موسمِ گرما کی مصری دلہنیں

ویب ڈیسک  پير 17 جولائی 2017
مصر میں ہرسال ہزاروں لڑکیوں کی عارضی شادی ہوتی ہے اور ان کے دولہا عرب اور خلیجی ممالک کے امیر سیاح ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

مصر میں ہرسال ہزاروں لڑکیوں کی عارضی شادی ہوتی ہے اور ان کے دولہا عرب اور خلیجی ممالک کے امیر سیاح ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

قاہرہ: یہ 2008 کے موسمِ گرما کی بات ہے قاہرہ کی ایک 15 سالہ لڑکی ہویدا کے دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھلا تو وہاں ایک عرب شخص کھڑا تھا جسے اندر بلایا گیا۔ ہویداکے والد اور سوتیلی ماں نے معاملات طے کئے اور اس کی عارضی شادی اس شخص سے کرا دی گئی۔ 20 روز بعد وہ عرب باشندہ ہویدا کو چھوڑ کر اپنے ملک چلا گیا جس کے بدلے اس کے والدین نے 1750 یورو ( دو لاکھ 10 ہزار روپے) کی رقم وصول کی تھی۔

ہویدا کی عمر اب 28 برس ہے اور وہ 8 مرتبہ شادی کر چکی ہے، ہر شادی صرف چند دنوں تک ہی تھی۔ وہ اب حجاب کرتی ہے اور اپنا اصل نام بتانے سے گریز کرتی ہے۔ ہویدا جیسی لاتعداد لڑکیوں کو ’موسمِ گرما کی دلہنیں‘ کہا جاتا ہے جن کی عارضی شادی عرب، خلیج اور مشرقِ وسطیٰ سے آئے ہوئے مالداروں سے کرا دی جاتی ہے اور یہ شادی مشکل سے ایک ماہ جاری رہتی ہے لیکن اس شادی سے لڑکی کے والدین کو چند لاکھ روپے مل جاتے ہیں۔ اس منظر کا عجیب پہلو یہ ہے کہ مصر آنے والے سیاح کم عمر لڑکیوں سے شادی کرنا پسند کرتے ہیں۔

ہویدا ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور قاہرہ سے 20 کلومیٹر دور ایک غریب قصبے میں اپنے 6 سوتیلے بہن بھائیوں اور والدین کے ساتھ رہتی تھی۔ کم عمری کی باعث شادی کی پہلی رات ان کے لیے صدمے سے کم نہ تھی اور وہ ابھی اس نفسیاتی عارضے سے ٹھیک سے چھٹکارا بھی حاصل نہ کر پائی تھی کہ اگلے سال گرمیوں میں اسے پھر دلہن بنا دیا گیا۔ اس بار بھی سیاح عرب ملک سے آیا تھا لیکن اس نے صرف 600 یورو (پاکستانی 72 ہزار روپے) دیئے کیونکہ اس کا اصرار تھا کہ لڑکی اب کنواری نہیں رہی۔

مصر میں اس بڑھتے ہوئے رحجان کو انسانی حقوق کے ماہر اور وکیل احمد موصلہی نے ایک طرح کی جسم فروشی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق 15 سے 17 سال کی لڑکیوں سے کی جانے والی اس شادی کے لیے باقاعدہ رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ صرف والدین سے معاملات طے کئے جاتے ہیں۔ غیرسرکاری تنظیموں اور حکومت سے ان کا مطالبہ ہے کہ اس مکروہ رحجان پر پابندی عائد کی جائے جو سراسر انسانی اسمگلنگ اور جسم فروشی کا عمل ہے۔

احمد کے مطابق مصری خاندانوں کی غربت اور بڑھتی ہوئی لالچ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکیاں اپنے والدین کے اصرار پر ان کی مدد کے لیے برضا شادی کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے میں داخل ہو جاتی ہیں۔ بار بار عارضی شادیاں ان کے خاندان کی محرومیاں دور کر سکتی ہیں اور ہر لڑکی اپنے والدین کے لیے کسی مکان اور نئی کار کی وجہ بن سکتی ہے۔

مصر کے بڑے شہروں کو چھوڑ کر ہر جگہ غربت کا راج ہے اور ایک چوتھائی آبادی روزانہ 2 ڈالر سے بھی کم کما پاتی ہے۔ اسی لیے کئی لوگ جنسی سیاحت کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہاں تک کہ حسن، عمر، تعلیم اور شادی کے دورانیے کی بنیاد پر ایک دلہن ایک لاکھ یورو میں بھی فروخت ہو جاتی ہے۔ اس میں ہوٹل یا گھر میں رہائش، کھانا اور دیگر پیکج بھی شامل ہوتے ہیں۔

احمد نے 2012 میں ایک سروس ہوشا (میرج بیورو) کے خلاف اپیل دائر کی اور ان کے 11 اراکین کو 8 ماہ سے 18 برس تک کی سزا دی گئی۔ ان پر انسانی اسمگلنگ کے سنگین الزامات ثابت ہوئے لیکن اس کے باوجود اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور ہر سال موسمِ گرما میں ہزاروں افراد اس کام کے حوالے سے مصر آ رہے ہیں۔

اب یہ حال ہے کہ ہویدا نے گرمیوں کی دلہن بننے سے انکار کر دیا ہے اور وہ اپنے والد سے بہت نفرت کرتی ہے۔ ہویدا کی خواہش ہے کہ کوئی مرد ہاتھ بڑھا کر اسے اپنالے لیکن وہ مصر میں پہلے ہی بہت بدنام ہو چکی ہے اور شاید ہی مصری قدامت پسند معاشرے میں اب کوئی ہے جو اس کا ہاتھ تھام سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔