آنے والا کل

عبدالقادر حسن  اتوار 9 جولائی 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سیاست و صحافت کا بازار گرم ہے اور خبروں کا ایک انبار ہے، موضوعات کی کوئی کمی نہیں کہ کالم لکھنے کے لیے مواد نہ ملے بلکہ آج کل تو حالت یہ ہے کہ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کس پر لکھیں کہ ہمارے سیاست دان صبح دوپہر شام نئی نئی باتیں سامنے لا رہے ہیں اور ایک دوسرے پر لفظوں کی گولہ باری جارہی ہے۔

یہی اصل سیاست کا حسن ہے اور سیاست اسی کے مرہون منت ہے کہ اختلاف رائے کو خندہ پیشانی سے قبول کیا جائے لیکن ضروری ہے کہ اختلاف رائے میں شائستگی بھی ہو جو آج کل ہمارے حکمرانوں اور ان کے نقاد سیاستدانوں میں ناپید ہے اور وہ ایک دوسرے کے بارے میں کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر الفاظ کی حرمت کو پامال کر رہے ہیں۔

حکمرانوں کے خلاف پانامہ کیس کا آغاز ہوا تو سیاست کا بازار جو موجودہ حکومت کے خلاف دھرنوں کی صورت میں گرم رہاتھا، اس میں مزید تیزی آگئی اور لگا کہ کسی نے جلتی پر تیل ڈال دیا ہے جو سب کچھ بھسم کر دے گا اورجس کے اشارے بھی دیے جارہے تھے اور ہیں لیکن سمجھ کسی کو کچھ نہیں آرہی ہے کہ کیا ہو رہا ہے یا کیا ہونے والاہے، بس اندازوں کی بنا پر ہی قوم کو نت نئی کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں اور قوم بھی اسی میں مصروف ہے اور ملک کا کاروبار مفلوج ہے کہ ان تحقیقات کے نیتجہ میں کیا فیصلہ آتا ہے اس کے بعد ہی کاروبار کی کوئی ٹھوس صورت نکل سکے گی۔

کچھ ہفتے پہلے ہمارے وزیر اعظم نے کہاتھا کہ ہماری معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے جو ملک کے لیے کوئی خوش گوار بات نہیں اس کا نتیجہ ہم نے چند دن پہلے دیکھ ہی لیا جب پاکستانی روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں یکایک کم ہوگئی گو کہ اس پر فوری نوٹس لے کر اس کو دوبارہ سے مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ مصنوعی کوششیں ہیں اور ان کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف سازشوں کو جال بنا کر اصل میں ملک کے خلاف سازش کر کے ملکی ترقی کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس ہونے والی ترقی کی بنیادپر ہمیں آئندہ الیکشن میں کامیابی سے روکا جاسکے۔ اس پر ہمارے سابق صدر آصف علی زرداری نے بڑا جاندار تبصرہ کیا ہے کہ میاں صاحب آپ ان سازشوں کو برداشت کریں کیونکہ سیاست میں جیل ، تخت اور تختہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

سیاست دان زرداری اس سارے معاملے میں اپنے پتے نہایت مہارت کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں اور جب بھی بولتے ہیں یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ مفاہمت کی سیاست ختم کر دی ہے لیکن خواہش ہے کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے تا کہ جمہوریت کا تسلسل برقرار رہے اور عوام ہی فیصلہ کر سکیں کہ کس کو آئندہ اقتدار کی مسند پر بٹھانا ہے۔

حکمرانوں کے خلاف سازشیں کوئی نئی بات نہیں، یہ ہر دور میں ہی ہوتی آئی ہیں اورہمارے موجودہ وزیر اعظم سے بہتر کو ئی اور نہیں جان سکتا ہے کہ پہلے بھی دو دفعہ ان کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے لہذا ان کو ان سازشوں کے سدباب کی تدابیر کرنا تھیں جس کے لیے وہ تاخیر کر چکے ہیں۔ انھوں نے جوابی حملوں میں تاخیر کر دی اور اپنے پتے بروقت نہیں کھیلے جس کا ان کی سیاست کو شدید نقصان ہوا۔

وہ اب بھی ڈھکے چھپے انداز میں سازشوں اور رازوں کا ذکر تو کر رہے ہیں لیکن اپنے موقف کو واضح نہیں کر پا رہے چونکہ چناچہ کی سیاست کے دن اب گزر چکے ہیں، وزیر اعظم اور ان کا خاندان جے آئی ٹی کے تحقیقاتی عمل کا حصہ بھی بنے ہیں اوراس پر تنقید بھی کر رہے ہیں اور اس کی جانبداری کا ذکر بھی ہو رہاہے لیکن جب وقت تھا کہ اس عمل کو چیلنج کیا جاتا اس وقت تو اس پر مٹھائیاں بانٹی گئیں اور اب اس پر اعتراضات کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ وقت گزر چکا ہے اور گزرا ہوا وقت واپس نہیں لایا جاسکتا۔

نواز لیگ نے اس کیس میں اپنے آپشن محدود کر تے ہوئے اپنے آپ کو ایک بند گلی میں محصور کر لیا ہے، اب اس بند گلی سے اونچی آوازیں نکال کر نکلنے کے راستے محدود ہو چکے ہیں اور یہ اونچی آوازیں کمزور دلائل کی نشاندہی کر رہی ہیں ۔ اب جب کہ تحقیقات کا عمل مکمل ہونے کو ہے اور حکمران خاندان جو اپنے دفاع کے لیے اچانک ایک قطری شہزادے کا خط بھی سامنے لے آئے تھے لیکن بعد میں اس شہزادے نے اس تحقیقاتی عمل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے اور تادمِ تحریر وہ اپنا بیان ریکارڈ کرانے سے انکاری ہے جس کی اس کیس میں بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس کے بغیر یہ تحقیقاتی عمل مکمل تو ہو جائے گا لیکن اس میں تشنگی رہ جائے گی۔

قطری شہزادے کو اس عمل میں شریک کرنے کے لیے کئی خطوط منظر عام پر آچکے ہیں لیکن اصل ذمے داری حکمران خاندان کی ہے کہ وہ اپنے پرانے کاروباری شریک کو اس عمل کا حصہ بنائیں اور اپنی بیگناہی کے ثبوت فراہم کریں ۔ ہمارے حکمران شاید یہ جانتے ہیں کہ اگر قطری شہزادہ اس عمل میں شریک نہ ہوا تو اس کا ان کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا اس لیے وہ جے آئی ٹی پر زو دے رہے ہیں کہ اس کی شہادت کے بغیر یہ عمل نامکمل رہے گا لیکن وہ شاید بھول گئے یہ خط بھی ان کی جانب سے ہی جمع کرایا گیا ہے اور اس کے بارے میں جرح کے لیے بھی ان کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے گواہ کو پیش کریں۔

ہم دیہاتوں کے رہنے والے کسی بھی مقدمہ کے دوران اپنے گواہوں کی خوب آؤ بھگت کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ ضرورت کے وقت دستیاب ہوں اور ہماری مشکل کوآسان کر سکیں لیکن شہر کے رہنے والے شاید اس کے عادی نہیں تھے یا ان کا پالا پہلی دفعہ اس طرح کی تفتیش سے پڑا ہے کہ جب کوئی تھانیدار پلا نہیں پکڑاتا اور یہ تو سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دی جانے والی خصوصی ٹیم ہے۔

جے آئی ٹی کی تحقیقات کی روشنی میں سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے لیکن ایک بات واضح ہو چکی ہے کہ میاں نواز شریف نے اس کیس میں اپنا سیاسی نقصان بہت کیا ہے اور وہ سیاسی کردار ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں جو ان کا خاصہ رہا ہے۔ پُلوں کے نیچے سے ہی نہیں اُوپر سے بھی پانی نہیں بلکہ سیلاب بہہ رہا ہے جو سب کو اپنے ساتھ بہائے لے جا رہا ہے اور یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ آنے والا وقت کس کا ہوگا جس کے بارے میں سب دعوے کر رہے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔