بارشوں سے تباہی، ماحولیاتی تبدیلیاں نظر انداز

ایڈیٹوریل  منگل 18 جولائی 2017
عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر ان بارشوں کی تباہی سے بچنے کے لیے پیشگی اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے ۔ فوٹو: فائل

عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر ان بارشوں کی تباہی سے بچنے کے لیے پیشگی اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے ۔ فوٹو: فائل

سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں مون سون کی بارشوں نے حد درجہ تباہی مچائی ہے جس کے باعث کئی افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے جب کہ املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے، محض ہفتے کو 2 بچوں سمیت 7 افراد ڈوب کر جاں بحق ہوئے ہیں۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ مون سون بارشوں سے ہونے والی ان ہلاکتوں اور تباہی کے پیچھے موسم کی سختی سے زیادہ انسانی کوتاہی اور غلطیاں کارفرما ہیں، دوسری جانب تباہ حال انفرااسٹرکچر مزید پریشانیوں کا باعث ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں کے رہائشی بھی کوفت کا شکار ہیں جہاں معمولی درجے کی بارش ہوئی ہے، کراچی کے کئی علاقے ہلکی پھلکی ’’رم جھم‘‘ کے دوران بھی کیچڑ اور غلاظت سے بھر گئے، اسلام آباد، سیالکوٹ، حیدرآباد اور گرد و نواح کے علاقوں میں تیز بارش کے باعث نشیبی علاقے زیر آب آگئے۔

بلوچستان کے علاقے خضدار میں بھی بارشوں نے تباہی مچادی، ندی نالوں میں بہہ جانے سے 2 بھائیوں سمیت 5 افراد جاں بحق ہوگئے۔ کوئٹہ، کراچی ایم 25 کا پل ٹوٹ جانے کے باعث ہفتہ کی رات ایک گاڑی اپنی سواریوں کے ہمراہ ریلے میں بہہ گئی۔ بارشیں اس خطے کے لیے نئی نہیں ہیں، ہر سال بارشوں کا یکساں سلسلہ شروع ہوتا ہے اور تقریباً ایک جیسی تباہی کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر ان بارشوں کی تباہی سے بچنے کے لیے پیشگی اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے جب کہ حکومتی اور علاقائی سطح پر بلند بانگ دعوے ہمیشہ سنائی دیتے ہیں۔ یہ امر بھی لائق تعزیر ہے کہ بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں کی جانب سے کلائمیٹ چینج کے انتباہ اور بطور خاص اس خطے میں آنے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث موسموں میں شدت، شدید گرمی، بارشوں اور سیلابوں کی جو رپورٹس منظرعام پر آرہی ہیں اس جانب سے مستقل پہلوتہی برتی جارہی ہے، حکومتی سطح پر کوئی ہلچل محسوس نہیں ہوتی، نہ ہی ان رپورٹس کے مندرجات پر اب تک کوئی حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ صائب ہوگا کہ پانی سر سے گزرنے سے پہلے بچاؤ کی تدابیر کی جائیں ورنہ آنے والے دنوں میں موسم کی سختیاں مزید بڑھ جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔