پانامہ کیس پر جے آئی ٹی رپورٹ۔۔۔ کیا کچھ ہوسکتا ہے؟؟

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 17 جولائی 2017
قانونی ماہرین و سیاسی تجزیہ نگاروں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو : ایکسپریس نیوز

قانونی ماہرین و سیاسی تجزیہ نگاروں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو : ایکسپریس نیوز

پانامہ کیس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ آ نے کے بعد سے ملک کا سیاسی درجہ حرارت ایک بار پھر گرم ہوگیا ہے۔

اس رپورٹ میں وزیراعظم اور ان کے خاندان کے حوالے سے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں اور وکلاء برادری کی جانب سے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے جبکہ وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کی جانب سے استعفیٰ نہ دینے کے عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب آج سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ماہرین قانون اور سیاسی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا جنہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ ، موجودہ صورتحال اور مستقبل کے حوالے سے اپنی اپنی رائے دی۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ایس ایم ظفر (سابق وفاقی وزیر قانون)

ابھی تک جو چیزیں سامنے آئی ہیں ان سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا رجحان وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ہے ۔ اس رپورٹ کی روشنی میں سپریم کورٹ وزیراعظم کو 62/63کے تحت نااہل قرار نہیں دے سکتی کیونکہ جب تک جرم ثابت نہ ہو آئین کے مطابق کوئی بھی عدالت کسی کو نااہل نہیں کرسکتی۔ چونکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ فیصلہ نہیں ہے اور اس میں سفارشات بھی کی گئی ہیں لہٰذا اب یہ معاملہ ٹرائل کی طرف بڑھے گا جس کے باعث یہ کیس طوالت اختیار کرتاہوا دکھائی دے رہا ہے ۔ اس کیس سے وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) دونوں کی شہرت کو نقصان پہنچ رہا ہے، میرے نزدیک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ساکھ مزید متاثر ہوگی اور ان کی جماعت کی شہرت کو نقصان پہنچے گا۔ اپوزیشن جماعتیں شروع سے ہی وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کررہی ہیں لہٰذا اب یہ تقاضہ زور پکڑے گا، اگر ان کا یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو سیاسی جماعتوں کے درمیان تناؤ شدت اختیار کرجائے گا جو تشویشناک ہے۔ ابھی تک کے رویوں سے تو ایسا ہی گمان ہورہا ہے کہ معاملات خرابی کی طرف جائیں گے لہٰذا اگر یہ بات سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکل گئی تو پھر سیاست بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اس لیے انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

پیر مسعود چشتی ( سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار)

وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ ان کے خلاف آئی تو وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ کر گھر چلے جائیں گے۔ اب چونکہ رپورٹ ان کے خلاف آئی ہے لہٰذا انہیں اپنے الفاظ کا پاس رکھتے ہوئے مستعفی ہوجانا چاہیے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ صرف وزیراعظم ہی نہیں بلکہ ان کے خاندان کے بھی خلاف ہے جبکہ یہ منی ٹریل یاکوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکے جس کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ کہیں نہ کہیں خرابی ہے۔ اس رپورٹ کے بعد وزیراعظم کو 62/63کے تحت نااہل کیا جاسکتا ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ وہ خود مستعفی ہوجائیں،اس سے ان کے سیاسی قد میں اضافہ ہوگا ۔ میرے نزدیک وزیراعظم لڑائی کے موڈ میں ہیں، وہ استعفیٰ نہیں دیں گے بلکہ اب جے آئی ٹی پر اعتراضات اٹھائیں گے جس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ کسی بھی ممکنہ بحران سے بچنے کیلئے بہتر یہی ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ دیکر نئے الیکشن کی طرف چلے جائیں اور پھر عوام جسے مینڈیٹ دیں وہ حکومت بنا لے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتراضات کو عدالت سنتی ہے مگر انہیں ثابت کرنے کے لیے شریف خاندان کو ثبوت دینا پڑیں گے جو ان کے پاس نہیں ہیں۔ اس رپورٹ کے بعد اس کیس کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ اس کی روشنی میں وزیراعظم کو 62/63پر نااہل کردیا جائے جبکہ دوسرا یہ کہ اسے ٹرائل کے لیے بھیج دیا جائے اور پھر اگر جرم ثابت ہوجاتا ہے تو سزا دی جائے۔ وکلاء تنظیمیں ایک پیج پر ہیں اور وزیراعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ سب کا ہے، اس لیے ہمیں ضرور کامیابی ہوگی۔

نفیر اے ملک (ماہر قانون)

جے آئی ٹی کی رپورٹ پر کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا، یہ صرف ایک رائے ہے اور اس پر کسی قسم کی بائنڈنگ نہیں ہے۔ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے اس پر زیادہ بات نہیں کی جاسکتی تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت اس کی کس طرح سے تشریح کرتی ہے اور اس پر کیا کام کیا جاتا ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر جس طرح کی آراء اور تبصرے سامنے آرہے ہیں حقیقت میں ویسا نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا جائے بلکہ اب اس رپورٹ پر اعتراضات لگائے جائیں گے،عدالت میں اس پر بحث ہوگی، ثبوت دیکھے جائیں گے، فریقین کو سنا جائے گا اور بعدازاں کوئی حتمی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے قانون کے تمام تقاضے پورے کرنا بہت ضروری ہیں ، فی الحال وزیراعظم کے خلاف کوئی بھی سخت فیصلہ نہیں سنایا جاسکتا۔

ڈاکٹر عاصم اللّٰہ بخش (سیاسی تجزیہ نگار)

رپورٹ میں شواہد کے حوالے سے بہت سخت رائے دی گئی ہے کہ ان میں جعل سازی کا گمان ہوتا ہے۔ پہلے ثبوت سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے بعد ازاں جے آئی ٹی میں اس کیس پر مزید تحقیقات ہوئیں جس کے بعد اب نئے شواہد بھی سامنے آگئے ہیں جن میں مریم کا نواز بینیفیشل آنرہونا، متحدہ عرب امارات سے خط، کیلبری فونٹ اور میاں نواز شریف کی آف شور کمپنی شامل ہیں لہٰذا اب اس رپورٹ کا ٹرائل ہوگا کہ اس میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ کس حد تک درست ہے اور فریقین اس حوالے سے کیا کہتے ہیں۔ میرے نزدیک حکومت جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعض نکات پر سانس لے سکتی ہے اور اب حکومت کی جانب سے یہ جنگ قانونی و سیاسی محاذ پر لڑی جائے گی۔ اگر حکومت اس رپورٹ کے بعض نکات کو غلط ثابت کردیتی ہے تو پھر اس کی پوزیشن بہتر ہو سکتی ہے اور جے آئی ٹی رپورٹ کی صحت پر سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس کیس کو سازش قرار دیا جا رہا ہے لہٰذا اب اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ کیا سازش ہے اور کس طرح ہورہی ہے حالانکہ اب تو جے آئی ٹی میں ان کے خلاف بہت سارے ثبوت بھی سامنے آچکے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ وزیراعظم کومحض اس رپورٹ پر نااہل نہیں کیا جاسکتا، اس حوالے سے ان کا موقف لیا جائے گا، رپورٹ کی سکروٹنی ہوگی جبکہ حکومت کو جے آئی ٹی کی فائنڈنگز کو غلط ثابت کرنے کیلئے ثبوت فراہم کرنا ہوں گے۔پھر یہ معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ میں جائے گا جس کے بعد کوئی فیصلہ آسکتا ہے۔ اگر یہ معاملہ نیب میں جاتا ہے تو اس سے حکومت کو فائدہ ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم سے بارہا استعفے کا مطالبہ کیا گیا مگر وہ اس پر نہیں مانے بلکہ وہ اقتدار میں رہ کر ہی مخالفین کا مقابلہ کریں گے اور انہیں ٹف ٹائم دیں گے۔ آج اس کیس کی سماعت شروع ہونے کے بعد اب اپوزیشن جماعتیں سڑکوں پر استعفے کا مطالبہ نہیں کرسکتیں کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی کیس کا فیصلہ دو الگ جگہ پر کیا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔