کشمیر کی آزادی کا راستہ

نصرت جاوید  بدھ 6 فروری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

تین دن کی مسلسل بارش سے دھلے اسلام آباد میں اپنی اسٹڈی میں بیٹھا میں یہ کالم لکھنا چاہ رہا ہوں۔میری وینس سے فرانس آکر ترکی پہنچنے کے بعد انگریزوں کے زمانے میں برصغیر پاک وہند میں رواج پانے والی کھڑکی کے قدِ آدم شیشوں سے پرے سبزرنگ کے بے شمار Shadesنظر آرہے ہیں ۔چھٹے بادلوں سے اُمڈتی روشنیوں نے میرے سامنے کے منظر کے چند گوشوں کو ڈرامائی انداز میں چمکا دیا ہے اور پرندے کسی انجانی مستی میں رقص کرتے محسوس ہو رہے ہیں مگر میں نے اپنے نوکرکو ڈانٹ دیا ہے ۔چائے کا جو تیسرا پیالہ وہ میرے لیے لایا اس میں سے بھی بھاپ نکلتی نظر نہیں آرہی تھی۔اس بھاپ کو دیکھے بغیر میں اس دن کے شاعرانہ حسن سے کیسے لطف اندوز ہوسکتا ہوں؟ساحرلدھیانوی نے صحیح کہا تھا مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے اور برسوں تک آپ کی خدمت کرنے والے نوکر اپنی اہمیت جان کرمن مانی کرنا شروع ہوجاتے ہیں ۔اپنے اس نوکر کو نکال کر کوئی اور لے آئوں تو بڑا عرصہ میرا مزاج اور ترجیحات سمجھنے میں لگا دے گا۔ اسی کے ساتھ گزارہ کرنے پر مجبور ہوں ۔ویسی ہی مجبوری جو بدمزاج بیویوں کے صابر شوہروں کو لاحق ہوجاتی ہے ۔

ویسے بھی جس دن میں یہ کالم لکھنا چاہ رہا ہوں ’’قومی تعطیل‘‘ ٹھہرایا گیا ہے۔اس دن سرکاری کاروبار شاید اس نیت سے بند رکھنے کا فیصلہ ہوا تھا کہ لوگ سڑکوں پر جلوسوں کی صورت نکلیں اور کشمیر کے مظلوموں سے یک جہتی کا اظہار کریں ۔میں کسی ایسے جلوس میں تو شریک نہیں ہوا۔مگر ایک حساس پاکستانی ہوتے ہوئے مجھے بھاری بھرکم لفظوں کے ساتھ اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے یہ بات بڑی شدت سے یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ہمارے تمام دریا وہاں سے آرہے ہیں ۔اگر ہم نے اسے آزاد نہ کروایا تو کشمیر پر قابض بھارتی وہاں سے نکلتے اور گزرتے دریائوں پر بند باندھ کر ان کے پانیوں کا رُخ اپنی طرف موڑ لیں گے ۔ہم سوتے رہے تو پاکستان چند دہائیوں کے بعد بنجر ہوجائے گا ۔

کشمیر سے آتے پانیوں کا ہذیانی کیفیتوں میں ذکر کرتے ہوئے ہمارے اپنے تئیں محب وطن بنے پاکستانیوں کی اکثریت یہ بھول جاتی ہے کہ کشمیر صرف دریائوں کی ابتداء اور گزرگاہ ہی نہیں تاریخ اور تہذیب سے مالامال ایک خطہ بھی ہے جہاں کی آبادی اب ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے ۔یہ ڈیڑھ کروڑ لوگ انسان ہیں جن کی وادیٔ کشمیر میں بسی اکثریت مسلمان ہے مگر وہیں جموں اور لداخ بھی ہیں جہاں کے رہنے والوں کے مذاہب جدا جدا ہیں۔ کشمیر 1947ء سے نہیں گزشتہ 500سالوں سے مسلسل غلام ہے ۔اسے تو انگریز کے دور میں بھی آزادیٔ اظہار کی وہ محدود عیاشی نصیب نہ ہوئی تھی جو آج کے پاکستان والے اپنے رہ نمائوں کی قیادت میں بڑی احتیاط سے استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے ایک الگ مملکت کے قیام تک لے آئے ۔

5فروری کو کشمیر کے لوگوں سے اظہار یک جہتی کے ڈرامے رچاتے کتنے لوگوں کو علم ہے کہ علامہ اقبال کو کشمیر پر ایک کمیٹی کی صدارت کیوں کرنا پڑی تھی ۔شیخ عبداللہ کون تھا؟ اس نے کونسا جادو چلایا تھا کہ برسوں تک کشمیر کے لوگ اسے ’’شیرِ کشمیر‘‘ پکارکر اس کی پوجا کرتے رہے۔وہ کیا مجبوری تھی جس نے اسی ’’شیرِ کشمیر‘‘ کو بالآخر1975ء میں اپنے ایک دوست اور سیاسی طورپر ہم نوا پنڈت نہرو کی بیٹی سے ایک معاہدہ کرنا پڑا۔سید علی گیلانی آج کے مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی سب سے بڑی آس سمجھے جاتے ہیں ۔کتنے لوگوں کو علم ہے کہ یہ گیلانی شاہ محمد غوث کے پچھواڑے بنے ’’السنہ شرقیہ اسکول‘‘ میں پڑھتا اور راتیں کوئی ایک اور جگہ نہ ہونے کے سبب لاہور ہی کی مسجد وزیر خان میں بسرکرتا تھا۔یہی گیلانی مقبوضہ کشمیر میں بنی ’’کٹھ پتلی اسمبلی‘‘ کا ایک بڑا جی دار رکن بھی ہواکرتا تھا۔

اس نے اپنی آپ بیتی بھی لکھی ہے ۔اس کا جو ایڈیشن پاکستان میں بکتا ہے اسے مرتب کرنے والے صالحین نے اس میں سے چن چن کر فیض احمد فیض کے اشعارنکال دیے تھے ۔صرف اس لیے کہ فیض ان صالحین کی نظر میں ایک دہریا یاکمیونسٹ وغیرہ تھا۔مگر گیلانی کی آپ بیتی کو اس کے شعروں سے پاک کردینے والوں کو یہ ہرگز یاد نہ رہا کہ فیض کا کشمیر سے کیا تعلق تھا۔مرحوم ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے مدیر کی حیثیت میں اس نے اپنے دور کے ایک اور انگریزی معاصر‘‘ سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے خلاف کس بات پر ہنگامہ برپاکردیا تھا۔فیض کو جس پنڈی سازش کیس میں ملوث کیا گیا تھا اس کا سرغنہ تو وہی جنرل اکبر خان تھا جسے یہ گمان تھا کہ وہ کشمیر آزاد کروانے ہی والا تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان۔’’بکری‘‘ ہوگئے ۔لہذا ان کا تختہ الٹ دینا چاہیے ۔

اکبر خان سے ہم اپنے ہی ملک کو فتح کرنے والے فیلڈ مارشل ایوب خان تک پہنچتے ہیں جو کشمیر آزاد کروانے نکلا مگر 1965ء کی جنگ کروانے کے بعد تاشقند میں بھارت سے صلح کا معاہدہ کربیٹھا۔شیخ عبداللہ ،فیض احمد فیض اور ایوب خان آپ کو یاد نہ رہے ہوں تو جنرل مشرف کا ذکرکیے لیتے ہیں ۔انھوں نے بڑی تحقیق کے بعد یہ دریافت کیا تھا کہ کشمیر کی آزادی کا راستہ کارگل کی چوٹیوں سے نکلتا ہے۔موصوف نے ان پر قبضہ کرکے بھارت کو حیران اور پریشان کردیا۔مگر اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف معافی تلافی کے لیے واشنگٹن جاکر صدر کلنٹن کی منت سماجت کرنے پر مجبور ہوگئے ۔اپنی طرف سے پاکستان کی عزت بچاکر نواز شریف وطن لوٹے تو مشرف نے ان کا تختہ الٹ دیا۔ تقریبا دس سال ہمارے سرپر مسلط رہے ۔

اپنے اقتدار کے دنوں میں ایک دن انھیں یادآیا کہ وہ تو قدیمی دلّی کی دریاگنج میں واقع نہروالی حویلی کے فرزند ہوا کرتے ہیں ۔واجپائی کو انھوں نے 2004ء میں لکھ کردیا کہ ’’پاکستان کے زیر کنٹرول کسی بھی علاقے سے بھارت کے زیرنگین کسی علاقے میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی‘‘۔ اس کے باوجود وہ آج تک سینہ پھلاکر دعوے کرتے ہیں کہ انھوں نے تو مسئلہ کشمیر حل کروا دیا تھا مگربرا ہوعدلیہ بحالی کی تحریک کا جس نے سارا معاملہ کھٹائی میں ڈال دیا۔یہاں تک لکھنے کے بعد میں اُکتا گیا ہوں۔ بادل کڑک رہے ہیں ۔بارش پوری گھن گرج کے ساتھ دوبارہ شروع ہوگئی ہے ۔میرا ملازم بالآخر چائے کا وہ کپ لے آیا جس میں سے بھاپ کے مرغولے نکل رہے ہیں ۔مجھے اپنی کھڑکی سے بارش میں دھلتے اسلام آباد کے مناظر دیکھنے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔