19 جولائی، کشمیری جدوجہد اور عالمی میڈیا 

تنویر قیصر شاہد  پير 17 جولائی 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

اِس بار ایل او سی کے آر پار کشمیریوں کی طرف سے ’’یومِ الحاقِ پاکستان‘‘ ایسے ایام میں منایا جارہا ہے جب ہمارا کشمیری نژاد وزیر اعظم بحرانوں اور آزمائشوں کی زَد میں ہے۔اُنیس جولائی کو ’’یومِ الحاقِ پاکستان‘‘ کامنایا جانا اتنا ہی پرانا ہے جتنی تحریکِ آزادیِ کشمیر پرانی ہے۔

پاکستان بنتے ہی کشمیریوں نے ’’آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ‘‘ کے پلیٹ فارم سے، 19جولائی کو، اعلان کر دیا تھا کہ کشمیری پاکستان سے الحاق کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ اعلان تقسیمِ ہند کے فارمولے کے عین مطابق تھا۔ بھارت مگر اس فیصلے میں گند گھولنے اور اِس کی تکذیب کرنے کی سر توڑ کوششیں کرتاآرہا ہے۔ اُس کی اب تک کی کوششیں مگر کشمیریوں کو اپنی طرف مائل اور قائل نہیں کر سکی ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے جنوبی خطے، جہاں علیحدگی پسندی اور جہادِ کشمیر کی جڑیں نہائیت گہری ہیں، کے بچے بھی اب الحاقِ پاکستان کے مضبوط داعی بن چکے ہیں۔ پاکستان سے محبت کا یہ جذبہ اُنہیں اپنے والدین اور بزرگوں سے وراثتاً ملا ہے۔ قابض بھارت بھی اِن پھیلتے جذبات سے واقف ہے؛ چنانچہ اِس جذبے کو کچلنے اور سرد کرنے کے لیے جنوبی مقبوضہ کشمیر کے فوجی کمانڈر، میجر جنرل بی ایس راجو، کو ایک انوکھا خیال سُوجھا ہے۔

منصوبہ یہ ہے کہ جنوبی کشمیر کے کئی درجن بچوں کا انتخاب کیا جائے اور اُنہیں بھارتی حکومت کے خرچے پربھارت کے مشہور شہروں، ثقافتی مراکز، تعلیمی اداروں اور آرٹ سینٹرز کے دَورے کروائے جائیں۔ مقصد یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیری بچوں کی ذہنی صفائی کرتے ہُوئے اُنہیں بتایا اور باور کروایا جائے کہ بھارت کسقدر ’’مہان‘‘ ملک ہے اور یہ کہ بھارت کے ساتھ جُڑے رہنے سے اُن کا مستقبل ’’تابدار‘‘ بھی ہے اور ’’محفوظ‘‘ بھی۔

یہ َدورہ 19جولائی یعنی یومِ الحاقِ پاکستان سے قبل کروایا جانا تھا مگر میجر جنرل بی ایس راجو کا یہ منصوبہ ناکام و نامراد ہو گیا ہے کیونکہ کشمیری والدین نے بھارتی قابض فوج کے ہاتھ اپنے بچے دینے سے انکار کردیا ہے؛ چنانچہ اِس پروگرام کے لیے صرف 20بچوں کا بمشکل انتخاب عمل میں آسکا ہے۔

تازہ ترین یومِ الحاقِ پاکستان، جو 19جولائی 2017ء کو منایا جا رہا ہے، سے ڈیڑھ ہفتہ قبل امریکا میں کشمیری نژاد امریکیوں کا جو اجلاس منعقد ہُوا ہے، اسے بھی ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ یہ کانفرنس نما اجلاس ISNA (اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا) کے زیر انتظام امریکا کے مشہور شہر، شکاگو، میں ہُوا ہے جس میں امریکا کے سابق صدر جِمی کارٹر اور سابق ایرانی صدر جناب محمد خاتمی نے بھی شرکت کی ہے۔

امریکا میں مقیم ممتاز کشمیری رہنما اور دانشورڈاکٹر غلام نبی فائی، جوWorld  Kashmir  Awareness  Forum کے رہبر ورہنما ہیں، نے بھی اِس اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے یہی کہا ہے کہ کشمیریوں کو بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ کہا جا سکتا ہے نہ زبردستی بنایا جا سکتا ہے، اوریہ کہ کشمیری بھارت کا حصہ ہیں ہی نہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اقوامِ متحدہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت نہ دے کر اور کشمیر کے حوالے سے یو این او کی منظور شدہ تاریخی قرار دادوں پر عمل نہ کرکے کشمیریوں کے جذبات واحساسات کا خون کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ مگر اب زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکے گا!!

ابھی چند دن پہلے، 8جولائی کو مقبوضہ کشمیر، پاکستان اور دنیا بھر میں بسنے والے کشمیریوں نے جس ذوق وشوق اور محبت و عشق سے شہید برہان وانی کی پہلی برسی منائی ہے، اِسی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کشمیری بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ اپنی سیاسی، معاشی اور جغرافیائی تقدیر منسلک کرنا چاہتے ہیں۔برہان وانی کے یومِ شہادت پر وزیر اعظم پاکستان اور سپہ سالارِ پاکستان نے جو پیغامات دیے، بھارت اِن پر بہت سٹپٹایا ہے۔

بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی اِس ناراضی اور غصے کا عکس ہم بھارتی میڈیا میں شایع ہونے والے بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج اور بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان (وکاس سواروپ) کے تازہ بیان میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

کشمیریوں نے اجتماعی طور پر جس شدت سے شہید برہان وانی کی پہلی برسی پر اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اور جس قہرمانی سے بھارت نے کشمیر بھر کو کرفیوکے حصار میں محبوس کرنے کی ناکام کوشش کی ہے، اِسی سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیریوں نے برسوں قبل کیوں پاکستان  سے الحاق کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ کہ وہ اب بھی اپنی جانوں پر کھیل کر کیوں پاکستانی پرچم لہراتے ہیں، اور یہ کہ کشمیری شہدا کو کیوں پاکستانی پرچموں کا کفن دے کر لحد کے سپرد کیا جاتا ہے!! کیا بھارت اور بین الاقوامی برادری اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کشمیریوں کا روحانی، جسمانی اور ذہنی جھکاؤ کس طرف ہے؟

کشمیری مقبوضہ کشمیر کے اندر ،بیرونِ کشمیر اور دنیا بھر میں ، جہاں بھی موقع ملے، بھرپور کوششیں کر رہے ہیں کہ قابض بھارت کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جا سکے۔ اِس ہمت ، شجاعت اور جرأت کی داد دینی چاہیے۔ بھارت بھی بہت سی لابنگ، سفارتی تعلقات کی طاقت اور بہت سے روپے کو بروئے کار لاتے ہُوئے کوششیں کرتا نظر آ رہا ہے کہ بیرونِ بھارت آباد کشمیری بھارت کے خلاف احتجاجات کرنے اور جلوس نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔

مثال کے طور پر 8جولائی2017ء کو کشمیری حریت پسند شہید برہان وانی کی پہلی برسی کے موقع پر برطانیہ میں آباد لاکھوں کشمیری بھارتی مظالم کے خلاف منظم اور پُر امن جلوس نکالنا چاہتے تھے۔ بھارت نے مگر برطانیہ سے ساز باز کرکے کئی برطانوی شہروں میں کشمیریوں کی اس کوشش کو ناکام تو بنادیا لیکن اس کے باوصف کشمیری کئی شہروں میں برہان وانی کے حق میںاور قابض بھارت کے خلاف نعرے مارنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔

اِسی طرح جون2017ء کے آخری ہفتے بھارتی وزیر اعظم واشنگٹن پہنچے تو وہائٹ ہاؤس کے عین سامنے سیکڑوں کشمیری نژاد امریکی اکٹھے ہُوئے اور جب مودی، ٹرمپ سے ملنے وہائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں پہنچے تو واشنگٹن کا آسمان ’’ مودی مردہ باد‘‘ اور ’’ بھارت مردہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ واشنگٹن میں کشمیریوں پر قدغن لگوانے میںبھارتی لابی یقینا کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ اِس کا مودی کو بھی بہت قلق ہے۔کشمیریوں نے بھارت مخالف اور مودی مخالف جو پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، امریکی میڈیا میں اس کی جھلک بار بار دکھائی دی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کشمیریوں کے اس احتجاج میں بھارت نژاد سیکڑوں سِکھ بھی شریک تھے۔ ان کی قیادت جتندر گریوال کر رہے تھے جو کہ امریکا میں سکھ کمیونٹی کے نمایاں لیڈر ہیں ۔ کشمیریوں کے لیے امید افزا منظر یہ بھی ہے کہ چند دن پہلے ہی ایران کے سپریم لیڈر جناب آیت اللہ خامنہ ای نے کشمیریوں کے حق میں اور کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف بیان دیا ہے۔ ایران جو کئی تجارتی اور دفاعی معاہدوں کی وجہ سے بھارت سے بندھا ہے، کی طرف سے کشمیریوں کے حق میں بیان آنا خوش آیند بھی ہے اور امید کی ایک واضح کرن بھی۔

مقبوضہ کشمیر کے سارے میڈیا اور اہلِ کشمیر نے جناب آیت اللہ خامنہ ای کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔ بھارت کو ایران کے اس بدلاؤ پر خاصی حیرانی ہُوئی ہے۔ بنئے کو اس بات پر بھی بڑی تکلیف ہُوئی ہے کہ’’او آئی سی‘‘ نے 11جولائی 2017ء کو ہونے والے  Council Of Foreign Ministers کے اجلاس میں ممتاز کشمیری حریت پسند رہنما سید علی گیلانی کو کیوں مدعو کیا ہے؟

گیلانی صاحب مگر ’’او آئی سی‘‘ کے وزرائے خارجہ کی مذکورہ کانفرنس میں شریک نہیں ہو سکے ہیں کیونکہ بھارت نے، حسبِ معمول، جناب گیلانی کو سفری دستاویزات دینے سے صاف انکار کر دیا۔ گیلانی صاحب کو اگر مذکورہ اجلاس میں شرکت کا موقع مل جاتا تو وہ یقینا کشمیریوں کی طرف سے یومِ الحاقِ پاکستان کا ذکر بھی کرتے۔ وہ مذکورہ کانفرنس میں شریک تو نہ ہو سکے مگر اس اعلیٰ سطحی دعوت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آزادیِ کشمیر کے لیے جاری اہلِ کشمیر کی جدوجہد رائیگاں نہیں جا رہی ہے۔

ابھی چند دن پہلے چین کی’’ویسٹ نورمل یونیورسٹی‘‘ کے تھنک ٹینک کے سربراہ Long Xingchun نے معروف چینی سرکاری اخبار ’’گلوبل ٹائمز‘‘ میں لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کو جو وارننگ دی ہے، وہ بھی اِس امر کی غماز ہے کہ الحاقِ پاکستان اور آزادیِ کشمیر کے لیے کشمیریوں کی لاتعداد قربانیوں کا زیاں نہیں ہو رہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔