رفتار کی تیزی

 منگل 18 جولائی 2017
ہم نہیں جانتے کہ یہ رفتار ہمیں کہاں لیے جارہی ہے۔  فوٹو : فائل

ہم نہیں جانتے کہ یہ رفتار ہمیں کہاں لیے جارہی ہے۔ فوٹو : فائل

انسان اب ایک ایسے دور میں داخل ہوچکا جو مسلسل پگھلتا ہوا اور سپر سونک رفتار سے دوڑتا ہوا دور ہے۔

واقعات کی رفتار اتنی تیز ہوگئی ہے کہ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ ہمارے لیے ’’آج‘‘ صرف ایک لفظ بنتا جارہا ہے۔ جو کچھ ہے وہ آنے والا کل اور آنے والا لمحہ ہی ہے۔ واقعات کی رفتار کے ساتھ دیکھنے اور سمجھنے کی رفتار بھی تیز ہوگئی ہے۔ آپ اس کا اندازہ فلموں سے لگالیجیے۔

کندن لال سہگل کی فلم ’’دیوداس‘‘ ایک سست رفتار معاشرے کی فلم تھی۔ اسی لیے اس میں حرکت بھی بہت ہی کم تھی۔ دلیپ کمار کی ’’دیوداس‘‘ میں رفتار اور حرکت میں تھوڑا سا اضافہ ہوا۔ لیکن شاہ رخ خاں تک آتے آتے یہی دیوداس ایک بھاگتے دوڑتے اور اچھلتے کودتے معاشرے کی فلم بن گئی۔

سچی بات تو یہ ہے کہ اگر اس ناول کا منصف اپنے ناول پر بنی ہوئی آج کی فلم دیکھ لے تو صدمے سے بے ہوش ہوجائے۔ مگر یہی بات آج کے نوجوانوں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ وہ سست رفتار فلمیں برداشت نہیں کرسکتے۔ خود ہماری نسل کے لوگوں کے لیے بھی آج سہگل کی فلم کلاسیک تو ہے مگر اس میں وہ فنی خوبیاں نہیں جو آج کی فلموں میں نظر آتی ہیں۔ حتیٰ کہ اس زمانے کے ایکٹر بھی آج ہمیں لکڑی کے پتلے معلوم ہوتے ہیں۔

اب پاکستان کی طرف آجائیے۔ ایک دو دہائی پہلے تک پاکستان ٹیلی وژن پر اشفاق احمد کے ڈراموں کی بڑی دھوم تھی۔ سب انہیں پسند کرتے تھے۔ لیکن وہی ڈرامے پچھلے دنوں دوبارہ پیش کیے گئے تو بری طرح ناکام ہوگئے۔ یہ وہی رفتار کی تیزی ہے جو ہمیں ہر شعبے میں نظر آرہی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ رفتار ہمیں کہاں لیے جارہی ہے۔

ناروے کے فلسفی ٹامس ہائی لینڈ ایریکسن تو کہتے ہیں کہ ہم ایک ایسی دنیا کی طرف جارہے ہیں جہاں ہمارے لیے کسی ایسے خیال پر غور کرنا قریب قریب ناممکن ہوجائے گا جو چند انچ سے زیادہ لمبا ہو۔

(مسعود اشعر)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔