- بشام خود کش حملہ؛ پاکستان سیکیورٹی بڑھائے اور سیکیورٹی رسک مکمل ختم کرے، چین
- عمران خان کا پیغام پوری طرح نہیں پہنچایا جا رہا، پی ٹی آئی اجلاس میں قانونی ٹیم پر تنقید
- جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وزیرخزانہ
- کراچی ایئرپورٹ سے جعلی دستاویزات پر بیرون ملک جانے والے 2 مسافر گرفتار
- ججوں کے خط کا معاملہ، سنی اتحاد کونسل کا قومی اسمبلی میں تحریک التوا جمع کرانے کا فیصلہ
- ضلع بدین کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق
- غیرمتعلقہ پاسپورٹ برآمد ہونے پر پی آئی اے کی ایئر ہوسٹس کینیڈا میں گرفتار
- اگلے ماہ مہنگائی کی شرح کم ہو کر 21 سے 22 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان
- اقتصادی بحالی اور معاشی نمو کے لیے مشاورتی تھنک ٹینک کا قیام
- اے ڈی ایچ ڈی کی دوا قلبی صحت کے لیے نقصان دہ قرار
- آصفہ بھٹو زرداری بلامقابلہ رکن قومی اسمبلی منتخب
- پشاور: 32 سال قبل جرگے میں فائرنگ سے نو افراد کا قتل؛ مجرم کو 9 بار عمر قید کا حکم
- امیرِ طالبان کا خواتین کو سرعام سنگسار اور کوڑے مارنے کا اعلان
- ماحول میں تحلیل ہوکر ختم ہوجانے والی پلاسٹک کی نئی قسم
- کم وقت میں ایک لیٹر لیمو کا رس پی کر انوکھے ریکارڈ کی کوشش
- شام؛ ایئرپورٹ کے نزدیک اسرائیل کے فضائی حملوں میں 42 افراد جاں بحق
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مزید مضبوط
- پی ٹی آئی قانونی ٹیم کا چیف جسٹس اور جسٹس عامر فاروق سے استعفی کا مطالبہ
- اہم چیلنجز کا سامنا کرنے کیلیے امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا، جوبائیڈن کا وزیراعظم کو خط
- عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ ہوگیا
رفتار کی تیزی
انسان اب ایک ایسے دور میں داخل ہوچکا جو مسلسل پگھلتا ہوا اور سپر سونک رفتار سے دوڑتا ہوا دور ہے۔
واقعات کی رفتار اتنی تیز ہوگئی ہے کہ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ ہمارے لیے ’’آج‘‘ صرف ایک لفظ بنتا جارہا ہے۔ جو کچھ ہے وہ آنے والا کل اور آنے والا لمحہ ہی ہے۔ واقعات کی رفتار کے ساتھ دیکھنے اور سمجھنے کی رفتار بھی تیز ہوگئی ہے۔ آپ اس کا اندازہ فلموں سے لگالیجیے۔
کندن لال سہگل کی فلم ’’دیوداس‘‘ ایک سست رفتار معاشرے کی فلم تھی۔ اسی لیے اس میں حرکت بھی بہت ہی کم تھی۔ دلیپ کمار کی ’’دیوداس‘‘ میں رفتار اور حرکت میں تھوڑا سا اضافہ ہوا۔ لیکن شاہ رخ خاں تک آتے آتے یہی دیوداس ایک بھاگتے دوڑتے اور اچھلتے کودتے معاشرے کی فلم بن گئی۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اگر اس ناول کا منصف اپنے ناول پر بنی ہوئی آج کی فلم دیکھ لے تو صدمے سے بے ہوش ہوجائے۔ مگر یہی بات آج کے نوجوانوں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ وہ سست رفتار فلمیں برداشت نہیں کرسکتے۔ خود ہماری نسل کے لوگوں کے لیے بھی آج سہگل کی فلم کلاسیک تو ہے مگر اس میں وہ فنی خوبیاں نہیں جو آج کی فلموں میں نظر آتی ہیں۔ حتیٰ کہ اس زمانے کے ایکٹر بھی آج ہمیں لکڑی کے پتلے معلوم ہوتے ہیں۔
اب پاکستان کی طرف آجائیے۔ ایک دو دہائی پہلے تک پاکستان ٹیلی وژن پر اشفاق احمد کے ڈراموں کی بڑی دھوم تھی۔ سب انہیں پسند کرتے تھے۔ لیکن وہی ڈرامے پچھلے دنوں دوبارہ پیش کیے گئے تو بری طرح ناکام ہوگئے۔ یہ وہی رفتار کی تیزی ہے جو ہمیں ہر شعبے میں نظر آرہی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ رفتار ہمیں کہاں لیے جارہی ہے۔
ناروے کے فلسفی ٹامس ہائی لینڈ ایریکسن تو کہتے ہیں کہ ہم ایک ایسی دنیا کی طرف جارہے ہیں جہاں ہمارے لیے کسی ایسے خیال پر غور کرنا قریب قریب ناممکن ہوجائے گا جو چند انچ سے زیادہ لمبا ہو۔
(مسعود اشعر)
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔