ڈاکٹر سلیم اختر سے ایک ملاقات  (پہلا حصہ)

نسیم انجم  اتوار 16 جولائی 2017
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

دراز قد، اجلی رنگت، دلکش نقوش، چہرے پر مسکان اور لب و لہجے میں دھیما پن، خوش اخلاق، خوش گفتار اور خوش لباس، انکساری اور عاجزی طبیعت میں رچی بسی۔ بزرگوں نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ پھل دار شاخیں جھک جاتی ہیں اور اکڑ مردوں کی پہچان ہے زندوں کی نہیں۔ حضرت علیؓ کا قول ہے جب اعلیٰ ظرف کو عزت دی جاتی ہے تو وہ مزید جھک جاتا ہے اور اگر یہی توقیر کم ظرف کے حصے میں آجائے تب وہ مخاطب کو کمتر اور اپنے آپ کو برتر سمجھنے لگتا ہے۔

ان سے میرا غائبانہ تعارف تھا اور آج علم و ادب کی بڑی شخصیت ڈاکٹر سلیم اختر سے ملاقات ہو رہی تھی۔ بات کرکے حقیقی مسرت سے ہمکنار ہوئی، بے حد منکسرالمزاج۔ تقریباً 10، 11 سال قبل میری ان سے ملاقات آرٹس کونسل میں عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر ہوئی تھی۔ اس دن اور اس کے بعد بھی کئی بار ان سے بذریعہ فون گفتگو ہوئی، ویسے تو میں ان کی تحریروں کے حوالے سے زمانہ طالب علمی سے واقف تھی، ان کے تنقیدی حوالے میری یادداشت میں جلد ہی محفوظ ہوجایا کرتے تھے۔

آج مجھے یہ اعزاز حاصل ہو رہا ہے کہ درویش صفت انسان ڈاکٹر سلیم اختر کا انٹرویو یا گفتگو کو احاطہ تحریر میں لاؤں کہ ڈاکٹر صاحب کے قدردانوں کی کمی نہیں ہے۔ وہ انھیں پڑھنا چاہتے ہیں اور مزید معلومات کے طالب ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کی جنم بھومی لاہور اور تاریخ پیدائش 1934 ہے۔ ان کے والد ملٹری اکاؤنٹ میں ملازمت کرتے تھے۔

یہ زمانہ انگریزوں کا تھا، دوسری جنگ کے شروع ہوتے ہی ان کے والد کا ایران اور عراق کے علاقوں میں تبادلہ کردیا گیا، اس طرح ڈاکٹر سلیم اختر ملکوں ملکوں گھومے اور تعلیمی سلسلہ مختلف شہروں اور ملکوں میں جاری رہا، جس وقت ڈاکٹر سلیم اختر درجہ دوم کے طالب علم تھے تو ان کے والد کی پوسٹنگ ’’پونا‘‘ میں ہوگئی، اس سے قبل وہ بمبئی میں کئی ماہ رہ چکے تھے اور جب وہ پانچویں جماعت میں زیر تعلیم تھے تو ان کے والد کو فرائض منصبی کی ادائیگی کے لیے انبالہ جانا پڑا، اور جب وہ 13 برس کے ہوئے تو انھوں نے پاکستان کو وجود میں آتے ہوئے دیکھا۔ پاکستان بننے کے بعد وہ اپنے والدین کے ساتھ اس شہر میں آگئے جہاں ان کی جنم بھومی ہے، یعنی لاہور میں۔ اور جب انھوں نے بی اے کی ڈگری حاصل کی، اس وقت وہ راولپنڈی میں رہائش پذیر تھے۔ انھیں ملازمت کی تلاش میں پشاور جانا پڑا، پشاور میں ڈاکٹر صاحب کے دوست رہتے تھے، لہٰذا انھیں وہاں بہت سی سہولتیں میسر آگئیں۔

ابھی ڈاکٹر سلیم اختر کو انٹرویو دیے ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھاکہ انھیں تقرری نامہ موصول ہوگیا۔ انھوں نے پشاور میں ہی ملازمت اختیار کرلی، اس کی وجہ والد کی بزرگی اور بہنوں کی شادیوں کی ذمے داری ان کے کاندھوں پر تھی، وہ بنیادی طور پر فلسفہ اور نفسیات کے طالب علم تھے، ان کا ارادہ فلسفے میں ایم اے کرنے کا تھا لیکن فرائض منصبی آڑے آگئے اور انھوں نے ملازمت کو برقرار رکھا، لیکن وہ اپنے آپ سے مطمئن نہیں تھے، ذہن نوکری کرنے کو قبول نہیں کر رہا تھا، تخلیقی صلاحیتیں منظر عام پر آنے کے لیے بے قرار تھیں، لہٰذا دوران ملازمت ہی ان کے شوق کی تکمیل اس طرح ہوئی کہ انھی دنوں ایک اخبار نکلتا تھا پشاور سے ’’شہباز‘‘ کے نام سے، اس اخبار میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی جگہ نکلی اور ڈاکٹر صاحب نے اس جگہ کو پر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، لیکن مزاج میں بے چینی تھی اور مزید کچھ کرنے کی لگن، اسی سوچ نے انھیں اخبار کو خیرباد کہنے کا مشورہ دیا، لہٰذا ڈیڑھ سال کی مدت کے بعد وہ لاہور واپس آگئے اور لائبریری سائنس میں داخلہ لے لیا، اسی دوران پنجاب پبلک لائبریری میں ملازمت مل گئی اور ملازمت کے دوران انھوں نے اردو میں ایم اے Good Second Division سے پرائیویٹ طور پر پاس کیا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ انھوں نے کسی استاد کی مدد نہیں لی بلکہ جی جان سے محنت کی اور کامیابی کا سفر طے کیا۔

پنجاب پبلک لائبریری میں انھیں اپنی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کا موقع میسر آیا، لائبریری میں انگریزوں کے زمانے کی کتابوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا، چنانچہ وہاں کے منتظمین نے انھیں یہ ذمے داری سونپ دی، بارہ دری پر بے شمار دھول مٹی میں اٹی ہوئی کتابیں اپنے قدردانوں کی منتظر تھیں۔ لہٰذا ان کتابوں کی فہرست تیار کرنے کا حکم ملا، اس طرح مطالعے کا شوق بھی پورا ہونے لگا۔ ڈاکٹر صاحب مسلسل تصنیف و تالیف کے کاموں میں مصروف رہے۔ انھوں نے بی اے فلسفہ اور نفسیات میں کیا جب کہ پی ایچ ڈی میں ان کا موضوع ’’اردو تنقید میں نفسیات کا دبستان‘‘ تھا۔

ملاقات کے دوران ڈاکٹر صاحب نے اپنے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمارے زمانے میں والدین کا رویہ اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ اس محاورے پر عمل پیرا ہونا اپنا فرض سمجھتے تھے کہ ’’کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ سے‘‘ لیکن میرے والد صاحب بڑے لبرل تھے، 1930 اور 1934 میں سینما جانا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا، جب کہ والد صاحب کا رویہ اپنے ماحول کے حوالے سے برعکس تھا، وہ مجھے اپنے ساتھ سینما دکھانے لے جایا کرتے تھے۔

گھر کے ماحول خصوصاً والد کے مشفقانہ سلوک نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں اعتماد اور نکھار پیدا کردیا اور وہ علم و ادب کی راہوں میں آزاد پنچھی کی طرح آگے بڑھتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ بھی خوش بختی تھی کہ ان کے والد کے حلقہ احباب میں ادیب و شاعر شامل تھے اور ان کے ساتھ باقاعدہ بیٹھک ہوتی تھی، اختر شیرانی اور عدم کے ساتھ بہت اچھے روابط تھے۔ ان ادبی شخصیات نے ڈاکٹر سلیم اختر کے ادبی شوق کو جلا بخشی، ساتھ میں ان کے ابا جی کا بھی مکمل طور پر تعاون شامل رہا، انھوں نے ڈاکٹر سلیم اختر کے لیے کئی ادبی جریدے لگوادیے، اس طرح پابندی کے ساتھ پرچے آنے لگے۔

ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان دنوں ’’تعلیم و تربیت‘‘ رتن، جموں کشمیر سے نکلتے تھے، دلی سے بھی ایک پرچہ نکلتا تھا، باقی انھوں نے لائبریری سے استفادہ کیا اس طرح مطالعہ اور لکھنے کے شوق کو تقویت ملی۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی دنوں میں مضامین اور کہانیاں لکھیں، جب آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے تب انھوں نے پہلا افسانہ ’’قربانی‘‘ لکھا جو لاہور کے فلمی پرچے میں چھپا تھا، دوسرا افسانہ ’’مسافر‘‘ بھی اسی پرچے کی زینت بنا۔ دہلی سے نکلنے والے پرچے میں بھی دو افسانے شایع ہوئے، ان دنوں ڈاکٹر صاحب جب میٹرک میں زیرتعلیم تھے ’’شمع‘‘ میں عصمت چغتائی، کرشن چندر زیادہ چھپتے تھے۔

’’شمع‘‘ میں ڈاکٹر صاحب کے شایع ہونے والے افسانوں کے نام ’’ایک محبوبہ اور طوائف‘‘ اور ’’کٹھ پتلی‘‘ تھے، ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنے افسانے اپنے والد کو دکھائے تو انھوں نے خوشی کا اظہار کیا اور حوصلہ بڑھایا۔ والد کے اچھے رویے نے انھیں مزید لکھنے پر مائل کیا اور وہ شاعری کی طرف آگئے۔ یہ 1951 کا دور تھا جب والد صاحب کو انبالہ بوجہ نوکری آنا پڑا، اتفاق سے عدم صاحب ان کے پڑوسی تھے، ان کے صاحبزادوں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی دوستی ہوگئی اور ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا ہوگیا۔     (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔