پاناما کیس کی تاریخی سماعت شروع

ایڈیٹوریل  منگل 18 جولائی 2017
کیس اپنے تاریخی ڈراپ سین کی طرف بڑھے گا، فوٹو : فائل

کیس اپنے تاریخی ڈراپ سین کی طرف بڑھے گا، فوٹو : فائل

سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد سوموار کو پہلی سماعت کی اور تحریک انصاف ، جماعت اسلامی کے وکلا اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے دلائل سننے کے بعد کیس کی سماعت آج( منگل) تک ملتوی کردی۔ تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری اور جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل دیے۔

توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم نے اسمبلی تقریر میں قوم سے سچ نہیں بولا، نعیم بخاری نے کہا کہ وزیراعظم پر جرح کرنی ہے ، عدالت میں انھیں طلب کیا جائے، بینچ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل ہے ۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کے احاطہ اور ریڈ زون میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ۔ سماعت شروع ہونے سے قبل شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے شریف خاندان کی جانب سے جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے خلاف اعتراضات جمع کرائے جن میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ جانبدارانہ ہے اور عدالت سے استدعا کی کہ اسے مسترد کیا جائے، وزیر خزانہ اسحاق دار نے اپنے جواب میں کہا کہ رپورٹ حقائق کے منافی اور بد نیتی پر مبنی ہے، انھوں نے اپنے خلاف الزامات کے حوالہ سے اعتراضات داخل کیے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ ہمیں قانونی حدود کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پاناما کیس کی بدولت ملکی سیاست ایک فیصلہ کن دورانئے میں داخل ہوچکی ہے، سیاسی فضا حکومتی اور اپوزیشن رہنماؤں کے تند وتیز بیانات سے بوجھل ہے، عدالتی نظائر اور قانونی جنگوں کے قصے نئی نسل کے سیاست دان ، قانون کے طالب علم اور ٹی وی چینلز کے نوواردان صحافت صرف سنتے آئے ہیں کہ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کے فیصلہ کے مضمرات کیا تھے اور ماضی کے دیگر اہم اور تہلکہ خیز مقدمات بھی عدالتی تاریخ کے اوراق میں تلاش کیے جاتے تھے مگراب امید ظاہر کی جارہی ہے کہ پاناما کیس عدلیہ کے ایک غیر معمولی اور تاریخ ساز فیصلہ آئیگا جس میں قوم کو واقعی نظر آجائے گا کہ جمہوریت ، پارلیمنٹ ، ریاستی اور حکومتی استقامت و ارتقا اور اداروں کی شکست وریخت اور پارلیمانی تسلسل کوکرپشن کلچر نے کتنا نقصان پہنچایا۔

لہذا اس تناظر میں کیس اپنے تاریخی ڈراپ سین کی طرف بڑھے گا، جوابدہی کا ایک غیر متوقع قانونی پراسیس شروع ہوا ہے، ایک طرف وزیراعظم کی قانونی ٹیم اور دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں سپریم کورٹ کے سامنے اپنا موقف ، دلائل اور اعتراضات پیش کررہی ہیں ، جب کہ کوشش یہی ہونی چاہیے کہ سیاسی محاذ آرائی ، دھونس ، دھمکی ، دباؤ اور شعلہ بیانی کم ہو تاکہ قانون کو اپنا کام کرنے میں کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے ، بعض حلقوں کا کہنا ہے احتساب کا دائرہ وسیع ہوتا تو بہتر تھا تاکہ یہ شکایت کسی کو نہ رہتی کہ پاناما کیس سازش ہے اور صرف حکمراں خاندان سے حساب مانگا جارہا ہے۔

اس تاثر کی نفی وقت کا تقاضہ ہے اور جمہوری تسلسل کے لیے ناگزیر بھی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ورکرز پارٹی کنونشن میں کہا کہ تبدیلی آرہی ہے،جے آئی ٹی نے وہ کام کیا جو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے، قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے مطابق پاناما کیس اور جے آئی ٹی رپورٹ میں اسٹبلشمنٹ کے اثر انداز ہونے والے الزام میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ ادھر وفاقی کابینہ اورمسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے بعد حکومتی اتحادیوں نے بھی وزیر اعظم نواز شریف پر بھرپور اعتماد کا اظہار کر دیا ہے ، سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کی رکن عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ نواز شریف جائیںگے تو بچیںگے عمران خان بھی نہیں، پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکرٹیک پارٹی کے سر براہ جسٹس(ر) افتخارمحمد چوہدری نے کہا ہے عمران خان آئین کے آرٹیکل 62 اور 63پر پورے اترتے ہیں یا نہیں ان کے بارے میں بھی  فیصلہ آنے والا ہے۔

دریں اثنا پاک فوج نے پاناما کیس میں سازش کے الزامات مسترد کردیے، عسکری ترجمان اور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاک فوج کی جانب سے حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش سے متعلق سوال کا جواب دینا ہی نہیں بنتا، جے آئی ٹی کے ساتھ پاک فوج کا براہ راست تعلق نہیں، جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی تھی، اس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے دو ممبر تھے جنہوں نے سپریم کورٹ کے ماتحت رہ کر محنت اور ایمانداری سے کام کیا، کیس سپریم کورٹ کے پاس جائے گا اور وہی فیصلہ کریگی۔

یہاں پریس بریفنگ میں انھوں نے کہا جے آئی ٹی کے کام میں فوج کی براہ راست مداخلت نہیں ہے۔ سیاسی معاملات سیاسی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ جے آئی ٹی کی تفتیش سے متعلق یہ وضاحت عدلیہ کی آزادی ، ملکی سالمیت اور جمہوریت کے تحفظ کے سلسلہ میں اہم ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ پاناما کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سیاسی جماعتیں سیاسی بصیرت، دوراندیشی اور صبر وتحمل کا بے مثال مظاہرہ کریں گی۔یہ جمہوری طرز عمل کا اہم موقع ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔