یاترا کا فروغ، یاتریوں کی ترقی

کلدیپ نئیر  پير 17 جولائی 2017

جب جنگجو سامنے آکر حملہ کریں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں نتائج کا کوئی خوف نہیں ہے۔کشمیر میں امرناتھ یاترا سے لوٹنے والے سات  یاتریوں کی حملے میں ہلاکت کے ردعمل میں کی گئی کارروائی بھی کچھ ایسی ہی کہانی بیان کرتی ہے۔

حملہ آوروں  نے پولیس یا فوج پر حملہ کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا جیسے کہ وہ بخوبی جانتے ہوں کہ یاترا کی حفاظت پر مامور فورسز کو نقصان پہنچانے کے ان کے عزم کے مقابلے میں جوابی حملہ انھیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ امکان  ظاہر کیا جارہا ہے کہ کارروائی لشکر طیبہ کی ہے تاہم  اب تک اس نے واقعہ کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔ اگر وہ ذمے داری قبول کر بھی لے تو یہ بات یقینی نہیں ہے کہ وہ ایسا کشمیر کے مقامی جنگجووں کو چھپانے کے لیے کر رہی ہے۔

مغربی ایشیا کے اکثر ممالک میں لشکر کا مسلسل  ڈھنڈ ورا پیٹا جا رہا ہے ۔ قوم اپنے خوف کا اظہار کرنے میں حق بجانب ہے کیونکہ یاتری اپنے اعتقاد جو کہ انھیں بہت عزیز ہے کی یاترا پر تھے۔ اس واقعہ کا سیاست سے دور کا بھی  واسطہ نہیں۔ جوں جوں دن گزر رہے ہیں بدقسمتی سے اسے سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے اور اس کی ذمے دار بی جے پی ہے۔ اسے بالکل بھی پروا نہیں ہے کہ ریاستی حکومت میں وہ بھی شریک ہے اور کچھ الزام اس پر بھی عائد ہوگا۔ یاتریوں پر حملہ پہلی بار نہیں ہوا۔

اس سے قبل اگست 2000دہشتگردوں نے پچانوے افراد پر فائرنگ کی تھی جن میں سے 89 ہلاک ہو گئے تھے۔ یکم اگست کو شروع ہونے والے حملوں کے سلسلے خیال  ہے کہ یہ منصوبہ بندی سے کیے گئے۔ اس سے اگلے سال بھی مقامی تنظیم حزب المجاہدین کے جنگ بندی اعلان کے مخالف جنگجووں نے پہلگام میں یاتریوں کے کیمپ پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں اکیس امرناتھ یاتریوں سمیت بتیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی طرح 20 جولائی 2001 کی رات امرناتھ مندر کے قریب ایک کیمپ پر دو دستی بم پھینکے اور پھر فائرنگ کی گئی جس سے دو پولیس افسروں اور تین خواتین یاتریوں سمیت تیرہ کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔

دہشتگردی کا یہ واقعہ رات ایک بج کر پچیس منٹ پر شیش ناگ کے قریب پیش آیا جو امرناتھ غار کے راستے میں سب سے بلند پڑاؤ ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 2002 میں امرناتھ یاترا کی حفاظت کے لیے پندرہ ہزار سیکیورٹی اور پولیس اہلکاروں کی تعیناتی بھی دہشتگردحملے کو نہ روک سکی۔ اطلاعات کے مطابق امرناتھ مندر کی راہ میں ننوان کیمپ میں پو پھٹنے سے قبل حملہ ہوا جس میں آٹھ افراد ہلاک اور تیس زخمی ہو گئے۔ جموں میں ہوئے حملے کی جانب واپس آتے ہیں۔

کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اسے سنگین اور ناقابل قبول سیکیورٹی کوتاہی قرار دتیے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ واقعہ کی ذمے داری قبول کریں۔ انھوں نے اپنے ٹویٹس میں کہا ’’ یہ ایک سنگین اور ناقابل قبول سیکیورٹی کوتاہی ہے۔وزیراعظم اس کی ذمے داری قبول کریں اور ایسا واقعہ دوبارہ ہونے کی اجازت نہ دیں۔ بھارت ان حملوں  سے کبھی خوفزدہ نہیں ہو گا۔ ‘‘

ترجمان کانگریس رندیپ سورج والا نے بتایا کہ جس بس پر دہشتگردوں نے فائرنگ کی وہ امرناتھ شرائن بورڈ کے ساتھ رجسڑڈ نہیں تھی اور یاتریوں کو لے جانے کے مقررہ وقت کے بعدکسی سیکیورٹی کے بغیر عازم سفر تھی۔ دوسروں پر الزام عائد کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گھر کی بھی صفائی کرنی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ہندو دہشتگردوں کی تربیت کر رہی ہے۔ جیسا کہ سابق امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ اگر آپ اپنے صحن میں سانپ پالیں گے تو وہ ایک دن آپ کو بھی ڈسیں گے۔ مقامی دہشتگرد اب ایک حقیقت ہیں اور وہ ادھر اُدھر حملے کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ بھی مقامی دہشتگردوں کی ہی کارستانی تھی۔ امرناتھ یاترا میں سب سے بڑا سانحہ صوفیاء کی جانب سے پرچار کیے جانے والے سکیولراعتقاد کشمیریات کی موت ہے۔ اس اعتقاد نے اپنے آپ کو اس وقت جتوایا جب مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ نے  حکومت سے علیحدگی اختیار کی اور اسے مقبول رہنما شیخ عبداللہ کے لیے چھوڑ دیا۔ اس وقت کوئی بھی فرقہ وارانہ جذبات نہیں تھے۔ بنیاد پرستوں اور پاکستان کے پراپیگنڈے نے ایک خوبصورت شے کو برباد کر دیا ہے۔ مگر ہم شکست کیوں تسلیم کریں؟

ستر سال سے ہم ہندوستان کی اخلاقیات، سکیولرازم اور جمہوریت کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ ہم نے لفظ سکیولرازم کو اپنے آئین کے دیباچے میں شامل کیا ہے۔ تلخ بات یہ ہے کہ یہ کام اندرا گاندھی نے اس وقت کیا جب بطور وزیراعظم انھوں نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی۔ انھوں نے ایک لاکھ افراد کو بغیر مقدمہ قید رکھا اور پریس پر سنسر شپ عائد کی۔  انھوں نے سرعام کہا کہ پریس نے ان کی لگائی گئی پابندیوں کی مزاحمت نہیں کی۔ ایل کے ایڈوانی نے پریس کی  یہ کہہ کر درست ملامت کی کہ ’’ آپ سے جھکنے کے لیے کہا گیا، مگر آپ تو رینگنے لگے تھے۔‘‘

اگر کشمیریات نے خود کو جتوایا تو آزاد پریس جیسے بنیادی اقدار کا احترام کیا جائے گا۔ کشمری مسلمانوں نے اجتماعیت پر اعتقاد کا فیصلہ خود کرنا ہے تاہم اس کی جگہ بنیاد پرستی نے لے لی ہے۔ میں حال ہی سرینگر میں تھا اور مجھے یہ جان کر بہت پریشانی ہوئی کہ کشمیری نوجوان جس نے بندوق اٹھا لی ہے وادی کو خود مختار اسلامی ریاست بنانا چاہتا ہے۔ یاسین ملک اور شبیرشاہ جیسے رہنما اب بے معنی ہو گئے ہیں۔ سید گیلانی اور میر واعظ کے پیروکار ہیں مگر وہ بھی اس وجہ سے کہ وہ بیک وقت پاکستان اور اسلام کی بات کرتے ہیں۔ وہ پتھراؤ کرنے والوں کی یہ کہہ کر حمایت کرتے ہیں کہ پتھر اسلام کے نام پر برسائے جا رہے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی خطرناک رجحان ہے۔

نئی دلی کو بہت سوچ بچار کر کے ایک ایسا حل تلاش کرنا ہو گا جو کشمیریوں اور مرکز کی حکمران جماعت کو قابل قبول ہو۔ وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے کسی بھی ناؔخوشگوار واقعہ کے بغیر امرناتھ یاترا کا اہتمام کرنے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ بی جے پی دوسری سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرے اور ایسے اقدامات کرے جس پر سب متفق ہوں۔

(ترجمہ تجمل یوسف)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔