Zero Dark Thirty

نصرت جاوید  منگل 5 فروری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جنرل شاہد عزیز صاحب کو پورا یقین تھا کہ ایک شادی کے ذریعے ان کے رشتے دار بن جانے کے بعد اس وقت کے صدر مشرف صرف ان ہی کو چیف آف آرمی اسٹاف بنائیں گے۔اسلام آباد پاکستان کے دوسرے شہروں کی نسبت ایک چھوٹا شہر ہے۔ یہاں اپنے خوش حال گھروں میں راتوں کو گپ شپ کی محفلیں سجانے والے میزبانوں کی تعداد 100 سے زیادہ نہیں۔ وہاں آنے والے لوگ بھی سب کے جانے پہچانے ہیں اور میں اس شہر میں 1975 سے رہ رہا ہوں۔

انگریزی اخباروں میں سیاست اور سفارتکاری کے بارے میں 20 سے زیادہ برسوں تک مسلسل رپورٹنگ کرتا رہا ہوں۔ اکثر ایسی محفلوں میں بڑے چائو سے مدعو کیا جاتا تھا۔ مگر بالآخر تھک گیا۔ آج کل گوشے میں قفس کے زیادہ آرام محسوس کرتا ہوں۔ بہر حال ان دنوں جنرل عزیز صاحب کے چند دیرینہ دوستوں کی گردنوں میں صرف اس خیال سے سریے اُگنا شروع ہو گئے تھے کہ ان کا Buddy چیف بن رہا ہے۔ مجھے کچھ با خبر ذرایع سے یہ خبر مل گئی کہ ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا۔ جان کی امان پاتے ہوئے ان کے دوستوں تک اپنی یہ خبر پہنچا دی۔ انھوں نے ’’بلڈی سویلین‘‘ کی اطلاع کو حقارت سے رد کر دیا۔ مگر آخر میں میں ہی سچا ٹھہرا۔

پھر یہ صاحب نیب کے سربراہ مقرر ہو گئے۔ ان کے Buddies نے دعوے کرنا شروع کر دیے کہ جنرل مشرف نے دراصل انھیں گجرات کے چوہدریوں کو کڑے احتساب کی چکی میں ڈالنے کے لیے اس عہدے پر لگایا ہے۔ وہ سب بھی نہ ہوا۔ اب موصوف ایک محل نما گھر میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھ کر اپنے تئیں پورا سچ بول بیٹھے ہیں۔ میں ان صاحب سے کبھی نہیں ملا نہ ملنے کی کوئی خواہش ہے۔ مگر ان کی ذات کے بارے میں بہت سارے معتبر لوگوں سے جو کچھ سنا ہے وہ ان کی پورا سچ بولنے والی کتاب میں کم از کم مجھے تو نظر نہیں آیا۔ آپ بیتوں میں سب کچھ کہہ دینے کی جرأت ویسے بھی بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ پورا سچ بولنے کے نام پر آپ بیتیاں لکھنے والے ایک حوالے سے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرتے ہوئے جنت میں جانے کی جگہ بنانے کی کوششیں کرتے نظر آتے ہیں اور ہمارے یہاں اس ادبی ’’بدعت‘‘ کا آغاز جناب قدرت اللہ شہاب نے کیا تھا اور اس بدعت کو روکنے کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز والے البتہ اس بدعتی روایت کے تحت لکھی جانے والی کتاب سے بہت خوش ہوئے ہیں۔ پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر مطالبہ کر رہے ہیں کہ کارگل کے حقائق جاننے کے لیے ایک کمیشن قائم ہونا چاہیے۔ یہ مطالبہ کرتے ہوئے وہ بڑی منافقت سے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ واشنگٹن کے بلیئر ہائوس میں اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن کی بڑی منت سماجت کے بعد جب کارگل کی ذلت سے جان چھڑا کر نواز شریف وطن لوٹے تو ’’تاریخی مینڈیٹ‘‘ والے اس وزیر اعظم کے لیے کمیشن قائم کرنے کا سب سے مناسب وقت وہی تھا۔ انھوں نے مگر کمیشن بنانے کے بجائے چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کو جنرل مشرف کے ابا جی کی عیادت کے لیے راولپنڈی کے ایک اسپتال بھیج دیا۔ اس اطلاع کے ساتھ کہ ان کا فرزند چیف آف آرمی اسٹاف کے ساتھ ساتھ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا چیئرمین بھی ہو گا۔ اس کے بعد سے کارگل رات گئی بات گئی والا معاملہ ہو گیا تھا جسے خود بھارت بھی بھول کر مشرف کو آگرہ سمٹ کے لیے لے جانے سے پہلے دہلی میں نہر والی حویلی کا وہ کمرہ دکھاتا رہا جہاں ’’کارگل کا ہیرو‘‘ پیدا ہوا تھا۔

کارگل پر کمیشن تو شاید کبھی نہ بن پائے۔ مگر ہماری حالیہ تاریخ میں ایک کمیشن 2 مئی 2011 کی رات اسامہ بن لادن کی ہلاکت والے آپریشن کے بارے میں پورا سچ جاننے کے لیے بھی تو بنا تھا۔ طویل سماعتوں اور انتظار کے بعد اب اس کمیشن کی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی جا چکی ہے۔ نواز لیگ والے اس کی عوام تک رسائی کا مطالبہ کیوں نہیں کر رہے؟ اس رپورٹ کے مکمل ہونے سے کئی ماہ پہلے پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ بریگیڈئیر شوکت قادر۔ نے بقول ان کے اپنی جیب سے کافی معقول رقم خرچ کر کے جنرل کیانی کی اجازت اور تعاون سے اسی معاملے پر تحقیق کر کے چیدہ چیدہ غیر ملکی اخبار نویسوں کو بھی اسامہ کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا۔ اب کس بات کو چھپانے کی کوششں ہو رہی ہے۔

چند ماہ پہلے اسامہ کو ڈھونڈ کر اسے مار ڈالنے والے آپریشن کو بھرپور انداز میں بیان کرنے کے لیے ایک امریکی فلم ساز نے Zero Dark Thirty بنا کر پوری دنیا میں پھیلا دی ہے۔ امریکا کے کئی با خبر اور معتبر لکھاری یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ فلم بنانے والوں کو امریکی حکومت اور سی آئی اے نے بڑی حساس معلومات فراہم کیں۔ اس فلم کے ریلیز ہو جانے کے بعد امریکی اور برطانوی اخباروں میں اس بات پر شدید بحث ہو رہی ہے کہ اسامہ کو ڈھونڈنے کے لیے القاعدہ کے کچھ لوگوں کو جس تشدد کا نشانہ بنایا گیا ،کیا وہ ایک مہذب اور انسانی حقوق کا ٹھیکے دار بنے ملک کو زیب دیتا ہے یا نہیں۔

مگر ہمارے یہاں کے بے باک اور ہمہ وقت چوکس میرے جیسے اینکر پرسن اور لکھاری اس فلم کے بارے میں مجرمانہ طور پر خاموش ہیں۔ میں نے اس فلم کی ایک کاپی حاصل کر لی۔ مگر یہ ہمت بھی نہ کر سکا کہ اسے دیکھ سکوں۔ اسلام آباد میں مقیم بہت سارے سفارتکاروں اور کافی پڑھے لکھے اور با اثر پاکستانیوں سے میں نے اس فلم کے بارے میں جو کچھ سنا ہے اس نے مجھے دہشت زدہ کر دیا ہے۔ مسئلہ میری ذات کا نہیں میرے ملک اور اس کے قومی سلامتی کے ذمے دار اداروں کے بارے میں اس منفی تاثر کا ہے جو اس فلم نے امریکا کے گھر گھر میں پھیلا دیا ہے۔

مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس تاثر کی موجودگی میں صدر اوباما اور ان کی جانب سے اب وزارت خارجہ اور دفاع کی سربراہی کے لیے لگائے لوگ ان پاکستانی مسخروں کی کیا مدد کر پائیں گے جو پوری سنجیدگی کے ساتھ ’’کم از کم تین سال‘‘ کے لیے بنائی جانے والے ’’اہل، ایماندار اور محب وطن ٹیکنوکریٹس‘‘ کی حکومت میں شمولیت کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ پتہ نہیں فارسی کا وہ مصرعہ بار بار کیوں میرے دماغ میں آئے چلا جا رہا ہے جو گلہ کرتا ہے، میں اور خیال میں ہوں اور اوپر والا کسی اور دھیان میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔