر امورِ خارجہ سرتاج عزیز نے بھی اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ ’’سید صلاح الدین سے متعلق امریکی فیصلے کو ماننا ہم پر لازم نہیں ہے۔‘‘ امیرِ جماعتِ اسلامی جناب سراج الحق کی قیادت میں9جولائی2017ء کوصلاح الدین کے بارے میں امریکی فیصلے کے خلاف اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف واقعاتی طور پر بھی اِس تازہ ترین امریکی فیصلے کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔

اِس سے قبل امریکا ’’بہادر‘‘ نے نیلسن منڈیلا، یاسر عرفات، گلبدین حکمتیار، گیری ایڈم وغیرہ کو بھی ’’عالمی دہشت گرد‘‘ ہونے کے سرٹیفیکیٹ جاری کیے تھے لیکن زمانے بھر نے پھر یہ منظر بھی دیکھا کہ امریکی صدور اِنہی ’’دہشت گردوں‘‘ کو اپنے ہاں دعوت دیتے اور اُن کے سواگت کرتے نظر آئے۔ افغان مزاحمتی لیڈر، گلبدین حکمتیار، کو تو حال ہی میں امریکا اور یو این او نے (اپنے مقاصد کی خاطر) دہشت گردوں کی فہرست سے باہر نکالا ہے۔یہ بھی امریکا ہی ہے جس نے بھارتی بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے جرم میں نریندر مودی کو دیا گیا امریکی ویزہ بھی منسوخ کر دیا تھا اور مودی کو امریکی سر زمین پر قدم رکھنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا تھا لیکن آج وہی امریکا اُسی نریندر مودی کے صدقے واری جا رہا ہے۔

یہ بہرحال حقیقت ہے کہ امریکا نے سید صلاح الدین ایسے جینوئن حریت پسند لیڈر کو دہشت گرد قرار دے کر دراصل زیادتی بھی کی ہے ،توہین بھی اور اُن کی کردار کشی بھی۔ ’’پِیر صاحب‘‘ کو بدنام اور اُن کی کردار کشی کرنے کی یہ پہلی جسارت نہیں ہے۔ یہ دراصل نئی عالمی تثلیث(دہلی، تل ابیب اور واشنگٹن) کے باہمی گٹھ جوڑ کا نیا اظہار ہے۔

بھارت اعلیٰ ترین سطح پر ہمیشہ سید صلاح الدین کی کردار کشی کی دانستہ کوششیں کرتا رہا ہے۔تقریباً دوسال قبل بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ، اے ایس دولت، نے 342صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی۔ یہ تصنیف اُن کے مبینہ ذاتی مشاہدات اور یادوں پر مبنی ہے۔ اس کانام تھا: KASHMIR :THE  VAJPAYEE  YEARS مصنف نے دل کھول کر مذکورہ کتاب کے پندرہ صفحات پر کوئی تین درجن بار سید صلاح الدین کے بارے میں کذب و افترا کے دفتر باندھے ہیں ۔

کشمیریوں نے مگر پِیر صاحب کے خلاف اے ایس دولت کی تہمتوں پر یقین کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ناکامی کے باوجود بھارتیوں نے یہ سلسلہ روکا نہیں ہے۔ اِس کی تازہ مثال معروف ہفت روزہ بھارتی جریدے The WEEK (اشاعت 3تا 9جولائی 2017ء)میں شایع ہونے والا برکھا دَت کا ایک تفصیلی آرٹیکل ہے۔اِس بھارتی صحافیہ نے بھی سید صلاح الدین کے خلاف اپنے مذکورہ آرٹیکل میں خوب دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں۔

حیرت خیز بات یہ ہے کہ اِس تمام تر منظم بھارتی منفی پروپیگنڈے کے باوجود سید صلاح الدین اور اُن کی جہادی تحریک مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں میں مقبولیت کے نئے سنگِ میل قائم کر رہی ہے۔ شہادتوں کا شوق ختم ہو رہا ہے نہ قابض بھارتی فوجوں کے خلاف نئے برہان وانیوں کے لشکر کم ہو رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔