روزہ: چند ضروری مسائل

مفتی منیب الرحمن  پير 15 جون 2015
زبانی نیت ضروری نہیں، مستحب ہے لہٰذا اگر رات ہی سے نیت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ فوٹو ایکسپریس

زبانی نیت ضروری نہیں، مستحب ہے لہٰذا اگر رات ہی سے نیت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ فوٹو ایکسپریس

 ٭ بلڈ ٹیسٹ کرانے یا کسی شدید ضرورت مند مریض کو خون دینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
٭ کان میں دوا یا تیل ٹپکانے یا دانستہ پانی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
٭ ہماری تحقیق کے مطابق آنکھ میں دوا ڈالنے یا کسی بھی قسم کا انجکشن لگوانے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے۔ بعض علما کے نزدیک اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

شام کے مشہور حنفی فقیہ ڈاکٹر وھبہ الزوحیلی لکھتے ہیں: ’’انجکشن پٹھوں میں جلد کے اندر لگانا ہو یا رگوں میں، بہتر یہ ہے کہ روزے کی حالت میں نہ لگوائے اور افطار کا انتظار کرے۔ اگر رگوں میں خون لگائے گا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔‘‘

٭روزے کی حالت میں قے آنے کی فقہا نے24 ممکنہ صورتیں بیان کی ہیں جن میں سے صرف دو صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتاہے :
٭ بے اختیار منہ بھر کر قے آئے اور اس میں سے کچھ مواد واپس نگل لے۔
٭ طبعی مجبوری کے تحت جان بوجھ کر قے کرے اگر ایسی قے منہ بھر آجائے تو خواہ واپس حلق میں کچھ بھی نہ نگلے، روزہ ٹوٹ جائے گا۔ باقی صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹتا۔
٭نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ زبانی نیت ضروری نہیں، مستحب ہے لہٰذا اگر رات ہی سے نیت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ اس صورت میں ان الفاظ کے ساتھ نیت کرے:’’میں اﷲ تعالیٰ کے لیے کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں۔‘‘
اور صبح صادق یعنی سحری کے وقت یا سحری کے بعد کرنا چاہے تو ان الفاظ کے ساتھ نیت کرے:’’میں اﷲ تعالیٰ کے لیے آج کے روزے کی نیت کرتا ہوں۔‘‘

٭سحری سے پہلے غسل جنابت واجب ہوچکا ہو اور سحر ختم ہونے سے پہلے نہ کرسکا ہو یا دن میں روزے کے دوران نیند کی حالت میں جنبی یا ناپاک ہوجائے تو روزہ فاسد نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے اجر میں کمی واقع ہوتی ہے البتہ غسل واجب کو اتنی دیر تک مؤخر کرنا کہ ایک فرض نماز کا وقت گزر جائے، مکروہ تحریمی ہے، کیوں کہ اس سے نماز قضا ہوجائے گی۔

٭ وضو کے دوران مسواک کرنا عام دنوں میں بھی سنت ہے اور رمضان المبارک کے دوران روزے کی حالت میں بھی، خواہ عصر کے وقت یا عصر کے بعد بھی کرے۔ روزے کی حالت میں برش کے ساتھ دانتوں کو پیسٹ کرنا یا کسی بھی پاؤڈر کے ذریعے دانتوں کو صاف کرنا احتیاط کے خلاف ہے اور کراہت کا سبب ہے، لیکن ایسا کرنے سے اگر ذرات حلق میں نہ جائیں تو روزہ فاسد نہیں ہوگا۔

٭غیبت کرنا، جھوٹ بولنا، چغلی کھانا، دوسروں پر بہتان تراشی کرنا اور ان کی عیب جوئی کرنا، دوسروں کو ایذا پہنچانا، بے ہودہ یا جنسی لذت کی باتیں کرنا عام حالت میں بھی منع ہیں اور روزے کی حالت میں ان کی ممانعت و حرمت اور زیادہ ہوجاتی ہے۔ ان باتوں سے فقہی اعتبار سے تو روزہ فاسد ہونے کا حکم نہیں لگایا جاتا، لیکن روزہ مکروہ ہوجاتا ہے اور روزے دار روزے کے اجر کامل سے محروم ہوجاتا ہے۔

٭روزے کی حالت میں خوش بو استعمال کرسکتے ہیں، بالوں میں تیل لگا سکتے ہیں، اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے ۔
٭دمہ کا مریض جو انہیلر کے استعمال کے بغیر دن نہیں گزار سکتا تو وہ معذور ہے اور اس کو اس بیماری کی بنا پر روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، وہ فدیہ ادا کرے۔ اگر روزہ رکھ لیا ہے اور مرض کی شدت کی بنا پر انہیلر استعمال کیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا، روزہ رکھنے کی استطاعت ہو تو بعد میں قضا کرے، ورنہ فدیہ ادا کرے۔

٭ انتہائی درجے کی ذیابیطس کے مریض یا ایسے تمام امراض میں مبتلا مریض جن کو خوف خدا رکھنے والا کوئی دین دار ماہر ڈاکٹر مشورہ دے کہ وقفے وقفے سے دوا استعمال کرو یا پانی پیو یا خوراک استعمال کرو ورنہ مرض بے قابو ہوجائے گا اور کسی عضو یا جان کے تلف ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسے تمام لوگ معذور ہیں، انہیں شریعت نے رخصت دی ہے کہ روزہ نہ رکھیں اور فدیہ ادا کریں۔ ایسے لوگ ’’دائمی مریض‘‘ کہلاتے ہیں۔

٭ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کا (دو وقت کا) کھانا مقرر کیا ہے، ہر روزے دار اپنے معیار اور مالی استطاعت کے مطابق فدیہ ادا کرے۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو شخص فدیے کی مقرر ہ مقدار سے خوش دلی کے ساتھ زیادہ رقم دے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔

اسی طرح قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے دوران مسافر یا عارضی مریض کو روزہ چھوڑنے کی رخصت دی ہے، لیکن یہ بھی فرمایا کہ اگر ایسے لوگ روزہ رکھ لیں تو یہ ان کے لیے بہتر ہے۔ مسافر یا عارضی مریض فدیہ دینے سے نہیں چھوٹیں گے، بلکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انہیں رمضان المبارک کے بعد عذر کی بنا پر چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرنی ہوگی۔

٭حاملہ عورت یا دودھ پلانے والی عورت اپنی یا بچے کی صحت کے بگڑنے سے بچنے کے لیے رمضان کا روزہ چھوڑ سکتی ہے، لیکن اس کی تلافی فدیے سے نہیں ہوگی بلکہ بعد میں قضا روزے رکھنے ہوں گے۔ اسی طرح ایامِ مخصوص کے دوران عورت روزہ نہیں رکھ سکتی، ایام ختم ہونے پر غسل کرکے پاک ہوجائے اور روزے رکھے، جتنے دنوں کے روزے چھٹ گئے ہیں، ان کی تلافی فدیے سے نہیں ہوگی، بلکہ بعد میں اتنے دنوں کے قضا روزے رکھنے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔