فوج کو معاف ہی کر دیں

عبدالقادر حسن  جمعرات 20 جولائی 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سیاست سے ریاست زیادہ اہم ہوتی ہے یہ بات ہمارے سیاستدان آج تک نہیں سمجھ سکے، انھوں نے ہمیشہ ریاست پر اپنی سیاست کو فوقیت دی جس کا خمیازہ وہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ستر سالوں کے دوران مسلسل بھگت رہے ہیں اور نہ جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا کہ سیاست میں جب مفادات اہم ہو جائیں تو ریاست پیچھے چلی جاتی ہے اور مفادات جیت جاتے ہیں لیکن سیاستدانوں کی یہ روش نہ صرف ریاست کے لیے خطرناک ہوتی ہے بلکہ وہ خود بھی اپنے مفادات کی وجہ سے حالات کا  شکار ہو جاتے ہیں اور اپنی وہ پوزیشن کھو بیٹھتے ہیں جو کہ انھوں نے سیاست کے میدان میں حاصل کی ہوتی ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ وہ اپنے ہی پیدا کردہ حالات سے سبق سیکھنے کے بجائے اپنی غلطیاں دہراتے رہتے ہیں اور پھر اس کا ذمے دار نادیدہ طاقتوں کو ٹھہراتے ہیں اور یہ نہیں بتاتے کہ وہ نادیدہ طاقتیں کون ہیں، صرف الزامات کی تکرار ہوتی ہے اور حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا بلکہ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ کچھ ایسی خفیہ ظالم طاقتیں ہیں جو ان کے ہمیشہ درپے رہتی ہیں اور سیاستدانوںکا مبینہ شکار ان نادیدہ طاقتوں کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔

ریاست اداروں کے سہارے چلتی ہے اور اس کی بنیادیں تب تک ہی مضبوط رہتی ہیں جب تک اس کے اہم ادارے اپنا کام غیر جانبداری اور ایمانداری سے انجام دیتے رہیں اور ان کی مضبوطی حکمرانوں کی ذمے داری ہوتی ہے ۔ ریاستی ادارے ملک کے آئین کے تابع رہ کر کام کر نے کے پابند ہوتے ہیں اور اگر وہ ادارے اس سے ہٹ کر کام کریں تو ریاست کی بنیادیں کمزور اور اس میں دراڑیں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں ملک میں انتشار کی کیفیت ہو جاتی ہے ۔

ہمارے ملک کی ستر سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سیاست کے ان کھوٹے سکوں نے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے مورد الزام ریاست کے اہم ترین اداروں کو ٹھہرایا اور اپنی گردن بچا لی اور سازشوں کا ذکر تو برملاء کیا لیکن ان سازشوں اور رازوں کی حقیقت سے پردہ اٹھانا پسند نہ کیا ۔ موجودہ ملکی حالات میں ایک بار پھر اسی بات کی تکرار کی جا رہی ہے کہ موجودہ حکومت کو اقتدار سے برخاست کرنے کی سازش کہیں اور کی جارہی ہے اور اس کا اسکرپٹ کوئی اور لکھ رہا ہے ۔

اس طرح کی سیاسی گفتگو اور الزامات سیاسی بیان تو ہو سکتے ہیں لیکن ان میں صداقت کا عنصر نہیں ہوتا کہ جن طاقتوں کی جانب سیاستدان اشارہ کر رہے ہوتے ہیں وہی اس ملک کی سلامتی کی ضامن بھی ہیں ۔پاک فوج کے ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ کہا ہے کہ پاک فوج کا پانامہ کیس کے سلسلے میں کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہی وہ سازش کے الزام کا جواب دینا مناسب سمجھتے ہیں ۔ پاک فوج کا جے آئی ٹی سے تعلق ہے اور نہ ان کے کام میں براہ راست مداخلت کی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاک فوج تمام اداروں کے ساتھ مل کر آئین و قانون کی عملداری یقینی بنائے گی اور جے آئی ٹی میں شامل پاک فوج کے دو نمایندوں نے اپنا کام ایمانداری سے سر انجام دیا۔ پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے اس وضاحت کی ضرورت پیش ہی نہیں آنی چاہیے تھی کہ وہی تو ایک ادارہ ہے جس پر پاکستانی عوام اعتبار کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کو کسی بھی مشکل  صورت میں فوج ہی اسے مشکلات سے نکال سکتی ہے اور پاکستانی عوام کی اکثریت اپنی فوج سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں ۔

یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے پاک فوج جیسے اہم ترین ادارے کو بھی بالواسطہ  اس میں ملوث کرنے کو کوشش کی جا رہی ہے  پنجابی کی ایک مثال یاد آرہی کہ ’’ کہنیاں دِھی نوں تے سنانیاں نونھ نوں‘‘ مطلب کہ بہو تک اپنے جذبات پہنچانے کے لیے اس کے سامنے اپنی ہی بیٹی کو ڈانٹا

جاتا ہے تا کہ بہو بھی سن لے اور اس ڈانٹ کا اثر لے ۔ اسی طرح کے معاملات طوائف الملوکی کا شکار حکومت کے نورتن بھی اپنے بیانوں سے کر رہے ہیں حالانکہ اس وقت سیاسی حکومت کو فہم و فراست اور بردباری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ سیاست زندہ رہے ۔ ہم فوجی حکومتیں اور ان کا انداز حکمرانی بہت دفعہ دیکھ چکے ہیں، فوج نے  تب ہی اس ملک پر حکمرانی کے مزے لوٹے جب  ان کو سیاستدانوں نے ہی موقع دیا ۔ سیاستدانوں نے چونکہ موجودہ ملکی نظام کو سرمایہ دارانہ نظام میں تبدیل کر دیا ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کا زندہ رہنا دشوار ہو چکا ہے اوراس نظام کو برداشت کرنا مشکل کیا بلکہ ناممکن ہو گیا ہے ۔

محترم سراج الحق نے بھی کہا ہے کہ اس نظام کو برداشت کرنے والا اور اس سے بغاوت نہ کرنے والا منافق ہو گا ۔ یہ حالات کوئی راتوں رات پیدا نہیں ہو گئے ہمارے حکمرانوں نے اپنی نسل در نسل حکمرانی کرتے ہوئے ہمیں ان حالات تک پہنچایا ہے اور اپنی نسل در نسل حکمرانی کو قائم رکھنے کے لیے اس ملک کے اہم اداروں کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کر دیا گیا ہے جس سے شاید ان کے اقتدار اور سیاست کو تو کچھ فائدہ پہنچ جائے مگر اس میں ملک کا بہت بڑا نقصان ہے ۔ اس طرح کے رویوں کو تبدیل کر کے اپنی حکومت کو بچانے کے لیے اس طرح کی بیساکھیوں کے سہارے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ فوج عوام کی ہے اور فوجی ہم میں سے ہیں اور عوام کے وفادار ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔