بے کاروں کی فوج

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 19 جولائی 2017

70 سال بعد قائداعظم کے پاکستان کے دو پاکستان بن چکے ہیں، ایک اصل پاکستان ہے اور دوسرا مصنوعی پاکستان ہے، اصل پاکستان میں بیس کروڑ عام پاکستانی بستے ہیں، جو دن رات سخت محنت کرنے کے باوجود اپنا اور اپنوں کا پیٹ نہیں بھر پاتے ہیں اور جن کی اکثریت بھوکے پیٹ ہی سوتی ہے۔

مصنوعی پاکستان میں کرپٹ سیاستدان، جاگیردار، زمیندار، صنعتکار، بزنس مین، بیوروکریٹس، ملا، بلڈرز، اسٹاک ایکسچینج کے ممبران، بڑے بڑے بینکرز، بھتہ مافیا، اسمگلرز، کمیشن خور، سود خور، بڑے ڈاکٹرز، انجینئرز، ٹھیکیدار اور دیگر اعلیٰ حیثیتوں، مرتبوں اور رتبوں والے اور ان کی اولاد، ان کے رشتے دار اور ساتھی بستے ہیں، جو سب کے سب شاہانہ زندگی بسر کررہے ہیں، عالیشان محل نما گھروں میں رہتے ہیں، بڑی بڑی لاتعداد گاڑیاں ہر وقت ان کی منتظر رہتی ہیں، جو سال میں تین چار مہینے باہر ممالک میں رہتے ہیں۔

جہاں وہ لاکھو ں ڈالر ز کی شاپنگ کرتے ہیں، جو موزے سے لے کر سوٹ اور ٹائی سے لے کر قمیض تک نامور برانڈڈ کمپنیوں کی استعمال کرتے ہیں، جو اپنا منہ بھی منرل واٹر سے دھوتے ہیں، ان سب کے ڈرائنگ روم اور بیڈروم کے ائیرکنڈیشنر کبھی بند نہیں ہوتے، ان کی ڈائننگ ٹیبل پر کھانوں کی تعداد گنی نہیں جاسکتی۔ ان سب کی آپس میں رشتے داریاں ہیں، یہ سب ایک دوسرے کے مفادات کا بھرپور خیال کرتے ہیں۔ سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب بغیر محنت اور جدوجہد کے زندگی انتہائی آرام، سکون، مزے اور عیاشی سے گزار رہے ہیں۔ یہ اپنا سارا وقت بے کاری، کاہلی، فضول و لچر باتوں، واہیات مشغلوں میں برباد کیے جارہے ہیں۔

بیس کروڑ عام پاکستانی دن رات محنت پر محنت کیے جارہے ہیں، دوسر ی طرف یہ ملک اور قوم کا پیسہ برباد کیے جارہے ہیں، دوپہر میں سو کر اٹھتے ہیں، دو چار گھنٹے دکھاوے کی خاطر اور خوامخواہ کی اچھل کود کرتے ہیں اور پھر آرام سے کسی کلب یا دوستوں یا اپنے عالیشان ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ملک اور قوم کا روپیہ ضایع کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان سب کو محنت سے سخت نفرت ہے۔ یہ سب اس لیے بھی خوش نصیب ہیں کہ یہ پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں اور اسی صدی میں پیدا ہوئے ہیں۔ اگر یہ انگلستان میں دو تین صدی پہلے پیدا ہوئے ہوتے اور بے کاری اور کاہلی جو پاکستان میں کررہے ہیں اگر وہاں کررہے ہوتے تو سب کو مختلف سزائیں دی جارہی ہوتیں۔ ’’کیسے؟‘‘ آئیں اس ’’کیسے‘‘ کا جواب سنتے ہیں۔

دو تین صدی پہلے انگلستان میں بے کاری کی درج ذیل سزا ملتی تھی۔ پہلے قصور پر بیکار شخص کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور اس کا قصور معرض تحریر میں لایا جاتا تھا، دوسرے قصور پر اس کے ہاتھ پر داغ دیا جاتا تھا، تیسر ے قصور پر اس کو موت کی سزا دی جاتی تھی۔ 1556 میں پہلے قصور پر کوڑے لگتے تھے، دوسرے قصور پر کوڑوں کے علاوہ کان کا اوپر کا حصہ کاٹ دیا جاتا تھا، تیسرے قصور پر قید کی سزا دی جاتی تھی، چوتھے قصور پر موت کی سزا ملتی تھی۔ یونان میں بھی بیکاری کی پاداش میں قانونی سزا ملتی تھی۔

اخبار ’’ٹیٹلر‘‘ نے لکھا تھا کہ ’’ہر بیکار شخص مردے کے برابر ہے، اگر اس کو زندہ خیال کیا جائے تو صرف اسی وقت کے لیے زندہ سمجھنا چاہیے جب کہ وہ دوسروں کے فائدے کا کچھ کام کرتا ہے، بعض آدمی بیس سال کی عمر میں پیدا ہوتے ہیں، بعض تیس سال کے ہوکر جنم لیتے ہیں اور کئی تو ساٹھ سال کی عمر میں تولد ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی جو موت کے گھنٹہ دو گھنٹہ پہلے ہی فی الحقیقت وجود میں آئے ہیں۔‘‘

اس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ مصنوعی پاکستان میں بسنے والے تمام شخص ابھی تک تولد ہی نہیں ہوئے، کیونکہ ان میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو دوسروں کے فائدے کا کچھ کام کرتا ہو، دوسروں کا فائدہ تو الگ بات وہ توسب کے سب کوئی کام ہی نہیں کرتے ہیں، وہ بیکاری اور کاہلی کو ہی اصل زندگی سمجھے بیٹھے ہیں۔ حقیقت میں وہ سب مردوں کے برابر ہیں جو اپنے آپ کو زندوں میں سمجھتے ہیں۔ اگر جسمانی محنت کو بے عزتی سمجھ لیا جائے تو اس سے بڑھ کر بے شرمی، تنگدلی اور بے حسی کی بات کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی ہے۔

جب امریکی صدر ٹائلر کی مدت صدارت ختم ہوگئی تو اس کے تھوڑے دنوں بعد اس کے سیاسی مخالفوں نے اس کو اس کی جائے رہائش کے چھوٹے سے گاؤں کی سڑکوں کا پیمائش کنندہ منتخب کردیا۔ مخالفین کا خیال تھا کہ مسٹر ٹائلر ان باتوں سے سخت ناراض ہوں گے اور لوگ ان کا تمسخر اڑائیں گے۔ مگر ان کا یہ مدعا پورا نہ ہوا کیونکہ مسٹر ٹائلر نے اس منصب کو منظور کرلیا اور بڑی وضعداری سے، وفاداری سے اس منصب کے فرائض کو پورا کرتے رہے۔ ان کا یہ طرز عمل ان لوگوں کے لیے جو محنت و مشقت سے حقارت کرتے تھے، ایک طرح کی خاموش مگر باوقار عبرت تھی، جس سے موثر ہو کر انھوں نے مسٹر ٹائلر سے التماس کی کہ وہ اس منصب سے مستعفیٰ ہوجائیں مگر اس کا جواب انھوں نے اس طرح دیا ’’صاحبان میں کسی منصب کو قبول کرنے سے انکار نہیں کرتا اور نہ ہی اس سے مستعفی ہوا کرتا ہوں‘‘۔

جب روم کے شہنشاہ ہل چلانے والے کاشتکاروں میں سے انتخاب کیے جاتے تھے تو سلطنت روم تمام جہاں کی مالک تھی، جب سائرس کو پتہ لگا کہ لیسی ڈیمونینس لوگ بازار لگاتے ہیں تو وہ ان سے نفرت کرنے لگ گیا، نتیجہ اس طرح کے خیالات اور اعمال کا یہ ہوا کہ محنت سے اس طرح کی نفرت نے گھن کی طرح اس کی سلطنت کو کھا لیا اور وہ صفحہ زمین سے معدوم ہوگئی۔

روس کے پیٹراعظم گو ایک وسیع سلطنت کا ولی عہد تھا، مگر اس نے سخت محنت سے اصلی تاج و تخت حاصل کیا اور کسی بادشاہ نے ایسا نہیں کیا، اس نے اپنا شاہی لباس اتار کر کاریگر و مزدور کے کپڑے زیب تن کیے، ہالینڈ میں جہاز سازی کے کام میں شاگردی اختیار کی، انگلستان میں کاغذ سازی، لکڑی چیرنے، رسہ بٹنے کے کارخانوں اور گھڑی سازی کی دکان میں کام کرتا رہا، اسٹیا میں ایک مہینے ملر کی بھٹیوں میں لوہے کا کام سیکھتا رہا، پیٹراعظم کی ڈھالی ہوئی ایک سلاخ اب تک ملر کے ایک کارخانے واقع اسٹیا میں موجود ہے اور اس پر پیٹر کی نشانی بھی ہے، اسی طرح کی ایک اور سلاخ سینٹ پیٹرزبرگ کے عجائب گھر میں بھی موجود ہے۔ یہ کاریگر شہنشاہ کی یادگار ہیں۔

لوتھر کہتا تھا ’’کوئی دن بغیر سخت محنت کے نہ گزارو‘‘۔ جب کہ ٹرنر کا مقولہ تھا ’’کوئی دن بغیر کچھ کام کیے نہ جانے دو‘‘۔ یاد رہے بیکاری عذاب ہے اور اگر مصنوعی پاکستان میں بسنے والے عذابوں میں ہی مبتلا رہنا چاہتے ہیں تو پھر کوئی کیا کرسکتا ہے، لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ اگر اصل پاکستان کے لوگ جاگ گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر ان بیکاروں کی فوج کا کیا انجام ہوگا، بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔