خَزاں میں بہار

سہیل احمد صدیقی  اتوار 16 جولائی 2017
فطرت کی صناعی کا کوئی بدذوق بھی منکر نہیں ہوسکتا۔ فوٹو : فائل

فطرت کی صناعی کا کوئی بدذوق بھی منکر نہیں ہوسکتا۔ فوٹو : فائل

جاپانی سفیر میری بات سن کر بہت حیران ہوئے اور پھر لوگوںنے دیکھا کہ یہ خاکسار اور وہ موصوف، دونوں ہی کھانا کم کھارہے ہیں، باتیں زیادہ کررہے ہیں۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ چلیے اس نجی نوعیت کی ’رعب مارنے والی‘ نقل سے پہلے کچھ ذکر ہوجائے موسم کا ۔ آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کو کون سا موسم پسند ہے تو عین ممکن ہے کہ دنیا کی اکثر آبادی کی طرح آپ کا جوا ب ہو: بہار۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی کہے ’سرما‘ اور کچھ کی رائے میں ’بارش‘ خواہ جب بھی ہو۔

مجھے یقین ہے کہ آپ میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو موسم خزاں کو کسی بھی وجہ سے پسند کرتے ہوں۔ آگے بڑھنے سے پہلے وضاحت کرتا چلوں کہ یہ لفظ ، زبر سے، خَزاں ہے، زیر سے نہیں۔ اس کا تعلق ہے ’خَز‘ یعنی پتّے سے ہے۔ یہی موسم پَت جھڑکا موسم کہلاتا ہے کہ اس میں پتّے جھڑتے ہیں۔ اس موسم کا عمومی تصور ہمارے یہاں (یعنی خطہ برصغیرپاک وہند میں) یہی ہے کہ ہر سُو اداسی، ویرانی اور بس دھو ل اڑتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ منظر خاکسار کی اس نظم میں بھی منعکس ہے:

عنوان : خزاں رُت ہی مقدر ہے (مطبوعہ ماہنامہ وجدان، لاہور بابت مارچ 2009ء)

اور پھر راقم کی یہ نظم تو مختصر ہے ، سو برائے حوالہ پیش کرتا ہوں:

 

زندگی ختم ہوگئی شاید

غم کے صحرا میں پھول کھلتے ہیں

خواہشوں کی شدید بارش میں

برف زار ِ شباب گھُلتا ہے

حسرتوں کے مزار بنتے ہیں

اُس کی یادیں بگُولے بن بن کر

مجھ سے آکر ہمیش ملتی ہیں

(شعری ضرورت کے تحت ہمیشہ کی بجائے ہمیش)

سارے موسم خَزاں رَسیدہ ہیں

جن کا نوحہ عجیب لگتا ہے

زمانہ قدیم سے ہمارے مشرقی شعراء نے خزاں کو بہار سے متصادم اور ہر لحاظ سے ناموزوں موسم قرار دیا اور بہار کے حسن کا تصور پیشگی بھی دکھانا مقصود ہوا تو یہ کہہ کر اپنے سامع کو متأثر کرتے رہے:

بہلا رہے ہیں اپنی طبیعت خزاں نصیب

دامن پہ کھینچ کھینچ کے نقشہ بہار کا

حقیقت یہ ہے کہ خَزاں کا یہ تصور ناقص اور غلط ہے۔ آپ اسی شہر خرابی کراچی میں کبھی بھی راہ چلتے دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک پتوں کے جھڑنے کا تعلق ہے تو بخدا ایسے بہت سے پودے اور تناور (تن آور) درخت ہیں جو سال میں کبھی بھی اس عمل سے دوچار ہوتے ہیں۔ صرف ایک چمپا کی مثال ہے کہ نہ صرف ایک ہی جگہ پر لگے ہوئے دو مختلف قسم کے پیڑوں میں بہ یک وقت پتوں کی موجودگی یا جھڑنا نظر آتا ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی ایک پیڑپر بہ یک وقت پتوں کے ضمن میں تو خزاں ہے، لیکن پھولوں کے لیے بہار یا جوبن۔ راقم اپنے علاقے میں ایسے درختوں کا مشاہدہ بارہا کرچکا ہے اور کراسکتا ہے۔

اس سے بھی بڑھ کر معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایسے بہت سے پودے اور درخت ہیں جن پر بہار آتی ہی اس موسم میں جسے ہم ’پت جھڑ‘ کہتے ہیں۔ مشہورترین نام ہیں، گل داؤدی اور نہایت ممتاز دوائی پودہ (اس لفظ کے آخر میں الف، غلط رائج ہوگیا ہے) یا درخت[Medicinal plant]جس سے ایلوپیتھک، ہومیوپیتھک اور حکمت کی ادویہ تیار کی جاتی ہیں: گِن کوبائی لُوبا[Ginkgo biloba]۔ علاوہ ازیں گلاب سمیت متعدد پھول اور اُن کے پودے یا درخت اس موسم میں ہرگز اس طرح زوال کا شکار نہیں ہوتے جیسا کہ سمجھا جاتا ہے۔ ریڈمیپل کے حسن کا نظارہ تو اسی موسم کی دین ہے جسے ایسر روبرن بھی کہاجاتا ہے:

Acer rubrum (red maple, also known as swamp, water or soft maple)

خاکسار نے ایسے حسین مناظر فطرت کے لیے یہ ہائیکو کہی تھی:

خوش کن ہے پت جھڑ

برگ ِ سرخ یہ کہتا ہے

اک بوسہ مجھ پر

راقم کے لیے بہت آسان تھا کہ اسی نوعیت کا کچھ پرانا اور مشہور کلام بھی نقل کردیتا جیسے کسی نے کہا تھا؎ خزاں کی رُت سہانی ہے …..اصل میں اپنا کلام اس لیے نقل کیا کہ اپنا نقطہ نظر اس کے ذریعے بہتر اور واضح انداز میں پیش کرسکوں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کروں کہ یہ جو شاعر کہتے ہیںکہ موسم تو دل کے اندر (دل میں) ہوتا ہے، یہ محض شاعرانہ فلسفہ نہیں۔ آپ اپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر، ایسی کیفیت سے دوچار ہوئے ہوں گے کہ وہی موسم جو کبھی اچھا لگتا تھا ، عین اُس وقت برا لگ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہر شخص صاحب ذوق یا شاعر تو نہیں ہوتا ، مگر ہر شخص کو فطرت پسند ضرور ہونا چاہیے، خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے منسلک ہو۔ فطرت سے ہمارا تعلق ازلی و ابدی ہے۔

فطرت کی صناعی کا کوئی بدذوق بھی منکر نہیں ہوسکتا۔ یہ سب وقتی کیفیت کی بات ہے کہ کوئی یہ کہہ دے ؎ ایسی جنت گئی جہنم میں…..یا کسی کو چاند میں روٹی نظر آتی ہو یا چاند داغ دار ہونے کے سبب، بدصورت دکھائی دیتا ہو۔ سچی بات یہ ہے کہ بہار ہو یا خزاں ، بارش ہو یا گردباد…..فطرت سے کچھ کشید کرنا ہوتو بگولوں کا رقص بھی شعر گوئی پر مجبور کردیتا ہے۔ سن دوہزار ایک [2001] میں کوئٹہ سے ہائیکو مشاعرے میں شرکت اور دیگر مصروفیات سے واپسی کے موقع پر اُوتھل (بلوچستان) کے قریب ، اس خاکسار نے نہایت عجیب منظر دیکھا ۔ دور کہیں سے دو بگولے، دائیں اور بائیں جانب سے نمودار ہوئے اور کچھ ہی دیر میں اوپر رقص کرتے ہوئے آپس میں مدغم ہوگئے۔ اس عجیب وغریب، یادگار منظر پر بے اختیار یہ شعر کہہ ڈالا:

بگولے رقص کرتے ہیں، کبھی آپس میں ملتے ہیں

تمھاری یاد کے صحرا میں جب جب پھول کھلتے ہیں

بعدازآں اس پر مزید شعر کہہ کر ایک ’غز ل نما‘ مکمل کی۔ بات سے بات نکلتی ہے تو اپنا ہی ایک اور شعر بھی یاد آگیا ۔ ہوا یوں کہ اُس دن موسم گردآلود بھی تھا اور قدرے سرد بھی۔ ایسے میں خاکسار پر جو کیفیت طاری ہوئی تو راہ چلتے چلتے یہ شعر نظم ہوگیا: یخ بستہ گرد باد میں سوچا ہے بار بار

تیرے بغیر زیست بھی ممکن ہے گل عِذار؟؟

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اول تو خزاں کے متعلق رائج تصورات بڑی حد تک کم علمی اور فرسودہ روایات پر مبنی ہیں، لہٰذا ان کی اصلاح ضروری ہے اور دُوَم (دوئم غلط ہے) یہ کہ موسم سے انسانی احساسات کی وابستگی، اُس وقت کی خاص ذہنی کیفیت ، خوش گوار یا غم ناک تجربے /حادثے کی بِناء پر اُستوار ہوا کرتی ہے۔ (بِناء=بنیاد، وجہ: عربی، بِنا=بغیر: ہندی)۔

اب ذرا ذکر ہوجائے جاپانی سفیر سے ملاقات اور گفتگو کا۔ تفصیل اس اِجمال کی یہ ہے کہ راقم کو زندگی میں دو غیرملکی سفیروں سے واسطہ پڑا اور ان میں سے ایک سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ پہلے تذکرہ اُن سفیر کا جن سے ملاقات تو نہ ہوسکی، البتہ ٹیلی فون پر بات چیت ضرور ہوئی۔ ہوا یوں کہ خاکسار پاکستان ٹیلی وژن کے لیے تحقیقی مواد پر مبنی پروگرام ’ٹی وی انسائیکلوپیڈیا‘ کی تحریر و تحقیق میں مصروف تھا ۔ یہ واقعہ ہے سن انیس سو ترانوے [1993]کا۔ صحافت سے آزادہ رَو [Freelance]تعلق کے سبب، ایک انگریزی اور دیگر اردو اخبارات میں لکھنا لکھانا جاری تھا ۔ اُن دنوں بہت تنوع کے باوجود، کچھ خاص موضوعات بھی چُن لیے تھے ، سو عالمی سیاست پر مسلسل ہر ہفتے ایک کالم ، بہ زبان فرنگی لکھا کرتا تھا۔

اس ہِیچ مَدآں نے اس ضمن میں بعض ایسے ممالک اور مقامات کے متعلق لکھنے میں اولیت کا شرف حاصل کیا جن کے متعلق ہمارے یہاں آگہی نہ کے برابر تھی (اور بعض کے متعلق آج بھی ہمارے خواندہ حضرات قطعاً نابلد ہیں)۔ بوسنیا اینڈ ہرزی گووینا سمیت سابق یوگو سلافیا [Yugoslavia]کے متعلق نہ صرف انگریزی میں بلکہ اردو میں بھی، اُسی دور میں خوب لکھا اور فقط اسی خطے کے متعلق مضامین کی تعداد ایک درجن ہوگئی (بشمول نو انگریزی و تین اردو)۔ ضمنی بات یہ ہے کہ اس سابق یورپی ملک کا نام اردو میں غلط تلفظ سے رائج رہا ہے۔ Slavکے ’V‘ کا تلفظ اردو حرف ’ف‘ سے ادا ہوتا ہے۔

آمدم برسرِ مطلب! ٹیلی وژن کے لیے معلوماتی مواد تحریر کرتے ہوئے، خاکسار نے خاتون پروڈیوسر اور اسکرپٹ ایڈیٹر سے بات کرکے ، موضوعات کی فہرست میں ہنگامی بنیاد پر دوناموں کا اضافہ کرالیا۔ ایک تو تھے بوسنیا کے اولین صدر اور عظیم مسلم مدبر مرحوم عالیا عزت بیگو وِچ اور دوسرے بوسنیا کے وزیرخارجہ محترم حارث سلاجِچ۔ جب پروگرام کے لیے مسودہ لکھنے لگا تو اپنی بساط بھر کوشش سے، پاکستان میں بوسنیا کی اولین سفیر عزت مآب محترمہ ساجدہ سلاجِچ صاحبہ سے، (بذریعہ ٹیلی فون اور فیکس)، رابطہ کیا اور اُن سے گزارش کی کہ ان دو سَربَر آوُردہ شخصیات کے متعلق مواد فوری طور پر عنایت کیا جائے۔ (اُن دنوں انٹرنیٹ نہیں تھا اور غیرملکی ٹی وی چینلز بھی نہ کے برابرتھے)۔ موصوفہ سے پانچ مرتبہ بات ہوئی اور نہایت ملائم لہجے میں گفتگو کرنے والی سفیر صاحبہ نے بھرپور تعاون کیا اور خاکسار کو (بذریعہ فیکس) مواد حاصل ہوگیا۔

جب پروگرام کا خاکہ تیار ہوا تو پتا چلا کہ اسکرپٹ ایڈیٹر نے اپنی بقراطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، بوسنیا کے وزیر خارجہ محترم حارث سلاجِچ کا مختصر تذکرہ ، فضول سمجھتے ہوئے، خارج کردیا۔ مجھے سفیرموصوف سے معذرت کرنی پڑی۔ بات یوں بھی غلط ہوگئی کہ یہ وزیر، سفیر صاحبہ کے بھائی تھے۔ آپ خود ہی اندازہ کرلیں کہ ایک لکھاری کو کس قدر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، ایسی غیرمتوقع صورت حال میں۔

بعدازاں راقم نے سفیر موصوف سے کوئی ربط نہ رکھا اور جب بہت سال بعد، انٹرنیٹ کی دنیا میں مسلسل مشغول ہوتے ہوئے انھیں تلاش کرنے کی سعی کی تو ناکام ہی رہا۔ (بوسنیا کے اسماء کا تلفظ سفیر موصوف سے سن کر، سمجھ کر ہی اختیار کیا، ورنہ ہمارے یہاں تو آج بھی اس ضمن میں بہت کم لوگ واقف ملیں گے۔ خاکسار کا اندازہ تھا کہ لفظ ’سلاجِچ‘ غالباً ترک قوم کی ایک شاخ سلجوق کے لیے مستعمل جمع کا صیغہ ’سلاجِق‘ ہے، مگر اس کی آج تک تصدیق نہیں ہوسکی۔ یہ وہی سلجوق تھے جنھوں نے خطہ ہند پر ایک طویل مدت حکومت کی)۔

یہ تو ہوا پہلے سفیر کا معاملہ، اَب آئیے ذکر کرتے ہیں دوسرے سفیر کا جو تھے جاپان کے سفیر برائے پاکستان، عزت مآب سادا، آکی، نُوماتا۔ اُن سے سن دوہزار ایک [2001]میں کوئٹہ میں دو مرتبہ ملاقات ہوئی۔ اُن دنوں کوئٹہ میں ’پاک۔جاپان دوستی‘ کی علامت کے طور پر ’ہفتہ جاپان‘ منایا جارہا تھا۔ شہر میں مقیم جاپان کے اعزازی (پاکستانی) کونسل جنرل جناب ندیم شاہ کی مساعی سے، حسب ِ سابق، ہائیکو مشاعرہ بھی منعقد ہوا جس میں مہمان خصوصی کے طور پر سفیرمحترم اور اُن کے ساتھ ساتھ کراچی میں مقیم جاپان کے کونسل جنرل، عزت مآب دے کی با نے شرکت فرمائی۔ کراچی سے مدیر ہائیکو انٹرنیشنل، سہیل احمدصدیقی کو مع بزرگ شاعر و سابق ٹی وی پروڈیوسر محترم اقبال حیدر مدعو کیا گیا۔

قصہ یہ تھا کہ اس ادبی جریدے نے (نظم و غزل کے علاوہ) صنف ہائیکو میں نمایاں مقام کے حامل شاعر، اقبال حیدر پر ایک کثیرلسانی شمارہ شایع کیا جس میں اُن کا کلام، اُن کے منظوم تراجم، اُن کے متعلق منثورومنظوم نگارشات اور اُن کے کلام کے تراجم سمیت تمام مواد شامل تھا۔ دنیا کی پندرہ زبانوں میں کسی ایک ادبی شخصیت کا کام نیز اُس کے متعلق ادبی کام کا جمع ہونا ایک منفرد کارنامہ قرار پایا۔ (کثیراللسانی لکھنا اردو کے بعض اہل قلم کی اختراع ہے، مگر عربی سے ناواقفیت کے سبب، غلط ِمحض ہے)۔

ہائیکوانٹرنیشنل ’اقبال حیدر نمبر‘ کے دو ایڈیشن ستمبر سن دوہزار اور مارچ سن دوہزار ایک میں منظرعام پر آئے۔ ہوا یوں کہ بیس مارچ کو مشاعرے میں ملاقات کے وقت، جاپانی سفیر نے ازراہ عنایت، راقم سے گفتگو کرتے ہوئے استفسار فرمایا کہ آیا پاکستان میں بھی چار موسم ہوتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا، بات ہوئی اور خوب ہوئی۔

ہرچند کہ تفصیلی نہ سہی، مگر موصوف بہت خوش ہوئے اور پھر اگلے دن جب راقم نے اقبال حیدرصاحب کے ساتھ، سفیر موصوف کا ایک پُرمغز خطاب سنا تو اُن کی لیاقت اور عمر کے فرق سے قطع نظر اُن کی مستعدی کا قائل ہوگیا۔ اُس روز میں نے سفیر جاپان کو اپنی اور اقبال حیدرصاحب کی طرف سے پاک جاپان تعلقات کے استحکام کے پیش نظر کچھ تجاویز، تحریری صورت میں پیش کیں۔ شگفتہ مزاج سفیر نے بعدازآں میرے اصرار پر ہائیکو انٹرنیشنل اور میری ادبی مساعی کے متعلق ایک توصیفی خط ارسال کیا۔

اس ضمن میں مزید تفصیل سے گریز کرتے ہوئے یہ عرض کردوں کہ جب مذکورہ تجاویز، انھی کے مشورے پر، جاپان میں مقیم سفیر ِ پاکستان سے رابطہ کیا تو قطعاً کوئی ’لفٹ ‘ نہیں کرائی گئی نہ ہی یاددہانی پرجواب کے لائق سمجھا گیا اور اسی پر بس نہیں، جاپان میں اپنی ادبی وصحافتی کاوشوں سے نیز تجارت میں نمایاں ہونے والے پاکستانی حضرات نے بھی اسے درخوراعتناء نہ سمجھا۔ بات موسم کی نکلی تو خزاں تک آئی۔

یہ موضوع میرے پسندیدہ موضوعات میں شامل ہے۔ آج کے مضمون میں قارئین کو شدت سے محسوس ہورہا ہوگا کہ نجی حوالہ بہت زیادہ ہے۔ بالکل بجا! کیا کریں اگر ایران توران کی بات کرنی ہو تو اس کام کے لیے بڑے مشاہرے پر مامور، ٹیلی وژن اینکر/گرگ بارا ں دیدہ صحافی کافی ہیں۔ اس حقیر پُرتقصیر کی کیا حیثیت ہے۔ خزا ں کے موسم سے راقم کا تعلق یوں بھی گہرا ہے کہ ستارہ سہیل [Canopus] درحقیقت اسی موسم سے وابستہ ہے ، اسی موسم کے اوائل میں، سمت جنوب سے فضاء میں نمودار ہوتا ہے۔ یہ شعریٰ یمانی [Sirius]کے بعد کائنات کا دوسرا انتہائی روشن ستارہ ہے جو سورج سے بھی ساڑھے پچپن ہزار گنا بڑا ہے۔

حاتم طائی کا قبیلہ بنوطئے اس ستارے کی پوجا کرتا تھا۔ جب یہ ستارہ ظاہر ہوتا ہے تو حشرات الارض مرجاتے ہیں اور زمانہ قدیم سے یمن اور بعض دیگر ممالک میں، سہیل کی روشنی میں چمڑے کو رنگنے کا رواج رہا ہے۔ اس ستارے کو عزت وشرف کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ عربی، فارسی اور اردو شاعری میں اس حوالے سے متعدد اشعار ملتے ہیں۔ اسے سنسکرت میں آگسٹ مُنی کہتے ہیں، جب کہ پشتو میں سمت جنوب کو سہیل کی نسبت سے ’سہُیلی‘ کہا جاتا ہے۔ خاکسار سہیل کی پیدائش بھی سردخزاں میں ہوئی، شاید اس لیے بھی ’خزاں پسند‘ واقع ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔