نگران وزیراعظم کون ہو گا؟

نصرت جاوید  جمعرات 7 فروری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

چند روز پہلے صدر زرداری پاکستان ٹیلی وژن کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے اسلام آباد اسٹوڈیوز آئے۔ تقریب کے اختتام پر اپنے دفتر کے لیے روانہ ہونے سے پہلے وہ صحافیوں کے وہاں موجود ایک مختصر سے گروپ کے پاس بھی آئے۔ مقصد ان کا رسمی سی ہیلو ہائے کرنا تھا۔ مگر ہم رپورٹر لوگ خبر ڈھونڈنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ میں نے بھی دائو لگانے کی کوشش کی اور طنزاََ یہ پوچھ لیا کہ آج کل وہ حسین ہارون کی ’’درگت کیوں بنوا‘‘ رہے ہیں۔ وہ میرا سوال اور اس میں چھپا طنز سمجھ نہ سکے۔ قمر زمان کائرہ نے انھیں سرگوشی میں بتایا کہ میرا اشارہ اخباروں میں پھیلی ان خبروں کی جانب ہے جو دعویٰ کر رہی ہیں کہ عبداللہ حسین ہارون عبوری حکومت کے وزیر اعظم کے لیے بڑے تگڑے امیدوار بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ کائرہ صاحب کی بات یہاں تک تو درست تھی۔ مگر ان سے کہیں زیادہ میرے ذاتی علم میں یہ خبر ہے کہ صدر زرداری آج کل حسین ہارون کے بارے میں کچھ مایوس سا محسوس کرتے پائے جا رہے ہیں۔

ایوان صدر پہنچ جانے کے بعد انھوں نے بڑے چائو اور اشتیاق سے کراچی کے اس مشہور خاندان کے سپوت کو پاکستان کا مستقل مندوب بنوا کر نیویارک بھیجا تھا۔ وزارتِ خارجہ کے افسر مگر ان کے انتخاب سے اتنا خوش نہ ہوئے۔ ان افسروں کی اپنی اولاد بھی ہیں جو اب کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلوں کی منتظر ہیں۔ ابو کی پوسٹنگ نیویارک ہو جائے تو اس ضمن میں گویا لاٹری نکل آتی ہے اور اس بات کے روشن امکانات بھی کہ صاحب اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے بچوں کے پاس نیویارک کے اسی فلیٹ میں منتقل ہو جائیں گے جو انھوں نے اپنی نوکری کے دوران لیز پر لیا تھا۔ ’’نان کیرئر لوگ‘‘ نیویارک اور وہ بھی اقوام متحدہ میں پوسٹ ہو کر ان روشن امکانات کا راستہ روک دیتے ہیں۔ ان کے بارے میں جلن سمجھ میں آتی ہے۔

لہذا میں یہ سرگوشیاں سن کر ہرگز حیران نہ ہوا جو ہماری فارن سروس کے کچھ ’’سینئر بابو‘‘ حسین ہارون کے بارے میں تواتر سے پھیلاتے رہے ہیں۔ ان بابوئوں کی جلن ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ ہماری قومی سلامتی امور کے کچھ نگہبانوں نے بھی اس بات پر بڑی تشویش کا اظہار شروع کر دیا کہ مختلف ملکوں کے بڑے لذیذ اور منفرد نوعیت کے کھانے خود اپنے ہاتھ سے بنا کر لوگوں کو کھلا کر خوش ہونے والے حسین ہارون کچھ ایسے ملکوں کے نیویارک میں مقیم سفارتکاروں کے بہت قریب ہو رہے ہیں جنھیں راولپنڈی میں Hostile ممالک سمجھا جاتا ہے۔ میری حسین ہارون سے کوئی دوستی نہیں۔ صرف تھوڑی سی واقفیت ہے۔ پھر بھی پریشان نگہبانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ حسین ہارون کی جن باتوں پر اعتراض کیا جا رہا ہے، انھیں تو سفارتکاری کی دنیا میں “Aggressive Diplomacy” کا نام دے کر بڑا سراہا جاتا ہے۔ میری ایسی باتیں نگہبانوں کی سمجھ میں نہیں آتیں اور 2010ء کے وسط سے حسین ہارون بھی ایسی باتوں سے ’’دِق‘‘ ہونا شروع ہو گئے۔

جب بھی صدر سے بات کرتے تو ’’میری جند چھوڑئیے‘‘ جیسے مطالبے کرتے۔ صدر زرداری کو 2012ء کے شروع میں خیال آیا کہ بھارت کے ساتھ خاموش سفارتکاری کے ذریعے روابط استوار کرنے کا ایک بھرپور سلسلہ شروع کیا جائے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ حسین ہارون نیویارک سے وطن لوٹ کر یہ سلسلے بڑھانے میں کوئی کردار ادا کریں۔ مگر حسین ہارون اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانے کے بعد سندھ کے قوم پرستوں کے ساتھ مل کر دہرے بلدیاتی نظام کے خلاف دھواں دھار تقریریں کرنا شروع ہو گئے۔ صدر زرداری نے ان کے بارے میں جو منصوبے بنائے تھے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے مگر چوہدری شجاعت حسین کو یاد دلوایا گیا کہ حسین ہارون کا تعلق تو تحریک پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے معروف خاندان سے ہے۔ کیوں نہ ان کو اس عبوری حکومت کا وزیر اعظم بنا دیا جائے جو آیندہ انتخاب کرانے کے لیے بنائی جانی ہے۔ چوہدری صاحب نے اپنے صحافتی دوستوں کے ذریعے یہ نام میڈیا میں بھی چلوا دیا۔

مگر مجھے پورا یقین تھا کہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ پائے گی۔ اسی لیے ٹی وی کیمروں کے سامنے صدر زرداری سے قطعی جواب حاصل کرنے کے لیے اس کا ذکر کر دیا۔ ایسا کرتے ہوئے البتہ میں یہ بھول گیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد موصوف تو مکمل رازداری سے رشتہ استوار کیے بیٹھے ہیں۔ اسی لیے بجائے میرے سوال کا واضح جواب دینے کے وہ یہ کہہ کر اس تقریب سے رخصت ہو گئے کہ کسی صحافی کو بھی تو عبوری وزیر اعظم بنایا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ فقرہ جب ٹی وی اسکرینوں پر چلا تو میرے چند ’’خیر خواہ‘‘ بہت خوش ہوئے۔ کئی ایک نے تو مبارک بھی دے ڈالی اور ایسا کرتے ہوئے یہ بات یاد نہ رکھی کہ میں بڑی سنجیدگی سے اپنے بارے میں کسی سیاسی عہدے کے لیے وہی محسوس کرتا ہوں جو دیہات کے ایک کمّی کی ماں نے کہا تھا۔ وہی بات کہ ’’چاہے سارا گائوں مر جائے بیٹا تیرے پٹواری بننے کا کوئی چانس نہیں‘‘۔ شاید اپنا کوئی چانس نہ دیکھتے ہوئے میں اکثر لوگوں کے سامنے یہ منافقانہ بڑھک بھی مارتا رہتا ہوں کہ میں محض ایک رپورٹر کے طور پر ہی مرنا چاہتا ہوں۔

مجھے اور میرے سیانے دوستوں کو پوری طرح پتہ تھا کہ صدر زرداری نے صحافی والا فقرہ ازراہِ تفنن کہا تھا۔ یہ فقرہ ادا کرتے ہوئے وہ حسین ہارون کے بارے میں کوئی قطعی بات کہنے سے بھی کنی کترا گئے۔ رات گزرنے کے ساتھ بات بھی ختم ہو جانا چاہیے تھی۔ مگر گزشتہ تین دنوں سے اسلام آباد میں اچانک یہ افواہ بڑی تیزی سے گردش کرنا شروع ہو گئی ہے کہ میرے ایک بڑے ہی معروف اور سینئر صحافی دوست آیندہ کچھ ہفتوں میں منظرِ عام پر آنے والی عبوری حکومت کے وزیر اعظم ہو سکتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ان کا نام آج کل ایک بہت ہی موثر سمجھے جانے والے فرد کی جانب سے چلایا گیا ہے اور اسی شخصیت کے اصرار پر انھوں نے کینیڈا سے آئے قادری اور عمران خان کے اپنے ٹی وی پروگرام کے لیے بڑے ’’دوستانہ‘‘ انٹرویو بھی کیے ہیں۔ جس صحافی شخصیت کا ذکر ہو رہا ہے وہ میرے بھائیوں کی مانند ہیں۔ مگر ایک رپورٹر کے طور پر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ حسین ہارون کی طرح نام ان کا بھی اس ضمن میں نہیں چل پائے گا۔ چوہدری نثار اگر پاکستان مسلم لیگ قاف اور ایم کیو ایم کی جانب سے کینیڈا سے آئے قادری کی گرم جوش پذیرائی سے چراغ پا نہ ہو جاتے تو اب تک اس وزیر اعظم کا نام ہمارے سامنے آ چکا ہوتا جس پر وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے درمیان مکمل اتفاق ہے اور سنا ہے کہ عسکری قیادت کو بھی اس نیک نام پر کوئی اعتراض نہیں۔ شنید ہے کہ اگر بالآخر فخر الدین جی ابراہیم پر یہ معاملہ چھوڑ دیا گیا تو ان کی پہلی ترجیح بھی وہی نام ہو گا۔ باقی سب وقت کا ضیاع ہے اور اس امر کے ٹھوس اشارے بھی کہ اصل منصوبہ قلیل مدتی کے بجائے تین سالوں کے لیے ’’اہل، دیانتدار اور محب وطن‘‘ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کو لانا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔