مجذوب اور کشمیر

اسلم خان  جمعرات 7 فروری 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

’’ہم نے مسئلہ کشمیر حل کر دیا ہے۔‘‘ ایک مجذوب حضرت میاں میرؒ کے دربار پر مجھے بتا رہا تھا‘ اس نے یہ حکم بھی دیا کہ یہ سب لکھ لو بھول جائو گے۔مرتا کیا نہ کرتا، تعمیل حکم کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ ایک دہائی گزر چکی‘ میں اپنے مہاگرو انور عزیز چوہدری کے ہمراہ حضرت میاں میرؒ کے دربار میں اپنی عرضداشتیں پیش کرنے کے بعد سر جھکائے بیٹھا تھا کہ ایک وجیہہ اور بارعب بزرگ نے میرے کندھے کو تھپتھپایا اور ایک طرف بلا کر بات سننے کا حکم دیا۔ تجسس کا مارا یہ کالم نگار اس بزرگ کے ساتھ ہو لیا۔ انھوں نے بغیر کسی تمہید کے بولنا شروع کر دیا ’’ہم نے کشمیریوں پر ترس کھاتے ہوئے ان کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کر دیا ہے۔ میں نے اسے مجذوب کی بڑ سمجھا لیکن جب انھوں نے تفصیلات بتانا شروع کیں تو میری آنکھیں کھلنا شروع ہو گئیں۔

ہمارے پیارے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کا خیال ذرا تاخیر سے آیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشیا اور اس میں بسنے والے ڈیڑھ ارب انسانوں کا مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے، وہ ایٹمی جنگ کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے 5 فروری کو اپنے روایتی خطاب میں اسے سیاسی نہیں انسانی مسئلہ قرار دیا ہے۔ پاک یا بھارت سے الحاق کے ساتھ ساتھ کشمیر کی مکمل خود مختاری کو بھی آپشن قرار دیا ہے جس کا اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں کہیں ذکر نہیں اور یہ پاکستان کے اصولی موقف سے واضح انحراف ہے۔

لائن آف کنٹرول کے آر پار بسنے والے کشمیری کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے۔ لائن آف کنٹرول کبھی بھی موثر سرحد نہیں بن سکی۔ غیر قانونی آمد و رفت کو بھارتی فوج تمام تر کوششوں کے باوجود نہیں روک پائی۔ اس سرحد کو بھی پنجاب کی طرح باڑ لگا کر بند کرنے کی کوشش کی گئی لیکن صرف ایک ہفتے میں ہی باضابطہ معاہدے کے تحت اسے پانچ یا سات مقامات سے کھولنا پڑا اور اب دونوں اطراف سے بسنے والے کشمیری پاسپورٹ کے بغیر سفری دستاویز اور راہداری (Travel Permit) پر بس کے ذریعے سفر کر سکتے ہیں۔ سامان سے بھرے ہوئے سیکڑوں ٹرک روزانہ لائن آف کنٹرول کے آر پار آتے جاتے ہیں۔

کشمیر کے مستقل حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے آئین میں ترامیم ناگزیر ہیں جو سیاسی نزاکتوں اور ووٹ بینک کی نفسیاتی وجوہ کی بنا پر نا ممکن ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے لیکن جنوبی ایشیا کو ایٹمی جنگ سے بچانے اور کشمیریوں کو دستیاب سیاسی ماحول میں زیادہ سے زیادہ اندرونی آزادی دلانے کے لیے بروئے کار شہ دماغ مایوس نہیں ہوئے اور آج عملاً کشمیریوں کے لیے لائن آف کنٹرول معطل سرحد کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ کشمیر کے دونوں حصوں میں پاکستان اور بھارت کی کرنسی کو آسانی سے استعمال اور تبدیل کرایا جا سکتا ہے۔ راولپنڈی تو بھارتی کرنسی کی مدتوں سے سب سے مارکیٹ رہا ہے۔ اب تو پاکستانی کرنسی کو دہلی تک ہر شہر میں ہاتھوں ہاتھوں لیا جاتا ہے، اسی طرح لاہور کے کسی بھی کرنسی ڈیلر سے بھارتی کرنسی تبدیل کرائی جا سکتی ہے۔ اب سفری دستاویزات اور پرمٹ کے حصول کے طریق کار کو مزید آسان بنانے کے لیے خاموشی سے کام جاری ہے، ویسے اس وقت دہلی اور اسلام آباد کی بیش قیمت کمرشل اور رہائشی جائیدادوں کے مالکان کشمیری ہیں۔ اس طرح دونوں حصوں میں کشمیری اشرافیہ نے اس انسانی المیے کو بھی اپنے لیے نفع بخش کاروبار بنا لیا ہے۔

مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اس تنازعے کے آغاز ہی سے مختلف فارمولے زیر بحث رہے ہیں۔ چناب فارمولا تو پاک و ہند کے قدیم اور معتبر انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کے قتل کا باعث بن گیا تھا۔ جس میں دریائے چناب کو قدرتی سرحد تسلیم کر کے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اس خبر کی اشاعت پر ہمارا پریس آگ بگولا ہو گیا تھا۔ سارے پاکستان کے اخبارات میں صفحہ اول پر مشترکہ اداریہ شایع کیا گیا جس میں سول اینڈ ملٹری گزٹ کو چناب فارمولا پر مبنی خبر شایع کرنے کے جرم میں بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا جسے اس وقت کی حکومت نے تسلیم کر کے سول اینڈ ملٹری گزٹ کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔

یہ کہانی پرانے زمانے کے ایک شاندار ایڈیٹر مولوی سعید نے اپنی نادر و نایاب کتاب ’’آہنگ بازگشت‘‘ میں تفصیل سے بیان کی ہے جس کے مطابق سول اینڈ ملٹری گزٹ پر غداری کے جرم میں پابندی لگانے کے ناروا مطالبے کے پیش کاروں میں دائیں اور بائیں بازوں کی محترم شخصیات شامل تھیں۔ یوں وطن عزیز کا دایاں اور بایاں بازو‘ معتبر اور محترم شخصیات نے باہم مل کر ایک اخبار کا قتل کرا دیا۔ آہنگ بازگشت‘ تحریک پاکستان پر معتبر کتاب ہے جسے نا معلوم وجوہات کی بنا پر ہم نے طاق نسیاں میں پھینک دیا ہے۔ مولوی سعید لکھتے ہیں کہ مولانا چراغ حسن حسرت نے چناب فارمولا پر مبنی خبر شایع کرنے کے جرم میں سول اینڈ ملٹری گزٹ پر پابندی لگانے کا مشترکہ اداریہ شایع کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن وہ بھی صرف ایک دن یہ دبائو برداشت کر سکے تھے اور انھیں بھی اگلے روز یہ اداریہ شامل کرنا پڑا تھا ۔

جنرل پرویز مشرف‘ ہر آمر مطلق کی طرح بڑے بلند عزائم لے کر تخت پر قابض ہوئے تھے، وہ بھی جنوبی ایشیا کے خطے کی تقدیر بدلنا چاہتے تھے۔ سنہ 2000ء میں کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے برطانوی اشرافیہ نے مختلف فارمولوں کی نقش گری شروع کی تو بی بی سی نے متوقع فارمولا کو بڑی اہمیت دیتے ہوئے درجن بھر فارمولے مع تفصیلات بحث کے لیے پیش کر دیے۔ بعدازاں جب کشمیر سے جڑے ہوئے دانشوروں اور سفارت کاروں نے اسی طرح کی تفصیلات بیان کرنا شروع کیں تو مجھے بھی حضرت میاں میر کے دربار پر ملنے والے مجذوب یاد آئے۔

جس نے مجھے کہا تھا ’’کشمیریوں کے لیے کوئی سرحد نہیں رہے گی، کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ یہ لکھا جا چکا ہے، چند سالوں میں وہ آسانی سے آر پار جایا کریں گے لیکن پاکستان اور بھارت میں کچھ نہیں بدلے گا‘‘۔

19جون‘ 2001ء کو اس کالم نگار کی مشرق وسطیٰ کے موقر انگریزی اخبار ’’گلف نیوز‘‘ میں کشمیر کی اندرونی خود مختاری کے حوالے سے طویل تجزیاتی خبر شایع ہوئی۔ اس مجذوب کے ارشادات سو فیصد حقیقت بن چکے ہیں۔ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر باڑ لگائی ، صرف چند ہفتے بعد اس میں پانچ مقامات پر خود شگاف لگا کر راستے بنائے، اندرونی خود مختاری کے فارمولے کو سب سے بڑی قباحت دونوں ممالک کے آئین ہیں جن میں ترامیم ضروری ہیں جو موجودہ زمینی حقائق اور حالات کی وجہ سے ممکن نہیں ہے۔ ہمارے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اب مکمل آزاد و خود مختار کشمیر کا بند دروازہ کھول رہے ہیں جو پاکستان کے مسلمہ اور مصدقہ تاریخی موقف کے بالکل برعکس ہے۔ اقوام متحدہ کی تمام قرار دادوں میں کشمیری عوام کو بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کا چنائو کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ،خود مختاری کا کوئی آپشن نہیں دیا گیا۔

کشمیر کا مسئلہ تو دربار حضرت میاں میر کے مجذوب کے بتائے گئے نکات کے مطابق بتدریج حل ہوتا جا رہا ہے لیکن ہم اپنے بے سرے ڈھول بچائے جا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔