’’زون آف ڈیتھ‘‘

ندیم سبحان میو  جمعـء 21 جولائی 2017
ہنوز ’’زون آف ڈیتھ‘‘ کے خاتمے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ فوٹو : فائل

ہنوز ’’زون آف ڈیتھ‘‘ کے خاتمے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ فوٹو : فائل

جرائم پیشہ افراد جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے وہ قانون کی گرفت میں آنے سے محفوظ رہ سکیں۔ مگر معاملہ جب قتل جیسے سنگین ترین جرم کا ہو تو نہ پکڑے جانے کے امکانات محدود ہوجاتے ہیں جب تک کہ یہ جرم ’’زون آف ڈیتھ‘‘ میں نہ کیا گیا ہو! ’زون آف ڈیتھ‘ امریکا میں واقع یلواسٹون نیشنل پارک کا ایک دور افتادہ حصہ ہے جہاں کوئی کسی کو قتل کرنے اور اس جرم کا برملا اعتراف کرنے کے باوجود قانون کی گرفت میں آنے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

یہاں ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ علاقہ جو نیشنل پارک ہی کی حدود میں ہے قانون کی عمل داری سے کیونکر باہر ہے؟ یہ علاقہ 2004ء میں مشی گن اسٹیٹ یونی ورسٹی میں قانون کے پروفیسر برائن کالٹ نے دریافت کیاتھا۔ برائن ایک آرٹیکل کے لیے دل چسپ موضوع کی تلاش میں تھا۔ اس کی توجہ کوئی ایسا قانونی سقم تلاش کرنے پر تھی جس پر لکھا گیا مضمون عوام الناس کی توجہ حاصل کرے۔

اس دوران یلواسٹون نیشنل پارک کی غیر معمولی قانونی نوعیت کے بارے میں اسے علم ہوا۔ تحقیق پر یہ بات اس کے علم میں آئی کہ نیشنل پارک اگرچہ تین ریاستوں کی حدود میں واقع ہے مگر اس پر ایک ہی ریاست کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ یہ جانتے ہی پروفیسر کے ذہن میں فوراً خیال آیا کہ یہاں قتل جیسے جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد قانون کی پکڑ میں آنا ناممکن ہوگا۔

تمام نیشنل پارکوں کی طرح یلواسٹون نیشنل پارک بھی وفاق کی ملکیت ہے اس پارک کا زیادہ تر حصہ ریاست وائیومنگ میں ہے۔ بہت مختصر حصہ ایڈاہو اور مونٹانا کی حدود میں آتا ہے۔ عام افراد کے لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی مگر برائن کالٹ جیسا تجربہ کار وکیل فوراً جان گیا کہ یہاں ایک بہت بڑا قانونی سقم موجود ہے۔

امریکی آئین کی دفعہ iii کے تحت فیڈرل کریمنل ٹرائل اسی ریاست ہوسکتا ہے جہاں جرم کا ارتکاب ہوا ہو مگر چھٹی ترمیم کی رو سے ملزم کے خلاف مقدمے کی کارروائی کرنے والی جیوری اس ضلعے اور ریاست کے رہائشی افراد پر مشتمل ہونی چاہیے جہاں جرم کا ارتکاب ہوا ہے۔ اس صورت میں اگر جرم پارک کے50 مربع میل پر مشتمل اس حصے میں ہوا ہے جوایڈاہو کی حدود میں واقع ہے تو کیا ہوگا؟ کالٹ کے مطابق اس صورت میں جیوری کی تشکیل ناممکن ہوگی ۔

کالٹ جیسے جیسے نیشنل پارک کی جغرافیائی حدود اور متعلقہ قوانین کی گہرائی میں اترتا گیا ویسے ویسے اس کی دل چسپی بڑھتی چلی گئی۔ بالآخر تمام تفصیلات حاصل کرلینے کے بعد اس نے ایک مضمون لکھنے کا فیصلہ کیا مگر ایک مشکل درپیش تھی اسے ڈر تھا کہ یہ مضمون پڑھنے کے بعد کوئی کسی کو اس علاقے میں لے جاکر قتل بھی کرسکتا تھا۔ چناںچہ مضمون کی اشاعت سے قبل کالٹ نے اس کی نقول محکمہ انصاف، وائیومنگ میں یو ایس اٹارنی، ایوان نمائندگان اور سینیٹ کی قانونی کمیٹیوں کو ارسال کردیں۔ اسے امید تھی کہ اسے پڑھنے کے بعد اس بڑی قانونی خامی کو دور کردیا جائے گا اور اس کے مضمون کی اشاعت ممکن ہوسکے گی۔

متعلقہ اداروں کو اس ضمن میں قانون سازی کے لیے کالٹ نے تجویز بھی دے دی تھی کہ یلواسٹون نیشنل پارک کو تین وفاقی اضلاع میں تقسیم کردیا جائے اور ہر ریاست پارک کے اپنی حدود میں آنے والے علاقے میں جرائم کے ارتکاب پر قانونی کارروائی عمل میں لانے کی مجاز ہو۔ مگر کالٹ کی تجویز پر کسی نے کان نہیں دھرا۔ بالآخر مایوس ہوکر پروفیسر برائن نے اپنا مضمون کئی قومی اور عالمی روزناموں اور جرائد میں شایع کروادیا۔ بعد از اشاعت اس معاملے کا ذرائع ابلاغ میں بہت چرچا ہوا۔ اس مضمون کی بنیاد پر ناول بھی لکھے گئے۔

ہنوز ’’زون آف ڈیتھ‘‘ کے خاتمے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ ذرائع ابلاغ کے رابطہ کرنے پر کچھ سینیٹروں نے اسے افسانہ قرار دیا ور کچھ نے کہاکہ اس میں طویل قانونی پیچیدگیاں ہیں۔ خوش قسمتی سے ابھی تک کسی نے برائن کے مضمون سے متاثر ہوکر زون آف ڈیتھ میں قتل کا ارتکاب نہیں کیا۔ بہ صورت دیگر معاملہ اب تک حل ہوچکا ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔