ایک مزدور یہ بھی ہیں

عبدالقادر حسن  منگل 18 جولائی 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ڈرائیورنے گاڑی روکی تو میں اپنے خیالوں سے چونک گیا اور پوچھا کہ خیریت ہے اس نے باہر کی طرف اشارہ کیا ، میری نظر ایک ہجوم پر پڑی جو ایک آدمی کو گھیرے ہوئے تھا، میں نے ڈرائیور سے کہا کہ لگتا ہے کہ اس آدمی نے کوئی غلطی کر دی ہے اور یہ سب اس کو گھیرے ہوئے ہیں، میں نے غیرارادی طور پر گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے مجھے روکتے ہوئے کہا کہ یہ سب مزدور لوگ ہیں اورگھرے ہوئے صاحب شاید اپنا کوئی کام کرانا چاہتے ہیں ان کو ان دیہاڑی دار مزدروں نے گھیرا ہوا ہے اور اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں اور ان صاحب کی جانب لپک لپک کر اپنی خدمات پیش کرنا چاہ رہے ہیں تا کہ اس دن کی اپنی روٹی روزی کا سامان کر سکیں۔

جتنی دیر گاڑی کھڑی رہی، میں ان مزدوروں کے چہروں کا بغور جائزہ لیتا رہا جن پر مجھے ہر چہرے پر امید کی جھلک دکھائی دیتی رہی کہ شاید وہ صاحب جو  اپنا کام کرانے کے سلسلے میں آئے ہیں ان میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں اور روزی کا سامان کرتے ہیں ۔ مجھے ان چہروں پر امید و یاس کا وہ امتزاج نظر آیا جو اپنے بچوں کے منہ میں کھانے کا نوالہ ڈالنے کے لیے بے چین تھے اور امید بھری نظروں سے اپنے خریدار کی جانب دیکھ رہے تھے کہ ان صاحب کی نگاہ انتخاب کس پر ٹھہرتی ہے اور ان کی اس دن کی دیہاڑی لگ جا تی ہے جو  ان کے لیے کل کائنات کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ وہ ہر روز اپنے ہنر کے ہتھیاروں کے ساتھ شہر کے کسی پُر ہجوم چوک میں صبح سویرے جمع ہو تے ہیں اور بھیک مانگنے کے  بجائے اپنے رب پر توکل کرتے ہوئے اپنی اس دن کی روزی کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔

ان کی امید کسی ضرورت مند کی آمد کے ساتھ جاگ جاتی ہے اور وہ ضرورت مند اپنے حساب سے بھاؤ تاؤ کر کے ان میں سے کسی ایک کو ساتھ لے جاتا ہے اور باقی رہ جانے والے اس خوش نصیب کوحسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہ جاتے ہیں اور اس کی قسمت پر رشک کرتے ہیں ۔ یہ وہ صورتحال ہے جس سے یہ دیہاڑی دار مزدور روز دوچار ہوتے ہیں اور جس دن وہ دن بھر انتظار کے بعد اپنے گھر کو مایوس لوٹتے ہوں گے تو ان کی کیفیت کا اندازہ آپ اور میں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اور ان میں سے کسی کو مزدوری کے لیے ٹھنڈی گاڑیوں میں اپنے گھر لے جا کر نہیں کرسکتے کہ ہماری دنیاوی زندگی اور ان کی مزدورانہ زندگی میںلمبا چوڑا فرق ہے جو  قسمت کا پیدا کردہ ہے۔

میرے رب نے تو ہر ایک کو آزاد پیدا کیا ہے اور رزق کا وعدہ بھی کیا ہے لیکن بدقسمتی سے ان لوگوں کا رزق ہمارے جیسے لوگوں کے ہاتھوں سے ہو کر گزرتا ہے جو گھر بیٹھے مختلف کھانوں کا آرڈر کر کے اپنی پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں لیکن آپ کے گھر میں کام کرنے والے مزدور کی آگ بجھانے کا سامان آپ اپنے ذمے نہیں لیتے بلکہ اس کو اس کی اپنی مزدوری سے ہی اپنے پیٹ کی تسکین کرنے کو کہا جاتا ہے ۔ رزق کی تقسیم کا یہ چکر ہم دنیاوی لوگوں کا اپنا چلایا ہوا ہے اور ہم نے اپنے سلسلے بنا رکھے ہیں کہ کس کو کیا ادا کرنا ہے۔

میرا ایک نواسہ مجھے اکثر کہتا ہے کہ بابا ہم ریڑھی والوں سے کوئی چیز خریدتے وقت تو بہت بھاؤ تاؤ کرتے ہیں اور ان کو ناجائز منافع خور تک کا خطاب دیتے ہیں لیکن ہم بڑی بڑی دکانوں سے خریداری کے وقت کبھی دام تک بھی نہیں پوچھتے کیونکہ اس میں ہمیں اپنی سبکی کا خطرہ ہوتا ہے تو اس بچے کا کہنا ہے کہ ہمیں ان غریب لوگوں سے بھاؤ تاؤ بالکل نہیں کرنا چاہیے اور جو یہ مانگیں ان کو مناسب ادائیگی کر دینی چاہیے کہ ان کی ضرورتیں ہم سے ہی وابستہ ہیں، ہم ان کی ضرورتوں کا خیال نہیں رکھیں گے تو کوئی اور تو نہیں آئے گا۔

شدید گرمی میں فٹ پاتھ پر مزدوروں کا ایک بڑا ہجوم ہمیں ہر صبح ایک نئی داستان سناتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی کہانی ہوتی ہے جو  ان کے چہروں سے عیاں ہوتی ہے اور اگر آپ ان سے دکھ سکھ کرنے شروع کریں تو ان کی زندگی کی داستانیں آپ کو کسی اور دنیا میں لے جائیں گی اور اگر آپ میں احساس زندہ ہے تو آپ یہ سب برداشت نہیں کر سکیں گے اور اپنے آپ سے آپ کو ندامت ہو گی کہ آپ کی اور ان مزدوروں کی زندگی میں کتنا فرق ہے یا ان کی زندگی کتنی مشکل ہے اور اس کے باوجود وہ اس کو گزار رہے ہیں یا دوسرے لفظوں میں کاٹ رہے ہیں۔

یہ سب اور بہت کچھ ہم سب روزانہ اپنے آس پاس دیکھتے ہیں اور اس پر چپ رہتے ہیں کہ ہمارے پاس ان سب کی ضرورتوں اور دکھوں کا مداوا کرنے کی طاقت نہیں اور جو لوگ یہ طاقت رکھتے ہیں اُن کو اِن کی  پروا  نہیں یا وہ یہ سب کرنا نہیں چاہتے کہ ان کو اپنی ہی ضروتوں سے فرصت نہیں ملتی کہ وہ ان غریب لوگوں کے بارے میں بھی سوچیں۔

اگر آپ یہ تصور کریں کہ جب آپ سارا دن مزدوری کی تلاش کے بعد گھر پہنچیں جہاں پر آپ کے بچے آپ کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہوں اور اس امید پر بیٹھے ہوں کہ آپ ان کے لیے کھانے کا سامان لائیں گے لیکن جب ان کو یہ پتہ چلے کہ سارادن مزدوری تلاش کے باوجود نہیں ملی تو آپ ان کی ذہنی اور جسمانی حالت کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے اور اس مایوسی کا تو کوئی جواب نہیں دے سکتا جو ان ننھے منھے بچوں کے چہروں سے جھلکتی ہے۔

میں گھر واپسی تک اسی شش وپنج میں رہا ہوں کہ اس آج کے آنکھوں دیکھے واقعہ کے بارے کیا لکھوں اور کس سے اس کا ما تم کروں کہ مجھے تو کوئی امید اور روشنی کی کرن نظر نہیں آتی جو ان روزانہ کے مزدوروں کے دکھوں کا سامان کر سکے اور ان کے معصوم اہل خانہ کے لیے کم از کم دو وقت کی روٹی کا ہی بندوبست ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔