نیند ہی نیند

عبدالقادر حسن  ہفتہ 8 جولائی 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میں اس وقت رات بھر کی طویل نیند کے بعد بظاہر بیدار ہوا ہوں لیکن رات بھر کی یہ نیند آنکھوں میں زندہ ہے اور اس کی زندگی چونکہ ادھوری سی ہے اس لیے آنکھوں میں رچ بس نہیں گئی، اس لیے ایک ادھورا سا رقص اس کے حصے کا ابھی باقی ہے اور وہ اب اسی ادھورے سے رقص پر زندگی بسر کرنے کی سوچ رہی ہے، وہ زندگی جو شکر کی مٹھاس اور گرم چائے کی بھاپ کے ملاپ سے عبارت ہے، معلوم نہیں وہ کوئی انگریز تھا جس نے اس شیرینی، مٹھاس اور گرم پانی کے ملاپ کی دنیا سے ایک ایسا مشروب تیار کیا جو سنا ہے کہ شروع میں تو ناچ گانے کے ساتھ ہندوستان میں رائج کیا گیا لیکن یہ مشروب جب اس دنیا کے ہونٹوں میں گھر کر گیا تو اس نے ایک نئی دنیا آباد کر لی جسے ہندوستان میں چائے کا نام دیا گیا اور جو کھانے کا ایک لازمی حصہ بن گئی اور اہل ہند اپنے روایتی مشروب بھول گئے اور چائے ان کے طعام و کلام کا حصہ بن گئی ، ان کی محفلیں چائے کی بھاپ کے گرد جمنے لگیں،  مغربی مشروب ختم ہو گئے جب کہ متروک ہو گئے اور ان کی جگہ اس ہندوستانی مشروب نے لے لی۔

بتایا جاتا ہے کہ انگریزوں نے بڑی مشکل سے اسے رائج کرنے کی کوشش کی تھی لیکن مغربی ذائقے کے مشروبات اس کی جگہ رائج نہ ہو سکے اور چائے کے نام سے ایک نیا مشروب رائج ہو گیا اور چونکہ حلال ٹھہرا اس لیے ہندوستان میں بلاتکلف پیا جانے لگا۔ کھانے کی محفلوں اور عام گپ شپ کی مجلسوں میں یہی چائے چل گئی اور اس طرح یہ گرم مشروب ہماری محفلوں کا ایک حصہ بن گیا اور ایسا حصہ جو رچ بس گیا۔ اس کے بغیر کوئی محفل مکمل نہیں ہوتی۔ گرم گرم چائے کے بغیر کسی محفل میں زندگی نہیں دوڑتی اور جس محفل میں گرم گرم زندگی نہ ہو وہ محفل نہیں کہلاتی اب میں ایک عوامی اندھیرے میں چند سطریں لکھ رہا ہوں اور معلوم نہیں یہ اندھیرا کب تک راج کرے گا اور اس کی جگہ روشنی کب آئے گی وہ روشنی جو زندگی ہی بدل دیتی ہے۔

ہماری دنیا اندھیرے کو برداشت نہیں کرتی اسے روشنی چاہیے یہ مصنوعی ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کی آمد سے اندھیرے ختم ہو جائیں اور روشن زندگی لوٹ آئے۔ یہی روشن زندگی ہماری زندگی ہے۔ اگر روشنی نہ ہو تو ہم گھبرا جاتے ہیں اور گھبراہٹ میں کوئی کام نہیں ہوتا۔ میں گاؤں سے بڑے شہر میں آیا اور روشنی کی امید ساتھ لے کر آیا لیکن یہاں شہر کی بھری پری زندگی میں اندھیروں نے جان نہ چھوڑی یہی وہ اندھیرے تھے جن سے بھاگ کر گاؤں کی راہ لی تھی کہ وہاں قدرتی روشنی ہو گی بلاشبہ قدرتی روشنی تو نصیب میں آئی لیکن اس پر ہمارا بس نہیں چلتا تھا۔ قدرت کے اپنے ہی طور طریقے ہیں جب تک چاہا قدرت کی عنایت جاری رہی لیکن دیکھا کہ اچانک غائب بھی ہو گئی اور اس پر بس نہیں چلتا تھا۔ اس کے رواں دواں رہنے کے کتنے ہی راستے تھے وہ سب آزما لیے۔ کوئی راستہ کھلا ملا تو کوئی بند یہ سلسلہ جاری رہا اور لگتا ہے کہ جاری رہے گا۔

زندگی بند بھی ہوتی رہی اور کھلتی بھی رہی اور ان دونوں کے درمیان خوف اور آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ جب تک موسم کو اس کی مرضی کے مطابق برداشت کرنے کا سلسلہ جاری ہے خوف و ہراس اور امید و ناامیدی کا یہ سلسلہ جاری رہا لیکن یہ سلسلہ ہمارے اختیار میں نہیں کتنے ہی سلسلے ایسے ہیں جو ہمارے اختیار میں نہیں ہیں مگر انھی سلسلوں میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ دیہاتی ہیں جہاں زندگی کی مشینری اپنی مرضی سے چلتی ہے اور اس کی مرضی کیا ہوتی ہے یہ ہمارے پلے نہیں پڑتی۔ اس کی اپنی ہی منطق ہے اور یہ منطق کسی دانشور نے وضع کی ہے اگرچہ مشکل لیکن جہاں زندگی کی اور مشکلات ہیں یہ بھی ان میں سے ایک ہے اور دوسری مشکلات کے ساتھ جاری رہتے ہیں۔

چھوٹی بڑی مشکلات زندگی کا حصہ ہیں اور انھی میں زندگی بسر کرنی ہوتی ہے یعنی انھیں برداشت کر کے آگے چلنا ہوتا ہے ان سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ جدید مشینی زندگی ہو پرانی طرز کی زندگی ان سب راستوں میں گزرنا پڑتا ہے۔کچھ خوشگوار کچھ ناخوشگوار لیکن آپ کسی کے بیچ سے گزر کر نہیں جا سکتے۔ ہم ایک ایسی زندگی میں پھنسے ہوئے ہیں جس سے باہر جانے کا راستہ معلوم نہیں ہے اور اتفاق سے ہی یہ راستہ سامنے آ جاتا ہے اور آپ خوشی خوشی اس سے گزر جاتے ہیں مگر یہ سب اتفاق کی بات ہے آپ کے اختیار سے باہر۔ اگر حالات کا کوئی چکر آپ کو سیدھے اور مفید راستے پر لے جاتا ہے تو یہ آپ کی خوش نصیبی ہے۔ ورنہ یہ ساری زندگی تقدیر کے حوالے ہے۔ تقدیر جو سلوک چاہے کرے آپ ایک بے بس مہرہ ہیں۔ اگر آپ بچ نکلتے ہیں تو یہ آپ کی قسمت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔