سب سے زیادہ قابل رحم لوگ

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 15 جولائی 2017

نامور ادیب ٹم ہینسل نے اپنی حیران کن کتاب ’’You Gotta Keep Dancing ‘‘میں لکھا ہے ’’ درد وکرب ناگزیر ہے لیکن مصیبت زدہ ہونا اختیاری ہے‘‘ پاکستانیوں سے زیادہ قابل رحم اور قابل ترس دوسرے کوئی انسان ہو ہی نہیں سکتے ہیں۔ ایک طرف وہ اپنے ہاتھوں مر رہے ہیں، دوسری طرف اپنوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں، تیسری طرف اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں، چوتھی طرف ملاوٹ ، غربت، افلاس ، بیماریوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں، پانچویں طرف جہالت اور بے روزگاری کے ہاتھوں مر رہے ہیں، چھٹی طرف زہریلے پانی پینے سے مر رہے ہیں۔

ساتویں طرف لالچ، کرپشن ،کمیشن اور لوٹ مار کے ہاتھوں مر رہے ہیں ،آٹھویں طرف دہشت گردوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں، نویں طرف انتہا پسندی کے ہاتھوں مر رہے ہیں اور باقی جو ابھی تک زندہ ہیں ان کی حالت مردوں سے زیادہ بدتر ہوچکی ہے ۔ آپ جو ابھی تک زندہ ہیں ان میں سے کسی سے بھی یہ سوال کرنے کا گناہ کربیٹھیں کہ ’’ ان کی زندگی کیسے گذر رہی ہے ‘‘ تو پھر ان کا جواب سن کر اگر آپ اپنا ذہنی توازن کھو نہیں بیٹھتے ہیں تو پھر آپ یا تو ولی اللہ ہیں یا پھر موجودہ صورتحال کے ذمے داروں میں سے ایک ہیں کیونکہ اس قدر درد و کرب دکھ سننے کے بعد انسان کو اپنا ہوش و حواس برقرار رکھنے کے لیے گوشت پوست کا نہیں بلکہ لوہے یا لکڑی کا ہونا ضروری ہے۔

آئیں! ان جیتے جاگتے انسانوں کے جواب تک زندہ ہیں اور جو سب کے سب گوشت پوست کے ہیں اورجوپاکستان میں بستے ہیں ۔ ان کے شب وروز سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کی تعداد تقریباً بیس کروڑ لگ بھگ ہے، ان میں تقریباً 70 فیصد انسان غربت کی لکیر کے نیچے سسک سسک کر بلک بلک کر اپنی زندگی بتارہے ہیں جن کی زندگی روز ایک ایک روٹی کے لیے ترستے ترستے گذر رہی ہے ان سب کے گھروں کے چاروں طرف کچروں اور گندگیوں کے بڑے بڑے پہاڑ بنے ہوئے ہیں ان سب کو کالی جہالت نے دبوچ رکھاہے یہ سب وہ زہریلا اور گند ہ پانی پینے پر مجبور ہیں جو مہذب ممالک میں جانوروں تک کو نہیں پلایا جاتا ہے۔

ان سب کے گھروں پر بیماریوں نے جبری قبضہ کررکھا ہے آپ کو ان کی بستیوں میں بڑی سے بڑی ، درمیانی سے درمیانی اور چھوٹی چھوٹی تمام بیماریوں کے جراثیم وافر مقدار میں بغیر ڈھونڈے اور پریشان ہوئے باآسانی اور مفت میں دستیاب ہوجاتے ہیں۔ انھیں ہر امیروکبیر اور بااختیار آدمی گالیاں دینا اور ذلیل کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا ہے جو گندگی کے علاوہ اور کچھ نہیں کھاتے ہیں ۔ان کی زندگیوں میں تپتا ہوا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا ہے موم بتی اور لالٹین کی مدھم روشنی پوری رات ان کے گھروں میں مہمان بنی رہتی ہیں۔

ان سب نے اور ان کے بچوں نے کبھی اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی ہے ان بستیوں میں روز ماتم ہونا معمول کی بات ہے اجتماعی گریہ سونے سے پہلے لازمی ہے اپنے آپ کومارے پیٹے بغیر سوکھی روٹی ہضم ہی نہیں ہو پاتی ہے۔ انھیں انتخابات میں ووٹ ڈالنے اور جلسوں کو بھرنے کے لیے جانوروں کی طرح گاڑیوں میں ڈال کر لے جایا جاتا ہے اور پھر کام ختم ہونے کے بعد ان کی واپسی ہزاروں دھکے کھاتے ہوئے اور میلوں پیدل چل کر ہوتی ہے اگر اس روز ان کی قسمت اچھی ہوتو لے جانے والے سو روپے دے دیتے ہیں ورنہ گالیاں ، ذلت اور دھکے تو ضرور ہی ملتے ہیں۔

ان سب بیس کروڑ لوگوں نے اور ان کے گذرے آباؤ اجداد نے خوشحالی، ترقی، آزادی، عزت کے بڑے بڑے اور لمبے لمبے خواب دیکھے تھے اور پاکستان بننے سے پہلے لمبی لمبی چھوڑا کرتے تھے اب اپنے خوابوں کو یادکر کے روز انھیں جوتے مارا کرتے ہیں اور ایسے برے برے خواب دیکھنے پر اپنے آپ کو لعنت بھیجتے رہتے ہیں اور رہ گئے باقی 25 فیصد انسان تو وہ بڑی ہی مشکل سے روز پیٹ کی دوزخ کو بھر پاتے ہیں۔

جب ہم ٹم ہینسل کی کہی گئی بات کو تسلیم کر تے ہیں کہ ’’ مصیبت زدہ ہونااختیاری ہے ‘‘ تو پھر ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہماری ساری تکلیفیں ، مصیبتیں ، اذیت ، دکھ ودرد سب کے سب اختیاری ہیں اور ہم نے اپنے لیے یہ ہی زندگی چنی ہے ہمیں تکلیفوں ، مصیبتوں ، اذیتوں، دکھ درد میں ہی تسکین ملتی ہے ان ہی میں ہی سکھ ملتا ہے، ورنہ ہم اپنے حالات کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے نہیں ہوتے اور ظالموں ، غاصبوں ، لٹیروں اور قاتلوں کو للکانے کی جرأت نہیں کربیٹھتے ۔ کیا ہم میں جرأت کی کمی ہے کیا ہم سب جرأت کے اوصاف کے بغیر زندہ ہیں۔

یاد رہے ہم سب ایک ادھوری دنیا میں ادھورے لوگوں کے ساتھ جی رہے ہیں کوئی شخص ہم سے یہ وعدہ نہیں کرسکتا کہ ہماری زندگیاں اذیت اور مایوسی سے آزاد ہوں گی ۔ اسی طرح کوئی شخص ہم سے یہ وعدہ ہ نہیں کرسکتا کہ ہماری زندگیاں مکمل طورپر محفو ظ اور ہمارے قابو میں ہوں گی۔

ہم اس صورت حال میں اکیلے نہیں ہیں ہر زندہ انسان اسی صورت حال سے دوچار ہے سوال یہ نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ ایسا ’’کیوں ‘‘ ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس سے ’’کس طرح ‘‘ نبردآزما ہوتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے درج ذیل دعا اپنے گھروں اور دفتروں میں آویزاں کی ہوئی ہو ’’خدا نے مجھے عطا کی ہے ۔ ان چیزوں کوقبول کرنے کی ہمت ، جنہیں میں تبدیل نہیں کرسکتا ۔ان چیزوں کو تبدیل کر نے کی جرأت ، جنہیں میں تبدیل کرسکتا ہوں۔‘‘ ہم جو کچھ بنتے ہیں، اس کا انحصار حالات پر نہیں بلکہ فیصلوں پر ہوتا ہے جب ہم کسی مشکل صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایک فیصلہ ہمارے سامنے ہوتا ہے، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ مشکل صورت حال کے سامنے ہتھیار ڈال دینے ہیں یا اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ زندگی کی حقیقتوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے لیے جرأت درکار ہوتی ہے۔

ونسٹن چرچل جرأت کونکتہ آغاز تصورکرتا تھا اس نے کہا تھا ’’ جرأت انسانی اوصاف میں سب سے پہلا وصف ہے کیونکہ یہ باقی سب کی ضامن ہے۔‘‘ وہ روز مرہ جرأت کی بات کرتا تھا۔ یاد رہے نہ تو کوئی شخص جرأت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی غیر معمولی خصوصیات درکار ہوتی ہیں۔ جرأت ہر شے سے بڑھ کر ایک فیصلہ ہوتی ہے۔

عظیم الہیات دان اور The Courge to Be کے مصنف پال ٹلچ سے اس کے مرنے سے تھوڑا عرصے پہلے پوچھا گیا کہ اس کی کتاب کامرکزی خیال کیا ہے اور روزمرہ کی جرأت سے اس کی کیا مراد ہے۔ پال ٹلچ نے کہا کہ حقیقی جرأت زندگی کی تمام تر مشکلات اور اذیتوں کے باوجود اسے ’’ہاں ‘‘ کہنا ہے مشکلات اور اذیت تو انسانی ہستی کا حصہ ہیں۔ اس نے کہا کہ زندگی اور ہمارے اپنے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر مثبت اور بامعنیٰ چیزوں کو ڈھونڈنا جرأت کا متقاضی ہوتا ہے جب ہم ایسا کرنے پر قادر ہوتے ہیں تب ہم نہ صرف زندگی کو مکمل طور پر قبول کرتے ہیں بلکہ اسے مکمل طور پر جینا بھی شروع کردیتے ہیں۔ زندہ رہنے کی جرأت کی سب سے اعلیٰ صورت زندگی سے محبت کرنا ہے۔

آئیں! ہم سب اپنی گذری ہوئی زندگی پر لعنت بھیج کر اپنے آپ سے دوبارہ محبت کر نا شروع کردیں، جب ہم ایسا کرنا شروع کردیں گے تو ہم میں جرأت خود بخود پیدا ہوجائے گی اور جب جرأت پیدا ہوجائے گی تو ہمیں اس حال پر پہنچانے والے ملک چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہونگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔