’’اوپر والا‘‘

نعمان الحق  منگل 18 جولائی 2017
جس طرح موت کی یاد زندگی میں اچھے مقاصد بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے اُسی طرح ریٹائرمنٹ، بڑھاپے اور اختیار کے چھن جانے کی یاد ’اوپر والے‘ کو ادارے کی ترقی کے لیے درست سمت میں کوشش کرنی کی تحریک دیتی ہے۔ فوٹو: فائل

جس طرح موت کی یاد زندگی میں اچھے مقاصد بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے اُسی طرح ریٹائرمنٹ، بڑھاپے اور اختیار کے چھن جانے کی یاد ’اوپر والے‘ کو ادارے کی ترقی کے لیے درست سمت میں کوشش کرنی کی تحریک دیتی ہے۔ فوٹو: فائل

’اوپر والا‘ کون ہوتا ہے؟

’اوپر والا‘ وہ نہیں جو آپ سے اوپر ہو بلکہ ’اوپر والا‘ وہ ہے جو آپ سے اتنا اوپر ہو کہ آپ اُسے صرف دور سے دیکھ اور سُن سکیں، وہ بھی کبھی کبھار۔

’اوپر والا‘ نیچے سے بھی اوپر آسکتا ہے اور باہر کہیں اور سے بھی۔ دونوں صورتوں میں وہ ’اوپر والا‘ ہی کہلاتا ہے۔

اہم یہ نہیں کہ وہ اوپر کیسے پہنچا یا اوپر کہاں سے آیا ہے یا یہ کہ وہ ’اوپر والا‘ ہونے کے اہل ہے کہ نہیں، اہم یہ ہے کہ وہ ’اوپر والا‘ ہے۔

’اوپر والے‘ کی اوپر تک پہنچ ہوتی ہے۔

کبھی تو یہی پہنچ اُسے ’اوپر والا‘ بناتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ پہنچ اُسے ’اوپر والا‘ بننے کے بعد مل جاتی ہے البتہ نتیجہ دونوں صورتوں میں ایک ہی نکلتا ہے؛ وہ یہ کہ ’اوپر والے‘ کی پہنچ اوپر تک ہوتی ہے۔

اوپر تک پہنچ ’اوپر والے‘ کو مزید اوپر جانے کے لیے خوب آسانیاں فراہم کرتی ہے، کوئی ٹیلنٹڈ ہو سہی۔

ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ اوپر تک پہنچ کے حامل ’اوپر والے‘ کی پہنچ نیچے تک بھی ہو۔ اُس کی کئی ایک جائز وجوہات ہیں۔

  • اول یہ کہ ’اوپر والے‘ کو نیچے والے اِن مسائل سے دوچار ہی نہیں ہونے دیتے جو مسائل نیچے والوں کو اصل میں درپیش ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ’اوپر والے‘ کو نیچے ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے۔
  • دوم یہ کہ ’اوپر والا‘ مزید اوپر جانے کے شوق میں نیچے کی بجائے اپنے دائیں بائیں اور اوپر کی طرف زیادہ نظر رکھتا ہے۔
  • سوم یہ کہ ’اوپر والا‘ جانتا ہے کہ جس سیڑھی پر وہ بلندی کی جانب محو سفر ہے، اُسے نیچے سے نہیں کھینچا جاسکتا بلکہ صرف اوپر سے گرایا جاسکتا ہے۔

لہٰذا ’اوپر والے‘ کو نیچے محض اتنی سی غرض رہ جاتی ہے کہ نیچے والوں کے کام سے اُس کی سیڑھی میں پاؤں رکھنے کے لیے ایک اور ڈنڈا لگ رہا ہے یا نہیں۔

اگر ہاں تو ستے خیراں۔

اگر ناں تو نیچے والوں کو ڈنڈے سے پیٹا جائے گا جس کے کئی ایک ’مہذب‘ طریقے موجود ہیں۔

اِس کا ’معمولی‘ سا نقصان یہ ہوتا ہے کہ

نیچے والے ’اوپر والے‘ کی ترقی کے لیے زور لگاتے رہتے ہیں،

’اوپر والا‘ سیڑھی پر اوپر کی جانب چڑھتا رہتا ہے

اور ادارہ اِس دیوار کی مانند وہیں کھڑا رہتا ہے جس کے ساتھ سیڑھی لگی ہوتی ہے۔

’اوپر والا‘ اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ یہ سیڑھی آسمان تک نہیں جاتی بلکہ اِس کے اختتام پر وہ کھائی ہے جس میں ہر ملازم کبھی نہ کبھی ضرور گرتا ہے یعنی

’ریٹائرمنٹ تو تمہیں آن پکڑے گی، خواہ تم سو بار ایکسٹینشن لے لو‘

اور

’ہر ملازم کو ریٹائرمنٹ کا مزہ چکھنا ہے‘

جس طرح موت کی یاد زندگی میں اچھے مقاصد بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے اُسی طرح ریٹائرمنٹ، بڑھاپے اور اختیار کے چھن جانے کی یاد ’اوپر والے‘ کو ادارے کی ترقی کے لیے درست سمت میں کوشش کرنی کی تحریک دیتی ہے۔

اگر ایسا ہوجائے تو ’اوپر والا‘ مزید اوپر جانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ نیچے درکار بنیادی تبدیلیوں اور سسٹم ڈویلپمنٹ کی طرف بھی بھرپور توجہ دے کیونکہ انسان ریٹائر ہوجاتے ہیں لیکن سسٹم چلتے رہتے ہیں اور ارتقائی عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔

لیکن یہ تب ہوتا ہے جب ’اوپر والا‘ یہ جان لے کہ وہ سب سے اوپر والا نہیں بلکہ اصل اوپر والا وہ ہے جس کا عرش ساتویں آسمان پر ہے اور سب آخر کار اُسی اوپر والے کو جوابدہ ہوں گے۔

ہر ’اوپر والا‘ کامیابی کا کریڈٹ چاہتا ہے لیکن ناکامی گرم گیند کی طرح چند ’اوپر والوں‘ کے ہاتھوں میں اچھلتی رہتی ہے۔

اہم پوسٹیں چند ’اوپر والوں‘ کے جھرمٹ میں یوں گھری رہتی ہیں جیسے آٹے کے محدود توڑے اور سیلاب زدگان۔ یہ کیفیت طاری ہونے کا سبب یہ فلسفہ ہے کہ وہ ’اوپر والا‘ ہی کیا جس کے پاس بڑی اور طاقتور پوسٹ نہ ہو۔

’اوپر والے‘ کی آخری بات

’اوپر والے‘ کی بیوی بھی حلقہ خواتین میں وہی حیثیت رکھتی ہے جو حیثیت ’اوپر والے‘ کو حلقہ مردان میں حاصل ہوتی ہے۔ اُس کے لیے بیوی کا حسین، تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور خاندانی ہونا ضروری نہیں۔ بس ’اوپر والے‘ کی بیوی ہونا کافی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے  مختصر  مگر جامع  تعارف   کیساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔
نعمان الحق

نعمان الحق

بلاگر پیشے کے لحاظ سے الیکٹریکل انجنئیر ہیں۔ آپ اُن سے بذریعہ ای میل رابطہ کرسکتے ہیں۔ [email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔