نقصان خربوزے کا ہی ہونا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  پير 17 جولائی 2017

ہندوستان میں بندروں کے شکاری انھیں پکڑنے کے لیے ایک صندوق استعمال کرتے ہیں، جس کے اوپری ڈھکنے میں ایک کھلا سوراخ ہوتا ہے، جو اتنا بڑا ہوتا ہے کہ بندر اس میں اپنا ہاتھ ڈال سکتا ہے، اس صندوق میں اخروٹ ہوتے ہیں، بندر سوراخ سے ہاتھ صندوق کے اندر ڈال کر اخروٹوں سے مٹھی بھر لیتا ہے، اب وہ مٹھی کو باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سوراخ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اس میں سے صرف کھلا ہاتھ ہی باہر نکل سکتا ہے، مٹھی نہیں۔ بندر کو انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ یا تو اخروٹ مٹھی سے نکال کر ہمیشہ کے لیے آزاد ہوجائے یا اخروٹ مٹھی میں پکڑے رکھے اور پھنسا رہے۔

ذرا اندازہ لگائیں کہ بندر ہر مرتبہ کیا کرتا ہے؟ آپ نے درست اندازہ لگایا، وہ اخروٹ مٹھی میں پکڑے رکھتا ہے اور پھنسا رہتا ہے۔ انسان بندروں سے مختلف نہیں ہے۔ لالچ کے معاملے میں انسان اور بندر دونوں یکساں ہیں، دونوں ہی ایک جیسی حرکتیں کرتے ہیں، دونوں کا ایک ہی جیسا رویہ ہوتا ہے، بس فرق صرف اتنا ہے کہ انسان پھنسنے کے بعد غصے اور طیش میں آجاتا ہے اور بندر پھنسنے کے بعد غصے اور طیش میں نہیں آتا۔

انسان اپنے علاوہ باقی سب کو قصوروار اور مجرم ٹھہراتا پھر رہا ہوتا ہے، باقی سب کو زور زور سے برا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے جب کہ بندر پھنسنے کے بعد بھی چپ چاپ رہتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ انسان کو اس بات پر بھی سخت غصہ اور طیش آرہا ہوتا ہے کہ لوگ اسے کیوں قصوروار اور مجرم قرار دیتے پھر رہے ہیں۔

لالچ کے معاملے میں انسان اپنی ساری سمجھ بوجھ اور عقل کو اٹھا کر اپنے سے دور پھینک دیتا ہے، اس وقت وہ تمام سمجھ بوجھ اور عقل سے پاک اور بے بنیاد انسان ہوتا ہے، اس کی جھنجھلاہٹ، گھبراہٹ اور غصے میں وقت کے ساتھ ساتھ اس تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے کہ پھر اس میں اور بے وقوفوں اور احمقوں کے درمیان سارے فاصلے مٹ چکے ہوتے ہیں اور وہ پھر ایک بہت بڑا بے وقوف اور احمق کے علاوہ اور کچھ نہیں رہتا ہے۔

اگر آپ انسانوں کے اس کردار کا مشاہدہ اور تجربہ اپنی آنکھوں سے خود کرنا چاہتے ہیں تو پھر روز شام 6 بجے سے لے کر رات 12 بجے تک اپنے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جایا کریں اور مختلف ٹی وی چینلز کے تمام ٹاک شو اور تمام حکومتی اعلیٰ عہدے داروں کی پریس کانفر نس باقاعدگی کے ساتھ ملاحظہ کرلیا کریں۔ جب آپ یہ تجربہ کررہے ہوں گے تو آپ کی ان سے ملاقات خودبخود ہوجائے گی، اس لیے کہ آج کل J.I.T کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان اور بالخصو ص اسلام آباد میں ایک سیاسی بھونچال آیا ہوا ہے اور سب کی نظریں انجام کی طرف لگی ہوئی ہیں۔

سب قصوروار اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اس قدر بھونڈے انداز میں بے قصور ثابت کررہے ہیں کہ معصوم سے معصوم انسان تک انھیں قصوروار سمجھنے لگا ہے۔ اس لیے حقیقت یہ ہے کہ قصورواروں کا انجام سے پہلے ہی انجام ہوچکا ہے۔

کیا موجودہ حکومت اپنا اثر کھو چکی ہے ۔ اب اس بات کا صفر فیصد امکان ہے کہ افسران ان کی بات پر کان دھریں گے، احکامات کی تعمیل کا معاملہ تو تقریباً ختم ہی ہوچکا ہے، ان کے خود دوست بھی چپکے چپکے دوسری راہیں تلاش کر رہے ہیں اور بعض دوست تو ان کے ساتھ مل کر ان کے لیے گڑھا کھود رہے ہیں، جو ان کے ساتھ آخری وقت تک رہیں گے اور موجودہ حالات سے صاف ایسا لگتا ہے کہ وہ انھیں اپنے ساتھ ہی لے ڈوبیں گے۔

یاد رہے پاکستان کے بیس کروڑ عوام انتہائی سخت تکلیفوں میں اپنی گزر اوقات کررہے ہیں۔ ان کے سامنے جھوٹی معصومیت کا رونا رونا اور ساتھ ہی شاہانہ شان و شوکت اور ٹھاٹ باٹھ رکھنا عوام کو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ عوام سب سے زیادہ ذہین اور سمجھ دار ہوتے ہیں۔ انھیں یہ بھی یاد رہے کہ ان کی ساری سیاست خرید و فروخت کے گرد گھومتی رہی ہے، وہ ان کے اس نعرے کو کیسے بھول سکتے ہیں کہ خریدو اور اختیارات حاصل کرلو، دولت جمع کرو اور خریدو اور جو نہیں مانتا اسے ڈراؤ، لٹکادو۔

سیاست کا یہ ہی انداز گزشتہ دو تین دہائیوں سے کھڑکی توڑ کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا لیکن اب حالات ان کے قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ انھوں نے اپنے لالچ کے ہاتھوں اپنے لیے تو مسائل کھڑے کیے ہی ہیں لیکن انھوں نے اپنا ساتھ دینے والوں کے لیے زیادہ مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ ان کی پوزیشن خربوزے کی طرح ہوچکی ہے، جس کی مثال دی جاتی ہے کہ چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر گرے، دونوں صورتوں میں نقصان خربوزے کا ہی ہوتا ہے۔

انھیں مختلف مشورے دیے گئے تھے کہ کوئی بہتر راستہ تلاش کرلیں، لیکن انھوں نے کوئی بھی بہتر راستہ اختیار نہیں کیا اور معاملات کو بگاڑتے ہی چلے گئے، وہ کسی بھی صورت اخروٹوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے، ان کے معاملے کو بگاڑنے میں ان کے صوبہ پختونخوا کے دوستوں کے مشورے شامل ہیں، جو اسلام کا بھی دعویٰ کرتے ہیں اور بدعنوانی کے خلاف کارروائی پر بھی تیار نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں حالات نہ صرف ان کے خلاف جارہے ہیں بلکہ ان کے دوستوں کے خلاف بھی جارہے ہیں۔

جب عوام کے سامنے کسی کی ساکھ خراب ہوجائے تو ان کا ساتھ دینے والوں کی ساکھ زیادہ خراب ہوجاتی ہے۔ چونکہ متحدہ عرب امارت اور برطانیہ سے آنے والے ثبوتوں نے ان کے کھیل کو نقصان پہنچایا ہے، اس لیے اب بچنا محال ہے۔ آج کل ارسطو اور آسکر وائلڈ کی کہی گئی باتیں ہم سب کو بار بار یاد آرہی ہیں کہ ’’چیخ چیخ کر باتیں کرنا اور جلد جلد قدم اٹھانا اندرونی خلفشار کی علامتیں ہیں‘‘ اور ’’کس قدر افسوسناک بات ہے کہ زندگی کے سبق اس وقت ملتے ہیں جب وہ ہمارے لیے بیکار ہوجاتے ہیں‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔