ایلیٹ ہوشیار باش!

ظہیر اختر بیدری  پير 17 جولائی 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پچھلے کچھ عرصے سے میڈیا میں یہ قابل غور خبریں شایع ہو رہی ہیں کہ ڈاکوؤں سے تنگ آئے ہوئے عوام ڈاکوؤں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر یا تو تشدد کے ذریعے جان سے مار رہے ہیں یا انھیں زندہ جلا رہے ہیں۔ یہ خبریں غیر اہم سمجھ کر عوام انھیں زیادہ اہمیت نہیں دیتے لیکن ان خبروں کے پیچھے جو جہان معنی موجیں مارتا رہتا ہے وہ اہل دانش کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ان خبروں کے مضمرات کا جائزہ لیں۔ ہم جس ظالمانہ نظام میں زندہ ہیں اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ مجرموں کو بھی پیدا کرتا ہے اور انھیں ان کے جرائم کی سزائیں بھی دلواتا ہے۔

ہر ملک میں جہاں قدم قدم پر مجرم موجود ہوتے ہیں وہیں قدم قدم پر قانون نافذ کرنے والے ’’ادارے‘‘ بھی موجود ہوتے ہیں۔ ایک زمانے میں دنیا کے مدبرین نے دنیا میں امن اور شانتی کے فروغ کے لیے بقائے باہمی کا فلسفہ پیش کیا تھا لیکن یہ فلسفہ اسی لیے کامیاب نہ ہوسکا کہ دنیا میں امن پسند طاقتیں بہت کمزور ہیں اور امن شکن طاقتیں بہت طاقتور ہیں۔

پرامن بقائے باہمی کا فلسفہ تو کامیاب نہ ہوسکا لیکن چوروں اور چوکیداروں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کا فلسفہ پوری توانائی کے ساتھ روبہ عمل ہے۔ غالباً اسی فلسفے کے مضر اثرات کو دیکھتے ہوئے اب عوام نے قانون اور انصاف کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور جب کوئی ڈاکو ڈکیتی کرتے ہوئے ان کے ہاتھوں میں آجاتا ہے تو وہ پتھروں، ڈنڈوں اور لاٹھیوں کے ذریعے اسے جان سے مار دیتے ہیں اور زیادہ مشتعل ہوں تو اسے زندہ جلا دیتے ہیں۔ پرامن بقائے باہمی کے کردار ان وارداتوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں اور دل ہی دل میں لرز کر رہ جاتے ہیں۔

اسٹریٹ کرائم کی شکل میں جو جرائم وقوع پذیر ہوتے ہیں ان کے مجرم زیادہ سے زیادہ چند لاکھ روپوں کے ڈاکو ہوتے ہیں اور عوام ان چند لاکھ کے ڈاکوؤں کو جان سے مار دیتے ہیں یا زندہ جلا کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرلیتے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ معیشت کے حامل ملکوں میں ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے ڈاکو دن کے اجالوں میں عوام کی نظروں کے سامنے اربوں روپوں، اربوں ڈالر کی ڈکیتیاں ڈال رہے ہیں لیکن عوام کی پیشانیوں پر بل تک نہیں آتا۔

اگر غریب طبقات سے تعلق رکھنے والا کوئی ڈاکو مجبوری کے عالم میں بھی کوئی ڈکیتی کا ارتکاب کرتا ہے تو عوام قانون اور انصاف کی پرواہ کیے بغیر اسے بدترین سزائے موت دے دیتے ہیں۔ ذہن میں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اربوں روپوں کا ڈاکا ڈالنے والے عوام کے غیظ و غضب سے کیوں محفوظ رہتے ہیں اور معمولی ڈکیت سزائے موت کے حقدار کیوں بن جاتے ہیں؟

یہ سوال بڑا سیدھا بھی ہے بڑا ٹیڑھا بھی ہے، اسی حوالے سے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اربوں کی ڈکیتیاں ڈالنے والوں کا تعلق اشرافیائی کلاس سے ہوتا ہے اور یہ اشرافیائی کلاس اس قدر مہذب ہوتی ہے اور اس قدر تام جھام سے رہتی ہے کہ اس پر ڈکیت ہونے کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا اور جہاں یہ کلاس اقتدار میں رہتی ہے تو اس پر چودہ خون معاف ہوتے ہیں اور قانون اور انصاف ہاتھ جوڑے اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔

کہیں کہیں کوئی سرپھرا انصاف سر اٹھا کر اس ڈکیت اشرافیہ کے سامنے کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے تو یہ حکمران ٹولہ پورے لاؤ لشکر کے ساتھ باغی انصاف کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے اور ایسے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے کہ باغی انصاف گھبرا جاتا ہے اور پھر جس نظام میں دین دھرم سچائی اور ضمیر بیچے اور خریدے جاتے ہوں وہاں انصاف کتنی دیر تک ایلیٹ کے ڈاکوؤں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔

1789 میں فرانس میں بھی چور اور چوکیدار کا بقائے باہمی کا کھیل اس قدر شدت اختیار کرگیا تھا کہ فرانس کی اشرافیہ انصاف کرنے والے ججوں کے عہدے خریدتی اور بیچتی تھی، معمولی چور اچکوں کو سزائے موت دینے اور اربوں کی ڈکیتی کے مجرموں کو نظرانداز کرنے والے عوام کو اچانک احساس ہوا کہ معمولی جرم کرنے والے تو سزا پا رہے ہیں اور بڑے بڑے خونخوار ڈاکو محفوظ ہیں تو عوام کے غصے اور اشتعال کی آگ بھڑک اٹھی۔ وہ چاقو، چھری اور دستیاب ہتھیار لے کر گھروں سے باہر آگئے ان کا رخ ایلیٹ کی مہذب بستیوں کی طرف ہوگیا اور پھر وہ قیامت برپا ہوگئی کہ فرانس کے گلی کوچے مہذب اشرافیہ کے خون سے سرخ ہوگئے عوام کے اس اشتعال کو دنیائے ’’انقلاب فرانس‘‘ کا نام دیا۔

پاکستان کے 20 کروڑ اور دنیا کے 7 ارب سے زیادہ انسان آج 1789 کے ظالمانہ دور سے گزر رہے ہیں 90 فیصد عوام دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں اور اشرافیہ کھلے عام اربوں ڈالر میں کھیل رہی ہے۔ یہ نااتفاقی یہ ظلم اس لیے ہو رہا ہے کہ مہذب جمہوریت نے اپنے شہریوں کو لامحدود دولت اور جائیداد رکھنے کا قانونی حق دیا ہے جب کہ 90 فیصد غریبوں کی نجی ملکیت صرف ان کے دو ہاتھ ہوتے ہیں۔ اس ظلم سے تنگ آئی ہوئی دنیا اب 1789 کے دروازے پر کھڑی ہوئی ہے اور کسی وقت بھی 1789 کے عوام میں بدل سکتی ہے۔ اشرافیہ ہوشیار باش کسی وقت بھی بگل بج سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔