مساوات کا حقیقی تصور

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 10 جولائی 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

لطیفہ ہے کہ ایک لیڈر کسی جلسے میں مرد اور عورت کی مساوات پر تقریر کر رہے تھے اور جوش خطابت میں کہنے لگے کہ مجھے اقتدار ملا تو میں عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دوں گا، میں عورتوں کے لیے الگ اور مردوں کے لیے الگ اسٹیڈیم بناؤں گا، میں عورتوں کے لیے الگ مردوں کے لیے الگ یونیورسٹی بناؤںگا، میں عورتوں کے لیے الگ مردوں کے لیے الگ ٹرینیں چلاؤں گا، میں عورتوں کے لیے میٹرنٹی ہوم الگ اور مردوں کے لیے الگ…، یہاں پہنچ کر ان لیڈر کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے کہ یہ انھوں نے کیا کہہ دیا۔

مساوات کی اصطلاح بظاہر بہت اچھی اور معقول لگتی ہے، دنیا بھر کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی اس کے نعرے لگتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مطلق مساوات عملاً ممکن ہے؟ مختلف مکاتب فکر میں مساوات سے متعلق بنیادی نوعیت کے اختلافات ہیں کہ معاشرے میں کس نوعیت کی مساوات ہونی چاہیے۔

اس حوالے سے نیگل (Negel) سوالات اٹھاتا ہے کہ مساوات کیا ہے؟ اسے کیسے سمجھا جائے؟ جب کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسان ہر دائرے میں مساوی نہیں ہیں۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز دلیل ہوگی کہ تمام لوگوں کو مطلق مساوی ہونا چاہے۔ مکمل مساوات ایک غیر اہم نعرہ ہوچکا ہے۔

غور کریں تو معلوم ہوگا کہ مساوات کا نظریہ رکھنے والوں میں گہرے اختلاف بھی ہیں، مثلاً عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ ہم سب خدا کی نظر میں مساوی ہیں، جب کہ کانٹ کے مطابق عقل کے مساوی ہونے کی وجہ سے لوگ قابل قدر ہیں۔ افادیت پسندوں کے عقیدے کے مطابق تمام لوگوں کو مساوی طور پر دیکھ بھال کا بہترین طریقہ لذت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہے، عقیدہ مساوات کے حامی (egalitarians) چاہتے ہیں کہ حکومت کو ایسی مساوات کو ترجیح دینی چاہے جس کے باعث لوگ مساویانہ طور پر اپنی زندگیوں پر حکومت کرسکیں۔

ہمارے ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ اگر مساوات کے تناظر میں مغرب کی فکر کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کی مختلف فکر ایک دوسرے سے متصادم ہے اور ان کی فکر میں مساوات نہیں ہے تو ان فکر کو اختیار کرنے والوں میں مساوات کیسے ہوسکتی ہے۔

مغرب میں اشتراکیت، لبرل اور قوم پرستوں، فاشسٹ کے درمیان ہونے والی معرکہ آرائی کے نتیجے میں تاریخ کی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ جس سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ ان فکر کے اختیارکردہ افراد میں مساوات نہیں تھی، بلکہ ان کے درمیان تصور انسان، تصور آزادی، تصور ترقی میں مماثلت ہونے کے باوجود ان کے ایمانیات (آزادی، مساوات، ترقی) کے صرف حصول کے طریقوں میں فرق کے نتیجے میں کروڑوں ہلاکتیں ہوئیں، بلکہ ایک ہی نظریات اشتراکیت روسی و چینی بلاک بھی تضاد و عدم مساوات کا شکار رہی۔

تصور مطلق مساوات جو کہ تصور پروگیس اور ہیگل کے منہاج ’’تاریخ کا سفر ہمیشہ آگے بڑھتا ہے‘‘ اور ’’ہر آنے والا زمانہ اور لوگ زیادہ عقلمند ہیں‘‘ کے مکمل طور پر برخلاف ہے اور تاریک دور (Dark age) نشاۃ ثانیہ جیسی اصطلاح بذات خود فرد، معاشرت، علمیت، زمانے کے مطلق (Absolute/ fixed/ unvariable) ہونے کے خلاف ہیں۔ آکسفورڈ ڈکشنری آف فلاسفی کے مطابق عصر حاضر میں بہت زیادہ متنازعہ اور عظیم معاشرتی تصور، تصور مساوات ہے۔ انسانوں میں مطلق و مکمل مساوات ناممکن ہے بلکہ اس کے حقیقی معنی ہیں عدم مساوات کو کم سے کم کرنا۔

مغربی معاشرے میں اب مرد و زن اور مخنث کی بات پرانی ہوچکی ہے۔ اس وقت فیس بک پر مغرب کے صارفین کے لیے اپنی جنس متعارف کرانے کے لیے مرد اور زن کے علاوہ پچاس کے قریب جنسی اقسام بطور آپشن متعارف کرائی جاچکی ہیں۔ گویا اب مساوات کے نعرے میں ان پچاس اقسام کی بات بھی ہوگی۔

منشور انسانی حقوق میں تمام انسانوں کو مساوی قرار دیا گیا ہے مگر زمینی حقائق پر غور کریں تو صورتحال کچھ اور دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً اس کے تحت ہر انسان کو نقل وحرکت کی اجازت ہے مگر کسی ایک ریاست کا انسان کسی دوسری ریاست یا ملک میں بغیر ویزہ اور پاسپورٹ کے سفر نہیں کرسکتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر سب انسان مساوی ہیں اور نقل وحرکت کی آزادی ان کا حق ہے تو کیا تیسری دنیا کا ایک فرد کسی ترقی یافتہ ملک میں بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے سفر کرسکتا ہے؟ وہ مستقل سکونت اختیار کرسکتا ہے؟

ایک محقق اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اگر سب مساوی ہیں تو کیا پاکستانی امریکا، یورپ میں بغیر کسی ویزہ پاسپورٹ کے جاکر آباد ہوسکتا ہے؟ وہاں کا شہری بن سکتا ہے؟ وہاں کی خوشحالی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو کس بات کی برابری؟ اگر تمام انسان قابل تکریم ہیں تو یہ کون سی تکریم ہے کہ ایک انسان کو اپنے ملک میں داخل نہ ہونے دیا جائے؟ اسلامی خلافت میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی، جب کہ خلافت میں سب برابر نہیں تھے۔

اگر کسی پاکستانی کے پاس ڈھائی لاکھ ڈالر ہوں اور وہ اپنے کاروبار میں پانچ امریکیوں کو ملازمت دے دے تو وہ امریکا کا شہری بن سکتا ہے، جس کی تفصیلات مائیکل سانڈل نے اپنی کتاب What Money Can’t Buy میں تحریر کی ہیں۔ جس میں مغربی معاشروں اور امریکا کے قوانین کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات ہیں۔ پیسہ لے کر شہریت دینے کا مطلب یہ ہے کہ غریب امیر کے مساوی نہیں، جو امیر ہے وہ قابل عزت ہے، عزت سرمایہ سے ملتی ہے، جس کے پاس سرمایہ نہیں وہ کمتر ہے، وہ امریکی شہری نہیں بن سکتا۔‘‘

عصر حاضر میں یہ صورت حال ہے کہ سرحدوں سے کتے، بلی، جانور کے گزرنے پرکوئی پابندی نہیں ہے، مگر قحط کے زمانے میں بھی انسان کسی دوسرے ملک کی سرحد پار کرکے وہاں رہائش اختیار نہیں کرسکتا ہے۔ اور اگر ایک ملک دریاؤں کے پانی پر ڈیم بنادے تو اس دریا کے پانی سے مستفید ہونے والے دیگر ممالک بین الاقوامی عدالتوں میں کیس کرنے چلے جاتے ہیں۔

نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات امریتا سین لکھتا ہے کہ یہ تصور کہ تمام لوگ مساوی طور پر یکساں پیدا ہوتے ہیں “all men are born equal” سچ نہیں ہے۔ اگر لوگوں کو مساوی کے طور پر یکساں برتاؤ کیا جائے تو نتیجے میں لوگ حقیقتاً عدم مساوات اختیار کرجائیں گے۔

ان میں مساوی حیثیت کا ایک طریقہ ہے کہ انھیں ایک دوسرے سے مختلف سمجھتے ہوئے برتاؤ کریں۔ تصور مساوات پر اتھارٹی سمجھے جانے والا دانشور پیٹر سنگر لکھتا ہے کہ عورت کو مجموعی طور پر دیکھیں تو یہ دعویٰ صحیح نہیں، کیوں کہ کچھ عورتیں مردوں کے مقابلے میں ایسی بھی ہوتی ہیں جو کم جذباتی، زیادہ عقلمند، زیادہ غصے والی اور زیادہ مہم جو ہوتی ہیں۔ پیٹر کہتا ہے کہ انسان ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں مگر ان کے اختلاف کی بنیاد نسل یا جنس پر نہیں ہے۔

ہمارے ہاں بھی مساوات خاص کر مرد و زن کی مساوات کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے، یہ کہا جاتا ہے کہ خواتین بھی زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرسکتی ہیں، بغیر یہ سوچے سمجھے کہ جب مرد و عورت جسمانی صلاحیتوں کے اعتبار سے فرق رکھتے ہیں تو پھر ہر سطح پر برابری اور وہ بھی یکساں نتائج کے ساتھ کیسے ممکن ہے؟ اس اہم مسئلہ پر بھی غور کی ضرورت ہے، خاص کر ان لوگوں کو جو اقتدار میں بیٹھ کر منصوبے بناتے ہیں اور یہ سوچ رکھتے ہیں کہ بس خواتین کو گھر سے باہر مردوں کے ساتھ کھڑا کردیں تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے اور مرد و زن کی مساوات بھی قائم ہوجائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔