سلطنت ہٹی

مرزا ظفر بیگ  اتوار 16 جولائی 2017
 ہٹیوں کے قدیم ترین دارالحکومت ہاتوسا کی کھدائی سے ہونے والے دل چسپ انکشافات کیا کہانی سناتے ہیں۔ فوٹو : فائل

 ہٹیوں کے قدیم ترین دارالحکومت ہاتوسا کی کھدائی سے ہونے والے دل چسپ انکشافات کیا کہانی سناتے ہیں۔ فوٹو : فائل

ویسے تو ترکی میں بہت سی تاریخی عمارات اور آثار ایسے پائے جاتے ہیں جو اہل دنیا کی نظروں سے آج بھی اوجھل ہیں، لیکن ان میں سے ایک خاص چیز قدیم تاریخی شہر ہاتوسا کے کھنڈرات ہیں جو عصرحاضر میں تاریخ دانوں کی خصوصی توجہ کے طلب گار ہیں۔

یہ قدیم کھنڈرات جدید Bogazkale کے خطے کی حدود دریائے Kizilirmak کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ یہ شہر دور قدیم میں Hittite Empire یا سلطنت ہٹی کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ یہ قدیم سلطنت کانسی کے دور کے اواخر میں اپنے عہد کی سپر پاور تھی جس کی سلطنت کی حدود اناطولیہ سے لے کر شمالی شام اور ایجین سے لے کر مغرب تک پھیلی ہوئی تھیں اور مشرق میں اس کی حدیں فرات تک چلی گئی تھیں۔

بائبل میں تذکرہ
سلطنت ہٹی کا تذکرہ بائبل میں بھی متعدد مقامات پر آیا ہے اور اسے عہد قدیم کی سب سے طاقت ور اور پاورفل سلطنت بتایا گیا ہے۔ یہ سلطنت قدیم مصریوں کی ہم عصر تھی اور ہر لحاظ سے ان کے برابر تھی، کسی بھی طرح ان سے کسی بھی معاملے یا شعبے میں کم نہیں تھی۔ اسی لیے دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی تھیں اور ہر وقت ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے کو تیار رہتی تھیں۔ جنگ کادیش میں اہل ہٹی اس دور کی طاقت ور ترین مصری سلطنت کے خلاف بڑی بے جگری کے ساتھ لڑے تھے۔ دوران جنگ ان کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے لگ بھگ مصر کے اپنے دور کے فرعون عظیم راعمیسس پر اس حد تک قابو پالیا تھا کہ اسے لگ بھگ مار ڈالا تھا اور پھر انہوں نے فرعون کو واپس اس کی اپنی سلطنت مصر کی حدود میں دھکیل دیا تھا۔

مصریوں اور ہٹیوں کے درمیان امن معاہدہ
پھر برسوں بعد مصریوں اور اہل ہٹی نے ایک امن معاہدے پر دستخط کیے جس کے بارے میں تاریخ داں کہتے ہیں کہ یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے قدیم امن معاہدہ ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عظیم راعمیسس نے اس معاہدے کو زیادہ مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے ایک ہٹی شہزادی سے شادی بھی کرلی تھی، تاکہ اہل ہٹی اس پر یقین اور بھروسا کریں اور اس پر یہ شک نہ کریں کہ کسی وقت وہ معاہدے کو توڑ سکتا ہے۔

اپنے عہد میں ہاتوسا کی شان
اپنے عروج کے دور میں Hattusa کی بڑی شان تھی۔ یہ بڑی شوکت کا مالک تھا اور دنیا بھر میں اس کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ اس شہر کے مکینوں نے اس خطے کی قدیم تاریخ کو زیادہ روشن اور تاب ناک بنانے میں اہم اور محوری کردار ادا کیا تھا۔ ان کے اس کردار کا تذکرہ قدیم تاریخ میں کیا گیا تو ہے، لیکن اس کردار کا اصل حق ادا نہیں کیا گیا۔ تاریخ کی جدید کتابوں میں اس کردار کو اس طرح بیان نہیں کیا گیا جو محنت انہوں نے اپنی سلطنت کو عظیم تر بنانے میں کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ہٹیوں نے دنیا کے تیز ترین اور ہلکے ترین رتھ تیار کیے تھے جو وزن میں بہت ہلکے تھے اور رفتار میں اس دور کی گاڑیاں اور رتھ ان کا مقابلہ نہیں کرپاتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ کانسی کے عہد میں زندہ تھے اور اسی دور کی چیزوں سے مستفید ہورہے تھے، اس کے باوجود انہوں نے لوہے کے آلات اور اوزار بھی بنالیے تھے اور ان کی مدد سے مسلسل اپنے کام کو زیادہ بہتر بنارہے تھے اور ترقی کی دوڑ میں مسلسل آگے بڑھ رہے تھے۔

کیا یہ قوم صرف خیالوں میں زندہ تھی؟
بعد میں دورجدید میں یعنی بیسویں صدی کے آغاز میں ہٹیوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ پتا نہیں یہ لوگ حقیقت میں کوئی وجود رکھتے بھی ہیں یا نہیں، کیوں کہ اس دور تک بھی اس قوم کے حوالے سے زیادہ تر باتیں سنی سنائی تھیں اور ان کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں مل سکا تھا۔ ہمارے ماہرین آثار بھی اس قوم کے حوالے سے جو بھی باتیں کرتے تھے، وہ سینہ بہ سینہ ہی ان تک منتقل ہوئی تھیں۔ گویا یہ قوم ایک طرح سے محض خیالوں میں زندہ تھی۔ مگر پھر بیسویں صدی کے آؓغاز نے اس حوالے سے ایک بڑا انقلاب برپا کردیا۔ ہوا یوں کہ اس زمانے میں جب اس خطے میں کھدائی کا کام شروع ہوا تو ’’ہاتوسا‘‘ منظر عام پر آیا جس کے ساتھ ساتھ مٹی کے سیکڑوں ہزاروں برتن اور کھلونے وغیرہ بھی نکلنے شروع ہوگئے جو سب کے سب ہٹی کی شہری اور گھریلو زندگیوں کی عکاسی کررہے تھے۔ ان پر بنی ہوئی تصویریں اور نقش و نگار ہٹیوں کے طرز زندگی کو بھی ظاہر کررہے تھے اور ان کے رہن سہن اور طور طریقوں پر بھی روشنی ڈال رہے تھے۔ زمین سے نکلنے والی ان نادر اشیا میں سب سے اہم چیز جنگ کادیش کا وہ امن معاہدہ تھا جس کا تذکرہ اوپر کی تحریر میں کیا گیا ہے، واضح رہے کہ یہ جنگ ہٹیوں اور مصریوں کے درمیان تیرھویں صدی قبل مسیح میں لڑی گئی تھی اور اس کو ختم کرنے کے لیے مذکورہ بالا امن معاہدہ کیا گیا تھا۔

ہاتوسا کا محل وقوع
ہاتوسا Budaközü کی وادی کے جنوبی سرے پر ایک ابھرتی ہوئی ڈھلوان پر واقع ہے جو مذکورہ وادی سے لگ بھگ 300 میٹر تک بلند ہے۔ اس کے چاروں طرف نہایت زرخیز زمین واقع تھی، ان میں سرسبز کھیت بھی تھے اور ہری بھری چراگاہیں بھی، ساتھ ساتھ جنگلات بھی واقع تھے جو عمارتوں کی تعمیر کے لیے بڑی تعداد میں لکڑی بھی سپلائی کیا کرتے تھے۔ ان جنگلات نے اس عظیم شہر کی تعمیر و مرمت کے لیے بہت بڑی مقدار میں عمارتی لکڑی فراہم کی تھی، گویا یہ وادی اور خطہ اس شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے تمام ضروری مواد فراہم کرنے کا ایک بہت بڑا قدرتی ذریعہ تھی۔ یہ خطہ ہٹیوں کا پرشکوہ دارالحکومت تو بہت بعد میں بنا تھا، مگر اس سے پہلے یہاں اس زمین کے حقیقی آبادکار رہتے تھے اور وہی اصل ہٹی تھے جو اس جگہ کے مالک تھے۔ بعد میں لگ بھگ 2000قبل مسیح میں یہ ہٹیوں کا دارالحکومت قرار پایا تھا اور اس نے بڑی شہرت اور نام وری حاصل کی۔

ہاتوسا کی تباہی
بعد میں بیسویں صدی قبل مسیح میں جب ہٹی کی ریاست پر زوال آیا اور وہ تباہ و برباد ہوئی تو اس کے ساتھ اس کا عظیم شہر اور دارالحکومت ہاتوسا بھی تباہ ہوگیا۔ اس مقام پر ہونے والی کھدائی کے آثار اور اس کے نتیجے میں نکلنے والی تاریخی اشیا کو دیکھنے اور ان کے گہرے مطالعے کے بعد یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ شہر کسی دور میں جلاکر راکھ کردیا گیا تھا اور اسے اس شدت سے جلایا گیا تھا کہ زمین پر برسوں تک اس کی صرف جلی ہوئی راکھ ہی دکھائی دیتی تھی۔ تاہم اس شہر کی حقیقی تباہی بعد میں اس وقت ہوئی جب اس شہر کی حالت زار کو دیکھ کر شہر کے اصل مکین اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ وہ اپنا قیمتی ساز و سامان لے کر اس شہر کو چھوڑ کر چلے گئے اور کسی دوسرے محفوظ مقام کی طرف نقل مکانی کرگئے اور ماضی کا شان دار اور پرشکوہ شہر اجاڑ ویرانے میں تبدیل ہوگیا۔ اس شہر کا ماضی کا ریکارڈ اس لیے بھی نہیں مل سکا کہ جاتے ہوئے اس شہر کے اعلیٰ عہدے دار اس کا ریکارڈ بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے اور انہوں نے اس شہر کے حوالے سے کوئی بھی تاریخی ثبوت یا دستاویزات یہاں نہیں چھوڑی تھیں۔ اس مقام پر کھدائی کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شہر کا منظرنامہ اپنے آخری دنوں میں بہت درد ناک تھا اور یہ کسی آباد شہر سے زیادہ کوئی خوف ناک بھوت بنگلہ لگتا تھا، کیوں کہ یہاں نہ تو زندگی کی کوئی رمق باقی بچی تھی اور نہ ہی ایسے آثار تھے جن سے یہ پتا چلتا کہ یہاں کبھی زندہ لوگ رہتے تھے اور پرسکون زندگی گزارتے تھے۔

شہر کی بناوٹ اور تعمیر
ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ اپنے عروج کے دور میں یہ شہر لگ بھگ 1.8مربع کلومیٹر پر مشتمل تھا جس میں ایک اندرونی حصہ تھا اور دوسرا بیرونی اور دونوں حصوں کی زبردست اور نہایت پائیدار ٹھوس دیواریں بھی بنائی گئی تھیں جو اسے بیرونی حملہ آوروں سے تحفظ دیتی تھیں۔ یہ دیواریں آج بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پورے شہر کی ایک بڑی اور بیرونی فصیل بھی ہے، آٹھ کلومیٹر پر مشتمل اس فصیل نے پورے شہر کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ دوسری جانب اس کا اندرونی حصہ ایک بڑے قلعے یا گڑھی پر مشتمل تھا جس کے ساتھ ساتھ کئی ایک انتظامی عمارات بھی واقع تھیں جو کافی بڑے حصے پر مشتمل تھیں جن کے ساتھ ساتھ اس دور کی کئی عبادت گاہیں بھی واقع تھیں جن میں مقامی لوگ اپنے عہد اور دور کے مطابق عبادت کرتے تھے۔ بادشاہ یا ریاست کے حکمرانوں کے محلات، کوٹ یا بالا حصار بلند پہاڑی پر تعمیر کیے گئے تھے جن میں شاہی حکمراں خاندان کے لوگ بڑی شان کے ساتھ رہتے تھے۔

جنوب کی سمت میں ایک بیرونی شہر آباد تھا جو لگ بھگ ایک مربع کلومیٹر پر مشتمل تھا جس کے بڑے بڑے باب یا دروازے تھے، یہ دروازے ہر وقت سجے رہتے تھے، ان میں جنگی سورمائوں کے مجسمے تراشے گئے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ شیروں اور اژدہوں کے مجسمے بھی نصب کیے گئے تھے۔ اس علاقے میں بھی چار مندر یا معبد خانے یا عبادت گاہیں بنائی گئی تھیں اور ہر عبادت گاہ کے اردگرد پختہ دیواریں تعمیر کی گئی تھیں۔ ان کے سامنے والے حصے میں بڑے اور کشادہ صحن تھے جن کے ساتھ رہائشی گھر بھی بنائے گئے تھے اور خصوصی عمارات بھی۔ ان کی پختہ دیواروں کی بیرونی سمت میں قبرستان ہیں جن میں مردوں کو جلانے کا انتظام بھی تھا اور بعض قبرستانوں میں انہیں دفن کیا جاتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ اپنے عروج اور شان و شوکت کے دور میں اس شہر میں چالیس سے پچاس ہزار افراد تک رہتے تھے۔

ہاتوسا کو 1986میں یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ورنہ اس سے پہلے اس شہر کا تذکرہ صرف قدیم دور کی تحریروں میں کہیں کہیں ملتا تھا، اسے عصر حاضر میں یونیسکو نے مذکورہ بالا حیثیت دینے کے بعد ہی اسے دستاویزی شکل میں محفوظ کردیا ہے۔

ہاتوسا کی نعمتیں
ماضی کے اس عظیم شہر کو جس لینڈ اسکیپ نے گھیر رکھا ہے، وہ بہت ہی خوب صورت اور دل کش ہے۔ ان میں زرخیز اور لہلہاتے کھیت بھی ہیں اور پہاڑیوں پر اگے ہوئے جنگلات بھی، جن میں چھوٹے اور بڑے دونوں طرح کے جنگلات شامل ہیں۔ چھوٹے جنگلات تو آج بھی شہر کے باہر پائے جاتے ہیں، لیکن دور قدیم میں یہ جنگلات بہت دور دور تک پھیلے ہوئے تھے اور ہر طرف انہی کا راج نظر آتا تھا۔ یہ جنگلات اس خطے کے لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتے تھے اور ان کی روزی روٹی کا ذریعہ بھی تھے، گویا یہ جنگلات اس خطے کے محسن تھے جنہوں نے یہاں انسانی آبادی کو قائم و دائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جس طرح بعض دریا اور پہاڑ انسانی آبادیوں کے محسن ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح جنگلات بھی انسانوں کے محسن ہوتے ہیں، مذکورہ جنگلات بھی اس خطے کے محسن تھے۔

فصلیں اور جانور
جہاں تک یہاں پائے جانے والے کھیتوں کا تعلق ہے تو اس مقام پر گندم، جو، جوار، باجرہ اور دیگر اناج و دالیں پیدا ہوتی تھیں اور مقامی افراد کی شکم پروری کرتی تھیں۔

یہاں پٹ سن بھی پیدا ہوتی تھی، مگر اس سے لباس تیار نہیں ہوتا تھا، یہ لوگ لباس کے لیے بھیڑ کی اون استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ دوسرے جانوروں کی کھالیں بھی لباس کی تیاری میں استعمال کی جاتی تھیں۔

اہل ہاتوسا جنگلوں میں جاکر ہرن کا شکار بھی کیا کرتے تھے اور اس سے اپنی گوشت کی ضرورت پوری کرتے تھے۔ لیکن یہ گوشت صرف امراء اور دولت مند افراد کو ہی نصیب ہوتا تھا، غریب اس سے زندگی بھر محروم رہتے تھے۔ پالتو جانور غریبوں کو گوشت فراہم کرنے کا سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ تھے جو اس خطے میں وافر مقدار میں مل جاتے تھے۔

دیگر عمارتیں اور قابل توجہ چیزیں
ماضی کے اس حسین خطے میں اور دیگر قابل توجہ مقامات یا عمارتیں بھی تھیں جن میں ایک چٹانی عبادت گاہ بھی شامل تھی، یہ عبادت گاہ Yazilikaya کے مقام پر ایک بڑی چٹان پر ایستادہ تھی جو Alacahöyük نامی شہر میں واقع تھی۔ چوں کہ اس خطے کے دریا اپنے بہائو کے معاملے میں غیر مستقل تھے، اس لیے یہاں سے بحری جہازوں کا گزرنا ممکن نہیں ہوتا تھا اور ہاتوسا جانے اور آنے کے لیے زمینی راستوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا اور انہی راستوں کے ذریعے اہل ہاتوسا بھی سفر کیا کرتے تھے۔

ہاتوسو کی ابتدا
اس خطے میں بالکل ابتدائی آبادی کے آثار 6000قبل مسیح میں ملتے ہیں۔ انیسویں اور اٹھارھویں صدی قبل مسیح میں آشوری تاجروں نے یہاں ایک تجارتی کوٹھی اسی طرح قائم کی تھی جس طرح کسی زمانے میں انگریزوں نے بر صغیر پر قدم رکھتے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی تھی اور بعد میں اسی کے سہارے پورے علاقے کے حاکم بن بیٹھے تھے۔ آشوری تاجروں نے بھی اس مقصد کے لیے شہر میں بالکل الگ تھلگ مقام کا انتخاب کیا تھا، لیکن اس کے لیے شہر کا پورا چوتھائی حصہ اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ ان کے تجارتی نیٹ ورک کا مرکز کانیش (نیسا) تھا جسے دور جدید میں Kültepe کہا جاتا ہے۔ تمام تجارتی سرگرمیوں میں ریکارڈ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے پیش نظر آشوری تاجروں نے ہاتوسا میں تحریری نظام متعارف کرایا، لیکن یہ تحریری نظام میخی شکل والا تھا جس میں لکڑی کے تختے پر میخیں یا کیلیں ٹھونک کر حساب کتاب رکھا جاتا تھا اور اسی کے ذریعے تحریری زبان بھی شروع کی گئی تھی۔ یہ خط میخی بہت ہی دل چسپ ایجاد تھی جس نے بعد میں دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا تھا اور دنیا کی متعدد اقوام نے اسی کو خط و مراسلت کے لیے اپنالیا تھا۔

ہاتوسا کی تباہی کا ذمے دار کون؟
کیا آپ کو اندازہ ہے کہ وہ کون تھا جس نے ہاتوسا کو جلاکر رکھ کیا تھا؟ یہ دردناک سانحہ 1700قبل مسیح میں پیش آیا تھا اور اس کے پیچھے کسارا کے بادشاہ انیتا کا ہاتھ تھا جس نے خود ہی اس خطے کو نذر آتش کیا اور بعد میں اس حوالے سے خوب پبلسٹی کرکے شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی اور اہل ہاتوسا کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کام یاب رہا۔ لیکن بعد کی تاریخ نے اس کا پول کھول دیا اور اہل ہاتوسا کو پتا چل گیا کہ ان کے شہر کو جلاکر راکھ کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ان کا اپنا حاکم ہی تھا۔ چناں چہ آنے والی نسلوں نے اس بادشاہ پر بڑی لعنت ملامت کی تھی۔

سلطنت ہٹی کا خاتمہ
اس پورے خطے میں سلطنت ہٹی کافی عرصے تک بڑی شان و شوکت کے ساتھ قائم رہی اور اس نے اپنی شان و شوکت کے متعدد نشان بھی چھوڑے، لیکن آخرکار بارھویں صدی قبل مسیح میں اس کا خاتمہ ہوگیا اور اس خطے کے حاکم و مالک دوسری قوم کے لوگ بن گئے اور اس جگہ سے ہٹیوں کا نام و نشان تک مٹ گیا۔

ہاتوسا کی بستیاں
ماہرین ارضیات نے ہاتوسا کی کھدائیوں کے دوران ملنے والی چیزوں کو دیکھ کر اور ان کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد یہ انکشاف کیا ہے کہ اس قدیم شہر کے اندرونی حصے میں زیادہ تر گھر لکڑی کے لٹھوں اور مٹی کی اینٹوں سے بنائے گئے تھے، مگر وہ سب گھر اب اس مقام سے غائب ہوچکے ہیں، صرف ان کے آثار ہی باقی ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ یہاں کبھی گھر ہوا کرتے تھے۔ البتہ پتھریلی دیواریں ضرور موجود ہیں جو بتارہی ہیں کہ کسی زمانے میں یہاں مندر، عبادت گاہیں اور معبد خانے بھی تھے اور محلات بھی۔ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، ہاتوسا اور اس کے اطراف کے علاقے رفتہ رفتہ مٹتے چلے گئے اور ہٹی سلطنت کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ بھی ختم ہوگئے۔

اس خطے کی اہم دریافتیں
ویسے تو ہاتوسا اور ہٹی سلطنت نے اپنے دور میں نمایاں کام یابیاں حاصل کی تھیں، شاید اسی لیے بعد میں ہونے والی کھدائیوں کے نتیجے میں کئی اہم انکشافات بھی سامنے آئے ہیں جن میں سے سب سے اہم انکشاف خط میخی والا ہے۔ خط میخی کا استعمال شاہی فرمانوں میں کیا جاتا تھا۔ بعض حالات میں لکڑی کے تختوں پر میخیں گاڑ کر الفاظ اور حروف ترتیب دیے جاتے تھے اور اپنا مقصد بیان کیا جاتا تھا اور بعض کیفیات میں مٹی کی تختیوں پر بھی میخیں یا کیلیں لگاکر حروف اور الفاظ کی ترتیب بناکر پیغام رسانی بھی کی جاتی تھی اور احکامات و فرامین بھی بھیجے جاتے تھے۔ یہ اس عہد کی سب سے قابل توجہ اور پرکشش چیز ہے اور اسے اہم ترین دریافت بھی قرار دیا جاسکتا ہے جس نے پوری دنیا میں تہلکا مچا دیا تھا۔ اکثر و بیش تر شاہی احکامات اسی شکل میں جاتے تھے یعنی خط میخی کی شکل میں۔ سرکاری معاہدے، خط و کتابت، قانونی یا لیگل کوڈز سب اسی خط کے ذریعے ہوتے تھے۔

ایک اہم اور خاص قسم کے ٹیبلیٹ کی نمائش عصرحاضر میں استنبول کے آرکیالوجی میوزیم میں کی جارہی ہے۔ یہ جنگ کادیش کے معاہدے کی ٹیبلیٹ ہے جو بلاشبہہ تاریخ کا قدیم ترین معاہدہ ہے اور یہ بھی خط میخی میں ہی ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہ امن معاہدہ ہے جو مصری فرعون راعمیسس دوم اور ہٹیوں کے درمیان جنگ کادیش کے خاتمے پر ہوا تھا جو 1259یا 1258قبل مسیح میں لڑی گئی تھی۔ اس نادرونایاب معاہدے کی ایک نقل اقوام متحدہ کے دفاتر واقع نیویارک میں رکھی گئی ہے اور اسے دنیا کا قدیم ترین بین الاقوامی معاہدہ قرار دیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔