امریکی صدر کا معاہدے سے فرار

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 17 جولائی 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

میڈیا میں آنے والی خبروں کو اگر ایک طرف رکھ دیں اور کسی باخبر اور باشعور شخص سے یہ سوال کریں کہ اس وقت دنیا کے چند اہم ترین مسائل کون سے ہیں تو وہ ماحولیات کی خرابی کے مسئلے کو ضرور بیان کرے گا۔

جو لوگ اس مسئلے سے واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ماحولیات میں تبدیلی کی وجہ سے دنیا تیزی سے تباہی کی طرف جا رہی ہے اور اس کی وجہ صنعتی ترقی اور ہمارا جدید طرز زندگی ہے، کیونکہ اس سے آلودگی میں تیزی سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس اضافے سے نہ صرف اوزون کی سطح تباہ ہورہی ہے بلکہ ایسی موسمیاتی تبدیلیاں ہورہی ہیں کہ جن سے اس وقت بھی دنیا بھر میں قدرتی آفات آرہی ہیں اور ماہرین کی پیش گوئی ہے کہ اس عمل سے دنیا جلد تباہی کے دہانے پہنچنے والی ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب اتنی بڑی تباہی سر پر کھڑی ہے تو اقوام متحدہ، بڑے بڑے ممالک اور ان کے عوام کیا کر رہے ہیں؟ بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر دنیا بھر کے ممالک نمایندے سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل کیسے نکالا جائے ، کیا حکمت عملی اپنائی جائے مگر جب یہ نمایندے اپنے اپنے ملک میں جاکر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو بے بس ہوجاتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آلودگی کو کیسے کم کریں؟ ان کے راستے میں بڑے بڑے سرمایہ دار اور ملکی پالیسیاں آڑے آجاتی ہیں، جو کسی قیمت پر اپنی کاروباری سرگرمیاں یعنی پروڈکشن کم کرنے پر تیار نہیں ہوتیں۔

اسی طرح جو پالیسیاں اور معاہدے یا وعدے عالمی سطح پر کیے جاتے ہیں وہ بھی وفا نہیں ہو پاتے۔ ان دنوں ایک ایسی ہی بڑی خبر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہے کہ اس نے موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق پیرس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ یہ معاہدہ پچھلی امریکی حکومت میں صدر اوباما کے دور میں ہوا تھا۔ ٹرمپ کے اس فیصلے پر دنیا بھر میں احتجاج ہو رہا ہے۔

امریکا میں انتخابات کے موقع پر تقریباً ہر صدارتی امیدوار عوام سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ماحولیات کی بہتری کے لیے کام کرے گا اور آلودگی کم کرنے کے لیے اقدامات کرے گا، مگر اقتدار میں آنے کے بعد اپنے وعدے پر عمل نہیں کرتا۔ موجودہ امریکی صدر ٹرمپ اس سلسلے میں سب سے آگے نکل گئے ہیں اور انھوں نے پیرس جیسے عالمی معاہدے کو ہی ختم کردیا۔ سوال یہ ہے کہ امریکی صدور ایسا کیوں کرتے ہیں اور دنیا بھر میں بھی کچھ ایسا ہی رویہ اس اہم مسئلے پر کیوں ہوتا ہے؟

بات یہ ہے کہ اس مسئلے کا واحد حل آلودگی ختم یا کم سے کم کرنا ہے اور دنیا بھر میں آلودگی کے بڑھنے کی وجہ بڑی بڑی فیکٹریاں اور صنعتیں ہیں، جہاں دن رات اشیاء تیار ہوتی ہیں اور پھر بازار میں فروخت ہوتی ہیں، پھر ان سے سرمایہ دار کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب کوئی بھی سرمایہ دار یہ نہیں چاہتا کہ آلودگی کم کرنے کے لیے وہ اپنی فیکٹری یا صنعت کو کچھ دیر ہی کے لیے بند کردے۔

یہ سرمایہ دار ہر ملک میں ہی نہیں عالمی سطح پر بھی بہت بڑی قوت ہیں، جس کے باعث آلودگی کم کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں۔ مثلاً امریکا کا تو انتخابی نظام ہی کچھ اس قسم کا ہے کہ جس امید وار کو سرمایہ داروں کی حمایت حاصل نہ ہو اس کے لیے صدر منتخب ہونا تو دور کی بات صدارتی الیکشن میں کھڑا ہونا بھی تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

ان سب حقیقت کے باوجود ماحولیات کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے، جس کی اہمیت سے سب آگا ہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے اس فیصلے کو اقوام متحدہ کے ترجمان نے مایوس کن قرار دیا، یورپی یونین نے افسوس ناک دن قرار دیا، جب کہ فرانس کے صدر نے کہا کہ وہ اس فیصلے کا احترام کرتا ہے لیکن ان کا ملک موسمیاتی تبدیلیوں کے معاہدے پر قائم رہے گا۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ امریکا کے نکل جانے کے بعد یورپ کے ساتھ مل کر اس معاہدے پر عمل کرے گا۔

اس معاہدے میں عالمی سطح پر موجود حدت میں دو ڈگری کمی کی بات کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ بڑھتی ہوئی حدت کے باعث برفانی گلیشیئر اپنی جگہ سے ہٹ کر سمندر میں شامل ہورہے ہیں، انٹارکٹیکا میں پندرہ برسوں میں تیسری بار ایک چھ ہزار مربع کلومیٹر کا بڑا برفانی تودہ برفانی خطے سے الگ ہوچکا ہے۔ یہ بات اب راز نہیں رہی ہے کہ جدید طرز زندگی کے تقریباً تمام معاملات زندگی ہی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں، چنانچہ عالمی سطح پر توانائی کے استعمال کے حوالے سے بھی کوششیں جاری ہیں کہ کس طرح سے اس مسئلے پر قابو پایا جاسکے۔

اس سلسلے میں امریکا میں توانائی کے حصول کے لیے کوئلے کا متبادل استعمال کرنے کو ترجیح دی جارہی ہے، برطانیہ میں 2025 تک کوئلے سے مکمل نجات کا منصوبہ ہے۔ بھارت میں کوئلے کا استعمال عروج پر ہے مگر اس کا کہنا ہے وہ تب ہی اس عمل کو ترک کرے گا جب اسے مالی امداد دی جائے۔

توانائی کے متبادل حصول کے لیے فرانس نے ملک کو کاربن نیوٹرل بنانے کے لیے 2050 تک کا منصوبہ پیش کیا ہے اور جلد ڈیزل گاڑیوں کا خاتمہ کرکے الیکٹرک گاڑیوں کے کلچر کے فروغ کا اردہ ظاہر کیا ہے، سوئیڈن نے بھی آیندہ چند برسوں میں روایتی انجن کے بجائے بجلی اور ہائیبرڈ انجن والی گاڑیاں ہی چلانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن یہ وہ کوششیں ہیں کہ جن میں صنعتوں کا پہیہ نہ رکتا ہے اور نہ ہی اس میں کمی آتی ہے، گویا سرمایہ داری کے اس کلچر میں ماحولیات کے مسئلے سے نمٹے کے لیے زیادہ تر وہ کوششیں ہورہی ہیں کہ جن میں سرمایہ دار کا سرمایہ کم نہ ہو، بلکہ صنعتیں دن رات چلتی رہیں، جب کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ صنعتیں کم سے کم کام کریں، کیونکہ ان کے دن رات چلنے سے ہی خطرناک آلودگی بڑھ رہی ہے۔

چین نے یک دم ترقی کے لیے ایک چھلانگ لگائی جس سے اس کا مقام تو ضرور بڑھ گیا مگر اس کی عوام کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق چین کے ستر سے زائد شہروں میں سے صرف آٹھ شہروں کی فضا مقرر کردہ معیار کے مطابق ہے، چین کے ایک اعلیٰ فوجی افسر کا کہنا ہے یہاں اس قدر آلودگی بڑھ چکی ہے کہ امریکی لیزر ہتھیار موثر طور پر کام نہیں کرسکتے۔ چین میں بڑھتی ہوئی آلودگی کے باعث دو برس پہلے حکومت کو صنعتی مراکز اور کارخانوں کو بند کرنے کا الرٹ جاری کرنا پڑا، کھلے مقامات پر باربی کیو کے پانچ سو سے زائد اسٹال بند کرانے پڑے، کوئلے سے چلنے والی آٹھ ہزار فیکٹریوں کو بند کرنا پڑا۔

چین ہمارا پڑوسی ملک ہے، جب کہ آلودگی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان بھی نمایاں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب دنیا بھر میں سرمایہ دار اپنے سرمائے میں کسی طور کمی کرنے کو تیار نہیں، وہ دن رات پروڈکشن جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ایسے میں بحیثیت ایک فرد ہم کیا کر سکتے ہیں؟

عوام یا ایک فرد اپنے طور پر اس میں بہت اہم کر دار ادا کرسکتا ہے اور وہ کردار ہے سادگی کا۔ جب ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارے استعمال میں آنے والی ہر مشین (مثلاً فریج، ایئرکنڈیشڈ، گاڑیاں) آلودگی اور درجہ حرارت بڑھانے کا باعث بنتی ہیں تو ہم اس کا استعمال کم سے کم کریں، مثلاً کمرے سے باہر جائیں تو اے سی اور لائٹس بند کردیں، گاڑی کم سے کم اور چھوٹی سے چھوٹی استعمال کریں، شادی وغیرہ کی تقریب کے لیے اے سی ہال استعمال نہ کریں، استعمال کی اشیاء بلاوجہ نہ بڑھائیں، مثلاً بعض لوگ ضرورت سے زیادہ کپڑے اور جوتے کے جوڑے رکھتے ہیں۔

فرض کریں دنیا کے ایک ارب لوگ اپنی ضرورت سے زائد صرف ایک جوتا جوڑا خریدتے ہیں تو اس کا مطلب جوتے کے کارخانے میں ایک ارب جوتے مزید تیار ہوں گے، ذرا سوچیے جب یہ ایک ارب جوتے بنیں گے تو کتنی بجلی خرچ ہوگی؟ اور اس سے کتنی آلودگی اور کتنا درجہ حرارت بڑھے گا؟ اب ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیجیے، آپ کے پاس کتنی ایسی اشیاء ہیں جو اگر نہ ہوتیں تو تب بھی گزارا ہوتا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔