انصاف کی آس

ذوالقرنین زیدی  بدھ 12 جولائی 2017
znzaidi@yahoo.com

[email protected]

یہ گئے وقتوں کی بات ہے، کسی شہرکا قاضی مرغی لینے گیا، دکان بند کرنے کا وقت ہوچکا تھا، دکاندار ایک گاہک کی مرغی ذبح کرنے کے لیے اس انتظار کر رہا تھا، قاضی صاحب نے فرمائش کی تو دکاندار گویا ہوا کہ وہ مرغی کے مالک کو کیا جواب دے گا؟، قاضی صاحب نے کہا کہ وہ مرغی کے مالک کو کہہ دے کہ مرغی اڑ گئی، بات بڑھے گی تو معاملہ میرے پاس ہی آئے گا، دکاندار نے مرغی قاضی کو دے دی۔ کچھ ہی دیر میں مرغی کا اصل مالک آن پہنچا، مرغی طلب کرنے پر دکاندار نے بتایا کہ مرغی اڑ گئی ہے، وہ نہ مانا اور دکاندار کو پکڑ کر قاضی کے پاس چل دیا۔

راستے میں دو افراد جھگڑ رہے تھے، دکاندار بیچ بچاؤ کرانے میں پڑا تو اس کی انگلی لڑنے والوں میں سے ایک شخص جو یہودی تھا‘ کی آنکھ میں لگ گئی جس سے اس کی ایک آنکھ ضایع ہوگئی۔ سو وہ بھی اپنا یہ معاملہ لے کر قاضی کی طرف ساتھ ہی چل پڑا۔دکاندار بہت پریشان تھا کہ مرغی کے معاملے میں تو قاضی بچا لے گا مگر اس معاملے میں کیا ہوگا؟ دکاندار ہاتھ چھڑا کر بھاگا اور مسجد کے مینار پر چڑھ کرکود گیا، نیچے سے ایک بوڑھا شخص گزر رہا تھا، دکاندار اس پر گرا اور وہ بوڑھا شخص مرگیا۔ مرنے والے بوڑھے شخص کے بیٹے نے دکاندارکو پکڑ لیا، جب پتہ چلا کہ اس دکاندار کو قاضی کے پاس پیشی کے لیے لے جایا جا رہا ہے تو وہ بھی ساتھ ہولیا۔

معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچا تو سب سے پہلے مرغی والے شخص نے اپنا کیس پیش کیا کہ وہ مرغی ذبح کروا کر گیا تھا، اب دکاندار اسے کہہ رہا ہے کہ مرغی اڑ گئی، بھلا مری ہوئی مرغی کیسے اڑ سکتی ہے؟ قاضی نے مدعی کو غصے سے دیکھا اور کہا کہ کیا مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟، مدعی ڈر گیا کہ کہیں کفرکا فتوی ہی نہ لگ جائے، اس نے کہا بالکل میں مرنے کے بعد زندہ کیے جانے پر یقین رکھتا ہوں۔ قاضی نے جواب دیا کہ مرغی کے زندہ ہونے پر پھر کیوں یقین نہیں رکھتے؟، بیچارا کیا کرتا، قاضی کے سامنے تسلیم کرنے کے سوا اور کوئی چارا بھی تو نہ تھا۔

اب قاضی کے پاس دوسرا مقدمہ تھا، کہ دکاندار نے ایک یہودی کی آنکھ پھوڑ دی تھی اور یہودی قصاص کا طلب گار تھا۔ چونکہ یہودی کے لیے قصاص آدھا مقرر تھا، قاضی صاحب نے فیصلہ سنایا کہ دکاندار نے یہودی کی ایک آنکھ پھوڑی ہے اس لیے نصف قصاص دشوار ہوگا، بہتر ہے کہ دکاندار یہودی کی دوسری آنکھ بھی پھوڑ دے اور یہودی بدلے میں نصف قصاص یعنی دکاندار کی ایک آنکھ پھوڑے گا۔ فیصلہ سنتے ہی یہودی کی ہوا گم ہوگئی کہ اگر دوسری آنکھ بھی چلی گئی تو کہیں کا نہیں رہے گا، سو اس نے اپنی جان بچانے کے لیے دکاندار کو معاف کردیا۔

اب تیسرے مقدمے میں بوڑھے کا بیٹا قاضی کے روبرو پیش تھا۔ قاضی نے معاملہ سنا اور فیصلہ سنایا کہ دکاندارکو مسجد کے اسی مینار کے آگے کھڑا کردیا جائے، اور مرنے والے بوڑھے کا بیٹا مینار کی اسی کھڑکی سے دکاندار پر چھلانگ لگا کر اس کی جان لے لے اور اپنا قصاص وصول کرلے۔ بوڑھے کے بیٹے نے جواب دیا کہ قاضی صاحب اگر دکاندارذرا ادھر ادھر ہوا تو، اس کی اپنی جان چلی جائے گی، تو قاضی نے جواب دیا کہ تمہارا بوڑھا باپ بھی تو ادھر ادھر ہوسکتا تھا نا؟

یہ گئے دنوں کی بات ہے جب بادشاہت ہوا کرتی تھی، قاضی ہوا کرتے تھے، مگر اس دور میں کسی ایک آدھ شعبے میں ایسا ہوتا ہوگا اور یہ بات بادشاہ کے علم آتی ہوگی تو اس کا تدارک بھی ضرور کیا جاتا ہوگا۔ مگر آج دنیا بدل چکی ہے، پاکستان میں بادشاہت بظاہر ختم ہوچکی ہے۔ جمہوریت جعلی، سیاست جعلی،حکومت جعلی اور عہدے بھی جعلی تو پھر ملک کا کوئی شعبہ ہائے زندگی ہی شاید ایسا بچا ہو جہاں صورتحال مذکورہ کہانی سے مختلف بلکہ زیادہ گھمبیر نہ ہو۔

انفرادی حیثیت سے لے کر اجتماعی اور نجی سے لے قومی سطح تک، اخلاقی ضوابط اور اصولوں سے لے کر ملکی آئین اور قانون تک کا جو تیا پانچا یہاں کیا جارہا ہے‘ دنیا میںایسی مثال شاذونادر ہی ملتی ہوگی۔ یقینا جتنی بھی خامیاں کسی اور قوم میں ہوسکتی ہیں، پاکستانیوں میں بھی پائی جاتی ہیں مگر دوسری قومیں اپنی خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہیں جب کہ ہمارے یہاں ایسی کوئی روایت باقی رہنے نہیں دی گئی۔

معاشرے میں بگاڑ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی، اخلاقی قدریں پستی کی حدوں کو چھو رہی ہیں، ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے تو کجا تعلیم یافتہ طبقات کا حال بھی برا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ساری کوششیں صرف تعلیم کے حصول تک محدود رکھی گئیں، تربیت نام کی کسی چیز کو قریب سے پھٹکنے بھی نہیں دیا گیا۔

ڈاکٹروں، انجینئروں کا حال دیکھ لیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کہلاتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کو تعلیم یافتہ تصورکیا جاتا ہے، جن کا ایک بڑا حصہ یتیموں، مسکینوں، بیواؤں کے مال پر انحصار کرتا ہے، یا پھر وہ جنہوں نے ذاتی کاروبار چمکانے کے لیے عبادت گاہ کے نام پر زمینوں پر قبضوں کو دین کا حصہ بنادیا گیا، رو رو کر چندے مانگے جانے لگے، چندوں کی رقوم سے ذاتی عمارتیں بننے لگیں…… تو پھر حکومت کو غیر ممالک سے قرضے اور خیراتیں مانگنے سے کون روکتا؟… مال ملنا چاہیے تھا بس … کہ ’’مال تو مال ہے حرام ہو یا حلال‘‘۔ ویسے بھی چوری کی مرغی کو چھری پھیر کر حلال کرنے میں تو ہمارے یہ لوگ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

حالانکہ مذہبی پیشوا اور حکومت (بمع حزب اختلاف) ہی ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے بگاڑ کو روک سکتے ہیں، یا پھر دانشور کسی حد تک مدد کرسکتے ہیں، مگر تینوں طبقات نے مل کر ایسا کہرام مچا رکھا ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا، سچ اور جھوٹ میں فرق مشکل ہوگیا۔ ہر کوئی اپنا راگ الاپ رہا ہے، کوئی حق بات کہنے کو تیار نہیں، جو کہنا چاہتا ہے وہ خوف میں مبتلا ہے۔ قلم کے ساتھ فکر پر بھی پہرے لگے ہوئے ہیں، سوچنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔

حالات اس نہج تک پہنچ گئے، کیا یہ سب کچھ خود بخود ہی ہوگیا؟، تو پھر حسن اتفاق کہہ کر دل کو تسلی دے لیں؟ نہیں معاشرتی بگاڑ کی وجوہات ہوتی ہیں جن میں سب سے زیادہ اہم قانون کی عملداری کا فقدان ہے، جسے بتدریج رواج بنا دیا گیا ہے۔ ملک دشمن قوتوں کی دہائیوں پر محیط محنت کا یہ ’’ثمر‘‘ ہے، جو ہمارے معاملات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، جو پاکستان میں قانون کی بالادستی کسی قیمت پر قبول نہیں کرسکتے، کہ یہی طریقہ ہے ان کا ہمیں زیر کرنے کا۔

یہ کرپشن کو ختم کرنے کی آڑ میں اسے دوام دیتے ہیں تاکہ کرپشن اتنی مقبول ہوجائے کہ ان کی اپنی کرپشن پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں چھپی ہوئی یہ قوتیں کرپٹ ترین عناصر کو سیاست میں لاتی اور انھیں کامیابیاں دلاتی ہیں، کرپشن ہی کے چابک سے وہ ’’گھوڑوں کی تجارت‘‘ کرتی اور میدان مارتی ہیں۔ یہود و نصاریٰ کی نسلیں، یہ تاج برطانیہ کی باقیات خوب جانتی ہیں کہ پاکستانی قوم کو اگر کوئی صحیح لیڈر مل گیا تو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ یکجان ہوجائے گی، یہ بات کیسے گوارہ کی جاسکتی ہے؟

آخر میں ریمنڈ ڈیوس کی کتاب جس پر کچھ کہنا نہیں بنتا مگر رہا بھی نہیں جاسکتا، پرانی باتوں کی طرح ہے‘ جن کی تحقیقات ابھی تک التوا میں پڑی ہیں یا رپورٹس منظر عام پر نہیں آسکیں۔ کوئی شوشا معلوم ہوتا ہے، تہلکہ مچانے کے لیے چھوڑا گیا ہو، ماضی میں جیسے وکی لیکس ہوا کرتی تھیں، پھر وہی کام پاناما لیکس کے ذریعے لیا گیا۔ کہیں ریمنڈ ڈیوس نے بھی تو بس ایک ماحول میں‘ ایک ماحول بنایا ہو، یاروں کو استفا دے کا موقع دینے کے لیے؟ ۔۔۔ کیونکہ پاناما پیپرز میں سیکڑوں پاکستانیوں کے نام ہیں، کیا حکمرانوں کو مائنس کردینے سے کرپشن ختم ہوجائے گی؟۔

ملک کی سب سے بڑی عدالت ایک موقع پر اپنے ریمارکس میں کہہ چکی ہے کہ اگر آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر عمل کیا تو سراج الحق کے سوا کوئی نہیں بچے گا۔ توکیا نواز شریف کے بعد وزیراعظم بنانے کیلیے آسمان سے فرشتے بلائے جائیں گے؟ کسی اور کے وزیر اعظم بن جانے سے کالی بھیڑیں از خودہی تلف ہوجائیں گی؟ یا پھر ایک اسکیم این آر او کی طرح ’’شیپ لانڈرنگ‘‘ شروع کرکے کالی بھیڑوں کو سفید کیا جائے گا جو ممکنہ نئے پاکستان کے قیام میں اہم کردار ادا کرسکیں گی۔ شاید انھی کے لیے میر تقی میر یہ کہہ گئے تھے کہ

پھر آج میر مسجد جامع کے تھے امام
داغ شراب دھوتے تھے کل جا نماز کا

یہ معلوم نہیں حبیب جالب نے کس کے لیے کہا تھا۔

اصول بیچ کے مسند خریدنے والو
نگاہ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم

وطن کا پاس تمہیں تھا نہ ہوسکے گا کبھی
کہ اپنی حرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تم

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔