چالیس (40) ڈول تو نکال لیے، لیکن ...

فہیم پٹیل  پير 17 جولائی 2017
میں یہ نہیں کہوں گا کہ دیر نہیں ہوئی، بلکہ صورتحال تو یہ ہے کہ پانی اِس وقت سر سے اوپر جاچکا ہے، اگر ہم نے ملکر اِس نظام اور نظام کو چلانے والے لوگوں کو ٹھیک نہیں کیا تو بہت دیر ہوجائے گی۔ تصویر ایکسپریس

میں یہ نہیں کہوں گا کہ دیر نہیں ہوئی، بلکہ صورتحال تو یہ ہے کہ پانی اِس وقت سر سے اوپر جاچکا ہے، اگر ہم نے ملکر اِس نظام اور نظام کو چلانے والے لوگوں کو ٹھیک نہیں کیا تو بہت دیر ہوجائے گی۔ تصویر ایکسپریس

اگر میں آپ سے یہ پوچھوں کہ کیا آپ کو کچھ مسائل کا سامنا ہے یا پھر آپ بہت ہی خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں؟ تو مجھے خدشہ نہیں یقین ہے کہ ایک فیصد لوگ بھی ایسے نہیں ہونگے جو یہ کہنے کی جسارت کرسکیں کہ نہیں بھائی ہم بہت خوش ہیں اور ہمیں زندگی میں کوئی غم نہیں، بلکہ مسائل کی ایک طویل فہرست ہے جو آپ مجھے بتاسکتے ہیں جیسے

  • پانی کی کمی
  • بجلی کی لوڈشیڈنگ
  • مہنگائی
  • بیروزگاری
  • کچرا اور گندگی
  • پینے کے پانی میں گٹر کے پانی کی ملاوٹ
  • تنخواہوں کی عدم ادائیگی

سمیت ایسے ہی دیگر بے شمار مسائل یہاں گنوائے جاسکتے ہیں۔

لیکن سوال یہاں ایک اور بھی ہے کہ اِن کا حل کیا ہے؟ میرے نزدیک اِن مسائل کے دو حل ہیں۔

  • مسائل کو خود سے حل کرنے کی کوشش کریں
  • یا پھر اِن مسائل کی وجہ یعنی نظام کو بہتر کرنے کی کوشش کی جائے

جہاں تک پہلے حل کی بات ہے تو ہم سب یہ کام پوری یکسوئی کے ساتھ کررہے ہیں۔

  • پانی کی کمی ہوتی ہے تو ٹینکر کی تلاش میں بھاگ دوڑ کرتے ہیں،
  • بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہوتا ہے تو جنریٹر یا یو پی ایس خریدنے کی جستجو کرتے ہیں،
  • مہنگائی سے نمٹنے کے لیے ایک نوکری کے ساتھ ساتھ دوسری نوکری کی تلاش شروع کردیتے ہیں،
  • بے روزگاری کی صورت میں ہر جائز ناجائز کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں،
  • کچرا اور گندگی کے اب ہم اِس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اُسے صاف کرنے کے بجائے گھر کا کچرا بھی باہر پھینک دیتے ہیں،
  • جب پینے کے پانی میں گٹر کا پانی شامل ہوجائے تو یہ سوچ کر ہی پی جاتے ہیں کہ پتہ نہیں صاف پانی ملے بھی یا نہیں اور
  • حق حلال کی تنخواہ بھی نصیب نہ ہو تو اُس کے لیے احتجاج کرنے کے بجائے لوگوں سے اُدھار مانگنا شروع کردیتے ہیں کہ جب بھی تنخواہ آئے گی فوراً پیسے واپس کردیے جائیں گے، لیکن اِس کے نتیجے میں ہم مسلسل مقروض بنتے جاتے ہیں۔

بس اِسی طرح مسائل کو خود سے حل کرنے کے چکر میں اپنی زندگی میں ہم اِس قدر مصروف ہوجاتے ہیں کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ملک اور معاشرے میں کیا کچھ ہورہا ہے۔ ہم نے بس کولھو کے بیل کی طرح خود کو مسائل سے نکلنے کی جدوجہد میں لگایا ہوا ہے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اِس طریقہ کار کو اپنانے کے نتیجے میں آپ زندگی سے تو آزاد ہوسکتے ہیں لیکن یہ مسائل آپ کو کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کنوے سے چالیس (40) ڈول تو نکال لیے جائیں مگر بکری یا کتے کو اندر چھوڑ دیا جائے۔

اِس لیے سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ آخر ہمیں اِن مسائل کا سامنا ہے کیوں ہے؟ کیوں ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اِن بنیادی مسائل سے متاثر نہیں ہیں؟ میں نہیں جانتا کہ آپ کا جواب کیا ہے، لیکن مجھے جو بات سمجھ آئی ہے وہ صرف یہ کہ کسی بھی ریاست یا معاشرے کا نظام چلانے کے لیے کچھ لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کی اولین ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ تمام ذمہ داریوں سے آزاد ہوکر اپنے فرض کی ادائیگی میں لگ جائیں اور ایسا کرنے کی صورت میں ریاست یا معاشرہ اُنہیں کچھ معاوضہ دے گا۔ اگر تو وہ مخصوص لوگ اپنی ذمہ داری کو اچھی طریقے سے نبھانے میں کامیاب ہوجائیں تو ایک بہترین معاشرہ وجود میں آتا ہے جہاں لوگ تمام مسائل سے بے فکر ہوکر خوشگوار زندگی گزارتے ہیں، بالکل ترقی یافتہ ممالک کی طرح۔ لیکن اگر وہ منتخب لوگ اپنی ذمہ داریوں کو ٹھیک سے انجام دینے میں ناکام ہوگئے تو پھر ترقی پذیر ممالک کی طرح وہاں کے لوگ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

اِسی لیے مسائل سے مکمل طور پر آزاد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ نظام کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر ہم نے اپنا اپنا سوچنے کی کوشش کی تو کچھ لوگ تو ضرور پریشانیوں اور مشکلات سے آزاد ہوسکتے ہیں لیکن اکثریت اِسی طرح پریشان رہے گی۔

میرے اور آپ کے لیے کرنے کا بنیادی کام تو یہ ہے کہ اُن لوگوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں جن کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے مسائل حل کریں اور ہمارے لیے بنیادی ضروریات کا بندوبست کریں۔ اگر تو وہ اپنا کام ٹھیک طرح سے سرانجام دے رہے ہیں تو پھر انہیں کچھ اور وقت دیا جائے کہ بڑے مسائل کو حل کرنے میں کچھ وقت لگ ہی جاتا ہے، لیکن اگر وہ میرے اور آپ کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں تو ہم سب کو مشترکہ طور پر ایسے لوگوں کا احتساب کرنا چاہیے۔

پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں کون نہیں جانتا ہے کہ جس ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے اُس کا یہاں بالکل بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ یہاں تقریباً تمام ہی لوگوں نے رعایا کی فکر کرنے کے بجائے اپنی اپنی فکر شروع کردی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خود تو خوشحال ہوتے چلے گئے اور عوام بد سے بدحال ہوگئی۔ میں یہ ہرگز نہیں کہوں گا کہ اب بھی دیر نہیں ہوئی، بلکہ صورتحال تو یہ ہے کہ پانی اِس وقت سر سے اوپر جاچکا ہے، اگر ہم نے ملکر اِس نظام اور نظام کو چلانے والے لوگوں کو ٹھیک نہیں کیا تو بہت دیر ہوجائے گی۔ اِس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ ذاتی مسائل کے حل کرنے کے لیے وقت کو ضائع مت کیجیے، بلکہ اُن تمام لوگوں کے احتساب کے لیے زور ڈالا جائے جن کی وجہ سے میری اور آپ کی زندگی مشکل سے مشکل تر بن چکی ہے۔

بلاگ میں بیان کیے گئے خیالات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے  مختصر  مگر جامع  تعارف  کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔

فہیم پٹیل

فہیم پٹیل

آپ ایکسپریس نیوز میں بطور انچارج بلاگ ڈیسک اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ سے @patelfahim پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔