جے آئی ٹی رپورٹ کی دسویں جلد اور ’’آخری مہم‘‘

علیم احمد  جمعرات 20 جولائی 2017
داستانِ امیر حمزہ کی دسویں جلد یعنی ’’آخری مہم‘‘ میں امیر حمزہ کے علاوہ اُن کے دوستوں، بیٹے اور پوتے کے کارنامے بھی بیان کیے گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

داستانِ امیر حمزہ کی دسویں جلد یعنی ’’آخری مہم‘‘ میں امیر حمزہ کے علاوہ اُن کے دوستوں، بیٹے اور پوتے کے کارنامے بھی بیان کیے گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

آج کل پاناما کیس کی نسبت سے جے آئی ٹی رپورٹ کی ’دسویں جلد‘ کا بہت چرچا ہے اور آئے دن فریقین کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آتا رہتا ہے کہ اِس دسویں جلد کے مندرجات منظرِ عام پر لائے جائیں۔

یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اِس مشہورِ زمانہ ’’دسویں جلد‘‘ میں کیا ہے؟ لیکن جب بھی یہ نام سامنے آتا ہے تو میرے ذہن میں نہ جانے کیوں ’داستانِ امیرحمزہ‘ کی دسویں جلد آجاتی ہے جس کا عنوان ’’آخری مہم‘‘ تھا۔

داستانِ امیر حمزہ میرے بچپن کی یادوں کا ایک اہم حصہ ہے کیونکہ اِس داستان کو صرف میں ہی نہیں بلکہ ہم سب بہن بھائی بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے… اور بار بار پڑھا کرتے تھے۔ نوبت یہ تھی کہ گھر میں داستانِ امیر حمزہ کے مکالمے تک ڈرامائی انداز میں دہرائے جاتے تھے اور ہم بچے اپنے تکیوں کے ’’گرز‘‘ بنا کر اپنے مشترکہ کمرے ہی کو فرضی میدانِ جنگ میں تبدیل کرلیا کرتے تھے۔

ویسے تو داستانِ امیر حمزہ اصلاً بڑوں کے لیے لکھی گئی تھی اور طویل ’’طلسمِ ہوش رُبا‘‘ کے ابتدائی حصے کا درجہ رکھتی تھی لیکن آج سے تقریباً پینتیس (35)، چالیس (40) سال پہلے جناب مقبول جہانگیر نے اُس کی تلخیص کرتے ہوئے اُسے بچوں کے لیے آسان، عام فہم اور دلچسپ پیرائے میں دوبارہ تحریر کیا تھا۔ بچوں کی سہولت کے لیے داستانِ امیر حمزہ ایک جلد کے بجائے دس جلدوں میں تقسیم کی گئی جبکہ ہر جلد تقریباً 200 صفحات پر مشتمل تھی۔

دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ پہلی جلد (بادشاہ کا خواب) میں امیر حمزہ سے شروع ہونے والی کہانی آگے بڑھتے بڑھتے دسویں جلد (آخری مہم) میں امیر حمزہ کے بیٹوں (قباد شہریار، عامر، علم شاہ) اور پوتے (سعد سلطان) تک پہنچ جاتی ہے۔ یعنی اِن دس جلدوں میں امیر حمزہ کی تین نسلوں کے کارناموں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ بھی شریف خاندان کی تین نسلوں پر محیط ہے اور مجھے یقین ہے کہ اِس رپورٹ کی دسویں جلد بھی ’’آخری مہم‘‘ کی طرح بہت خاص ہوگی۔ دیکھیے کہ پردہ غیب سے کیا ظہور ہوتا ہے۔

خیر! اس داستانِ کی دسویں جلد میں بتایا گیا ہے کہ امیرحمزہ کس طرح ’’طلسم نادِر فرنگ‘‘ میں داخل ہونے کے بعد بزرگوں کی عطا کردہ کرامات کی مدد سے بالآخر یہ طلسم فتح کرلیتے ہیں۔ آج سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اگر ایسی دیومالائی کہانیوں میں ہر موڑ پر مددگار بزرگ اور اُن کی خصوصی کرامات موجود نہ ہوں تو ہیرو صاحب کی ساری ہیرو گیری دھری کی دھری رہ جائے گی۔

داستانِ امیر حمزہ کی دسویں جلد یعنی ’’آخری مہم‘‘ میں امیر حمزہ کے علاوہ اُن کے دوستوں، بیٹے اور پوتے کے کارنامے بھی بیان کیے گئے ہیں جبکہ ان ’’احباب‘‘ میں عمرو عیار، علم شاہ، سعد سلطان اور کرب غازی نمایاں طور پر شامل ہیں۔ یہ کارنامے بہت دلچسپ انداز میں تحریر کیے گئے ہیں اور بلاشبہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ (کرب غازی، امیر حمزہ کے دودھ شریک بھائی عادی پہلوان کا بیٹا تھا۔)

یاد دلاتا چلوں کہ داستانِ امیر حمزہ دراصل ’’طلسمِ ہوش رُبا‘‘ کا ابتدائیہ ہے کیونکہ اردو زبان کی اِس طویل ترین داستان کے تمام کردار یہیں (داستانِ امیر حمزہ) میں بتدریج سامنے آتے ہیں۔ جناب مقبول جہانگیر نے مزید دس جلدوں میں بچوں کے لیے طلسمِ ہوش رُبا کی آسان تلخیص بھی مرتب کی تھی۔ یعنی اگر آپ پورا مزا لینا چاہتے ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ داستانِ امیر حمزہ کی پہلی جلد سے لے کر طلسمِ ہوش رُبا کے آخری حصے تک کا مطالعہ ضرور کیجیے۔

پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ اِن ناموں اور کارناموں کو پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ سے ہر گز منسوب نہ کریں بصورتِ دیگر خود ذمہ دار ہوں گے۔

تو اے پیارے قارئین! اگر آپ نے یہ بلاگ صرف اِس چکر میں پڑھا ہے کہ آپ کو جے آئی ٹی رپورٹ کی دسویں جلد کے بارے میں کوئی نکتہ میسر آجائے گا تو آپ کو ہونے والی مایوسی پر میں بالکل بھی معذرت نہیں کروں گا کیونکہ میرا مقصد بھی یہی تھا کہ ’’دسویں جلد‘‘ کی جاری شہرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مطالعے کا شوق بڑھانے کی ایک کوشش کی جائے۔

ہوسکتا ہے کہ پورا بلاگ پڑھنے کے بعد آپ اس ناچیز بلاگر کو ’’سرّی اور اعلانی‘‘ بُرا بھلا کہہ رہے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو اس طرزِ عمل پر میرا جواب صرف یہی ہوگا،

’’آپ بھی ناں!‘‘

ارے بھائی یہ دنیا سیاستِ دوراں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے، ذرا پاناما کیس اور جے آئی ٹی رپورٹ سے نظریں ہٹائیے اور اِدھر اُدھر دیکھ لیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے  مختصر  مگر جامع  تعارف  کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔

علیم احمد

علیم احمد

بلاگر 1987ء سے سائنسی صحافت کررہے ہیں، ماہنامہ گلوبل سائنس سے پہلے وہ سائنس میگزین اور سائنس ڈائجسٹ کے مدیر رہ چکے ہیں، ریڈیو پاکستان سے سائنس کا ہفت روزہ پروگرام کرتے رہے ہیں۔ آپ ورلڈ کانفرنس آف سائنس جرنلسٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے صحافی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔