بے حسی یا سنگدلی؟

رئیس فاطمہ  اتوار 16 جولائی 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ہم منافق بھی ہیں اور بے حس بھی۔  ہمارا  میڈیا  ہو یا کوئی اور ادارہ یا عوام ، ان کی خر مستیاں، ناز و انداز اور احمقانہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ خاص طور پر چاند رات کو ہونے والا احمد پور شرقیہ والے اندوہناک حادثے کے حوالے سے میڈیا کا رویہ بڑا سفاک تھا۔ ایک طرف ٹینکر میں آگ لگتے اور شعلے بلند ہوتے دکھائے جا رہے تھے۔ آگ میں جلتے مرتے ہوئے لوگوں کی چیخ و پکار فضا میں بلند تھی، بنے ٹھنے نیوز پڑھنے والے بار بار یہ تصاویر دکھا رہے تھے۔ساتھ ہی چاند نظر آنے کی خبروں کے ساتھ ساتھ عید کی تیاریاں بھی مختلف شاپنگ مال میں دکھائی جا رہی تھیں۔

ایک ویڈیو کلپ چوڑی مہندی اور سینڈلوں کی خریداری کا دکھایا جاتا اور ملک بھر میں چاند رات کی بھرپور تیاریوں کو دکھایا جاتا، فوراً ہی دوسری خبر میں احمد پور شرقیہ کے حادثے میں مرنے والوں کی تعداد بتادی جاتی۔ پھر جب کیمرا نیوز ریڈر کے چہروں کی طرف جاتا تو ایک دوسرے سے عید کی تیاریوں کا حال پوچھا جاتا۔ نیوز ریڈر نے اپنی ساتھی سے یوں مکالمہ کیا ’’لگ رہا ہے آپ نے بھی عید کے حوالے سے خوب خوب تیاریاں کر رکھی ہیں۔ کل خوب زور و شور سے تیار ہوکر آئیں گی۔‘‘

خاتون نے ہنس کر جواب دیا۔ ’’جی ہاں، جی ہاں۔ بالکل عید ہمارا سب سے بڑا تہوار ہے۔ آپ کی تیاری بھی کچھ کم نہیں ہوگی(ہنس کر)۔ اس کے ساتھ ہی آرمی چیف کا بیان آیا کہ ’’قوم سادگی سے عید منائے‘‘ بس اتنا بیان ہی کافی تھا کیا؟ ان بدنصیب لوگوں کے لیے۔ لیکن یہ جملہ بھی رسمی ہی تھا۔ اس بیان کے بعد سلسلہ وہیں سے جڑ گیا جہاں سے ٹوٹا تھا، بریک کے بعد ایک پٹی چاند نظر آنے کی چلتی تھی اور دوسری میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کی۔

چاند رات کے خبرنامے میں صرف چہلیں اور شوخیاں تھیں۔ خبریں پڑھتے وقت عید کے حوالے سے ان کے لہجے جہاں خوشیوں سے بھرپور تھے وہیں حادثے میں مرنے والوں کی خبر ایک عام سے لہجے میں بتا دی گئی۔ یہ رویہ صرف احمد پور شرقیہ کے حادثے کے حوالے سے ہی اتنا بے حس نہیں تھا بلکہ جب جب ایسے ہولناک حادثے ہوئے ہیں خواہ پارا چنار میں ہو یا پشاور اور کوئٹہ میں مرنے والوں کی تعداد بڑھنے کی خبریں ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے طور پر دی جاتی ہیں۔ ایک دن میڈیا شور مچاتا ہے۔ دوسرے دن ٹاک شوز کی محفلیں سجا کر 24/7 کا پیٹ بھرتا ہے۔

دلخراش اور تکلیف دہ دل دہلا دینے والے مناظر کو بار بار دکھایا جاتا ہے۔ جیساکہ گنے کے پھوک سے رس کا آخری قطرہ نہ نکال لیا جائے۔ اسے مشین میں پیلتے رہتے ہیں۔ اسی طرح جب تک کوئی نیا حادثہ رونما نہیں ہوجاتا، سارے چینل اس دوڑ میں شامل رہتے ہیں۔ ایک طرف تماشا یہ کہ ہر چینل کا بزعم خود یہ دعویٰ کہ سب سے پہلے یہ خبر اس نے دی ہے۔ یہ بے حسی پورے معاشرے کا مزاج بن گیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے انعامات کی بوچھاڑکرکے قوم کو بھکاری بنادیا ہے۔ کیسی کیسی اول جلول اور بے ڈھنگی حرکات کروا کے انعامات دیے جاتے ہیں۔ پختہ عمر کے مرد حضرات کو ایک ٹانگ پہ نچوایا جاتا ہے۔

احمقانہ حرکات کرتے وقت خواتین بہت پرجوش نظر آتی ہیں، ایک ہنگامہ۔ انعامات حاصل کرنے کے لیے سب کے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں۔ لیکن قرعہ فال جن کے نام نکلتا ہے۔ ان کی اصلیت بہت سے لوگ جانتے ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ پروگرام میں پھکڑ پن شامل کیا جائے؟ نیلام گھر ایک عرصے تک پی ٹی وی سے پیش ہوتا رہا، انعامات اس میں بھی دیے جاتے تھے۔ لیکن اس میں سوالات اس نوعیت کے ہوتے تھے جن سے مطالعہ کرنے کا شوق پیدا ہوتا تھا۔ لوگ ان ذہنی آزمائشوں کے پروگرام سے کچھ لے کر ہی جاتے۔ لیکن کسی نہ کسی سوال کا جواب دے کر۔ لیکن موجودہ انعامات کی بارش کرنے والے پروگراموں میں شائستگی کا عنصر کم کم نظر آتا ہے۔

اشتہارات کسی بھی اخبار یا ٹی وی چینل کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے اپنی پروڈکٹ کو لوگوں سے روشناس کروانے اور لوگوں کی جیب سے پیسے نکلوانے پرکشش کمرشلز بنائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات نہایت غیر معیاری چیزیں صرف اس کی بنا پر بک جاتی ہیں۔ جیساکہ ایک دفعہ رنگ گورا کرنے کی کریم کے اشتہاروں نے تباہی مچائی تھی۔ جن خواتین نے اسے استعمال کیا تھا ان کے چہرے کی جلد خراب ہوگئی۔  اس سے ان لوگوں میں مایوسی اور ڈپریشن پیدا ہوتا ہے جن کی قوت خرید سے وہ اشیا باہر ہیں۔ معاشرہ دو متوازی راستوں پہ چل رہا ہے۔

ایک وہ جس پر دولت مند اپنی تمام خواہشات کو چٹکی بجاتے میں پورا کرلیتے ہیں اور دوسرا وہ جس پر آبادی کی اکثریت رواں دواں ہے۔ احساس محرومی کے ساتھ کچھ لوگ مایوسی کے سمندر میں چپ چاپ ڈوب جاتے۔ ہر زیادتی کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔ لیکن معاشرے کے کچلے ہوئے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں متوازی راستوں پہ عیش و آرام کے ساتھ تمام تر تعیشات کے ساتھ چلنے والوں کے لیے دل میں بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں اور وہ اپنا حق چھین کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لوٹ مار، چوری چکاری، اغوا برائے تاوان جیسے جرائم کے پیچھے غربت کے ناگ وجود میں پلتے ہیں۔

ٍتوڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیرا کرکے اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ یہ کوڑے سے رزق تلاش کرنے والے لاچار لوگ، محنت مزدوری کرنے والے مجبور اور بے کس لوگ، ان سب کے دلوں میں نفرت کے لاوے پکتے ہیں۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم انھیں جرائم کی طرف راغب کرتی ہے۔ گھروں سے بھاگنے والی لڑکیوں کی اکثریت غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ ڈراموں کے ذریعے عشق اور محبت کو زندگی کی ضرورت بنادیا گیا ہے۔ سب کچھ کھلا ہے، یہ ڈرامے نوجوان لڑکیوں کے جذبات بھڑکاتے ہیں اور وہ سوچے سمجھے بغیر گھر سے باہر قدم نکال لیتی ہیں نتائج کی پرواہ کیے بغیر سب کچھ کر گزرتی ہیں۔ صرف پرآسائش زندگی کی خاطر، جو عموماً سراب ثابت ہوتی ہے۔

ایک اور نامناسب رویہ یہ بھی ہے کہ ٹاک شوز میں عام آدمی کے مسائل کی نمایندگی ناپید ہے۔ ہر ٹاک شو سیاست سے شروع ہوکر سیاست پہ ختم ہوجاتا ہے۔ صرف چند چہرے ہیں جنھیں  ’’ دانش ور‘‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔ ہمیشہ ہر موضوع پر یہ بلا لیے جاتے ہیں اور اپنی اپنی پارٹی اور پارٹی لیڈر کو بالکل بے گناہ ثابت کرنے میں عام طور پر یہ افلاطون جنھیں ان کی پارٹی نامزد کرتی ہے مرنے مارنے کی پریکٹس کرکے آتے ہیں۔ گرج دار آواز غصے سے کپکپاتی آواز، منہ سے کف جاری، غیر شائستہ زبان استعمال کرتے ہوئے خود کو سیاست کا چیمپئن ظاہر کرتے ہیں اور افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ٹاک شوز میں اینکر خود پارٹی بن جاتا ہے اور اپنی عدالت سجا لیتا ہے جوکہ غلط ہے۔

پروگرام کے میزبان کو پروگرام کے دوران بالکل غیر جانبدار رہنا چاہیے اور شرکا کو بولنے کا موقع دینا چاہیے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ جوں ہی اپوزیشن کا یا کسی دوسری پارٹی کا نمایندہ اپنا موقف پیش کرتا ہے فوراً اینکر دخل در معقولات کرتا ہے اور فوراً ہی ’’بریک‘‘ کی باری آجاتی ہے۔ چند لوگوں کو ٹھیکے پہ حاصل کرلیا گیا ہے جس چینل کو دیکھیے وہی چند چہرے جلوہ گر ہوتے ہیں۔ سفارش، تعلقات اور حکمرانوں کا دباؤ۔ یہ سب مل کر کام کرتے ہیں۔ اس لیے عام آدمی کی نمایندگی سرے سے نہیں ہے۔

مہنگائی عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن اس مسئلے کی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔ بے روزگاری کیسے دور ہو، دہشت گردی اور بغیر لائسنس کے ہتھیاروں کا قلع قمع کیسے کیا جائے۔ ہمارا میڈیا ان سب سے بے خبر ہے۔کیونکہ ان کے بھی ہاتھ بندھے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی میڈیا نے اچھے کام بھی کیے ہیں۔

بلوچستان کے وڈیرے  نے جس طرح ایک پولیس اہلکار کو اپنی گاڑی تلے روند ڈالا اس کی خبر میڈیا ہی نے دی ورنہ تو کسی کو پتا بھی نہ چلتا کہ کیا ہوا۔لیکن مجموعی طور پر نامناسب پابندیوں کے باوجود الیکٹرانک میڈیا کا کردار مثبت رہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آج کا صحافی کتنا مجبور ہے۔ پھر بھی بعض خبریں بالخصوص خواتین پر تشدد اور کم عمری کی شادیوں کو ’’ونی‘‘ اور ’’کاروکاری‘‘ جیسی قبیح رسوم کو میڈیا نے بہت اچھی طرح پیش کیا ہے۔ لیکن کچھ ٹاک شوز سیاست سے ہٹ کر بھی ہونے چاہئیں۔

زندگی صرف ’’سیاست‘‘ نہیں کچھ اور بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔