موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر اثرات

شاہد سردار  اتوار 9 جولائی 2017

عالمی تھنک ٹینک ’’جرمن واچ‘‘ نے گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا کے 10 سب سے زیادہ غیرمحفوظ ممالک میں شمارکیا ہے۔ یہ ایک مسلم امر ہے کہ ہمارا ملک دنیا میں ماحولیاتی اور جغرافیائی اعتبار سے بھی ایک اچھے خطے پر واقع ہے جہاں اسے دوسرے ممالک کے مقابلے میں قدرتی آفات کے زیادہ اندیشے لاحق رہتے ہیں۔

پاکستان کے پاس شمال میں ہمالیہ کے دامن میں دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے دوسری بڑی بلکہ بلند ترین چوٹی کے ٹو سمیت پانچ بلند چوٹیاں ہیں اور قطبین سے ہٹ کر دنیا کے تقریباً تمام بڑے گلیشیئرز بھی پاکستان ہی میں ہیں۔ یہی نہیں ملک کے مشرق، مغرب اورشمال جنوب میں زلزلے کے اعتبار سے اہم فالٹ لائنز پاکستان سے گزرتی ہیں اور دنیا کا سب سے بڑا مٹی کا دلدل، آتش فشاں بھی ضلع لسبیلہ میں واقع ہے، جب کہ مون سون کی وجہ سے یہاں اکثر وبیشتر سیلابوں کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ اب سے دو سال قبل موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان میں ہزاروں اموات ہوئیں۔

ہمارے ملک کو قدرت کی طرف سے زرخیز ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے لیکن افسوس ہمارے زمین کے خدا اس زرخیزی کو بھی اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرکے ہرے بھرے سرسبزسایہ دار درختوں کو ملک بھر سے کٹوا کر اس پر پلازے اور بلڈنگیں بنوا رہے ہیں اورکون نہیں جانتا کہ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور پورا ملک اس آلودگی کی نذر ہوکر انسانی جانوں سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے۔

بدقسمتی سے پورے ملک میں ہی ماضی کے مقابلے میں بارشیں کم ہوتی ہیں اور سندھ میں تو اس کی شرح سب سے کم ہونے اور درجہ حرارت 52 سینٹی گریڈ کی سطح تک پہنچنے کی وجہ سے حیاتیات اور زراعت زیادہ متاثر ہوتی ہے جس سے صوبہ سندھ میں معاشی اور معاشرتی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ ماضی میں شجرکاری کے موسم میں 35 میٹر سڑکوں پر شجر کاری کی جاتی تھی، پودوں کی نرسریاں قائم کی جاتی تھیں جس سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی آتی جب کہ روزگار کے مواقعے فراہم ہوتے تھے۔

یہ حقیقت ہے کہ عام آدمی کو جلانے کے لیے ایندھن دستیاب نہیں اور جہاں دستیاب ہے وہاں اس کے نرخ غریب عوام کی دسترس سے باہر ہیں۔ دوسری طرف ان درختوں کی کٹائی کا مالی فائدہ متمول اور بااثر طبقے کو ہورہا ہے۔ بہرحال درختوں کی بے رحمانہ کٹائی کا مسئلہ صرف سندھ تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک میں یہ مسئلہ تیزی سے سنگین ہوتا جا رہا ہے۔

’’گرین ہاؤس گیسز‘‘ کے اخراج، ٹرانسپورٹ کے مختلف ذرایع میں استعمال ہونے والے ایندھن اور درختوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک موسمی تبدیلیوں کی زد میں ہیں، سمندر کی سطح میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے اور اگر ان سارے موسمی تغیرات کو روکنے کے لیے ٹھوس تدابیر نہ کی گئیں تو خدشہ ہے کہ سمندرکے کنارے پر واقع دنیا کے کئی بین الاقوامی شہر ڈوب جائیں گے۔

ہمارے ملک میں صرف ماحولیاتی آلودگی میں ہی اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ جنگلی حیات کی انواع میں بھی تیزی ناپید ہوتی جا رہی ہے، کیڑے مار ادویات کے بڑھتے ہوئے استعمال کے نتیجے میں بھی جنگلی حیات پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس سے تتلیوں اور جگنوؤں کی قسمیں باغات اورپارکوں کی زینت ہونے کے علاوہ قدرت کی رنگا رنگی کا مظہر ہوتی تھیں منظر سے غائب ہوتی جا رہی ہیں۔ اس صورتحال میں جنگلات پر مشتمل علاقوں میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ شاہراؤں اور نہروں کے کنارے پر بڑے پیمانے پر شجرکاری کرنا ایک ناگزیر ضرورت ہے جس سے بے توجہی و تغافل جنگلوں اور جنگلی حیات کے لیے بہت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ پورے ملک میں انفرااسٹرکچر اور میگا پروجیکٹس کی تعمیر کے باعث درختوں کا بڑے پیمانے پر جو کٹاؤ ہورہا ہے اس سے پیدا ہونے والی آلودگی کو روکنے کے لیے نہ صرف نئے جنگلات لگانے اور ہرگھر ہر سڑک پر زیادہ سے زیادہ درخت اگانے کا بندوبست کیا جانا چاہیے اور درختوں کی حفاظت کرنے کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنے کی بھی موثر کوششیں کی جانی چاہئیں۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں صنعتوں کے مقابلے میں ٹریفک کا دھواں ماحول کو بہت زیادہ نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔ کاربن کے حد درجہ اخراج سے حدت بڑھتی جا رہی ہے اور درختوں کی کٹائی کی وجہ سے بھی کاربن کے اخراج میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے زمین خشک ہورہی ہے۔ ملک بھر میں پہلے ہی پانی کی قلت ہے۔

لوگ تیزی سے زمینی بورنگ کرا کے پانی حاصل کرکے اسے پینے پر مجبور ہیں جس سے درجنوں قسم کے امراض انھیں لاحق ہو رہے ہیں لیکن ملکی سطح پر اس کا کوئی تدارک نہ ہونے کی بنا پر مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق عام آدمی زمینی پانی کے استعمال پر مجبور ہے اور زمین کے خشک ہونے پر اب بیشتر جگہ بورنگ کرنے پر بھی پانی نہیں نکلتا اور جہاں جہاں بورنگ کا پانی استعمال ہوتا ہے وہاں وہاں پیٹ کے امراض میں حد درجہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اب اسی پانی سے سبزیاں اور پھل بھی ہمیں کھانے کو مل رہے ہیں نتیجے میں پیٹ کے امراض بہت جلد کینسرکے مرض میں مبتلا ہوکر انسانی جان پیوند خاک ہوتی جا رہی ہے۔

کس قدر افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ گھر میں رفع حاجت، ٹوائلٹ کی سہولت سے محرومی میں ہمارے ملک پاکستان کا نمبر دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے یہاں تقریباً سات کروڑ سے زائد پاکستانیوں کو گھر میں ٹوائلٹ کی سہولت دستیاب نہیں جب کہ بھارت اس سلسلے میں سرفہرست ہے جہاں 77 کروڑ 40 لاکھ افراد گھریلو ٹوائلٹ کے بغیر رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس دور میں بھی ڈھائی کروڑ پاکستانی رفع حاجت کے لیے کھلی جگہیں استعمال کرتے ہیں اور پاکستان میں 36 اعشاریہ 5 فیصد کو حفظان صحت سے متعلق سہولیات میسر نہیں ہیں اور 45 فیصد بچوں کی صحیح نشوونما نہیں ہو پا رہی۔

ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ملی بھگت سے ’’دانہ فیکٹریاں‘‘ قائم ہوجانے سے بھی ماحولیاتی آلودگی میں بے حد اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے اثرات بھی صحت پر منفی مرتب ہو رہے ہیں، علاقوں اور ماحول میں تعفن اور بدبو سے سانس لینا دوبھر ہوتا جا رہا ہے ادارہ تحفظ ماحولیات کی مبینہ کرپشن کے باعث مرغیوں کی خوراک بنانے کی یہ صنعت اب پھیلنے لگی ہے اور یہ دانہ بڑے کڑھاؤ میں مردہ کتے، بلی، گدھے اور دیگر جانوروں کی لاشیں گرم پانی میں پکا کر اس سے پروٹین اور فیٹس حاصل کیے جاتے ہیں۔ بالخصوص کراچی جیسے بڑے شہر میں یہ کام بہت ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے آلودہ ترین شہروں میں کراچی پانچویں نمبر پر آگیا ہے اور یہ سب کا سب پاکستان کو خطرناک موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں لانے کا سبب بن رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔