بیتُ اللہ؛ پہلا وہ گھر خدا کا !

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی  جمعـء 21 جولائی 2017
یہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے زمین پر بنایا۔ فوٹو : فائل

یہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے زمین پر بنایا۔ فوٹو : فائل

بیتُ اللہ، اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جس کا حج اور طواف کیا جاتا ہے۔ اس کو کعبہ بھی کہتے ہیں۔

بیت اللہ مسجد حرام کے وسط میں واقع ہے اور قیامت تک یہی مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ یہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے زمین پر بنایا۔ بیت اللہ کی اونچائی چودہ میٹر ہے جب کہ چوڑائی کم و بیش بارہ میٹر ہے۔ بیت اللہ کے ایک کونے پر حجر اسود لگا ہوا ہے، اسی کے سامنے سے طواف شروع کیا جاتا ہے۔ دوسرے کونے کا نام رکن عراقی ہے جہاں سے حطیم شروع ہوتا ہے۔ تیسرے کونے کا نام رکن شامی ہے جہاں حطیم ختم ہوجاتا ہے۔ تیسرے کونے کو رکن یمانی کہا جاتا ہے۔ بیت اللہ کے اندر تین ستون ہیں۔ کعبہ کے اندر رکن عراقی کے پاس سیڑھیاں ہیں جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ بیت اللہ پر پہلی نظر پڑنے پر جو دعا مانگی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔

قبیلۂ بنی شیبہ مکہ مکرمہ کا ایک مشہور خاندان ہے۔ عرصۂ دراز سے بیت اللہ کی چابی اسی خاندان کے سربراہ کے پاس رہتی ہے۔ ہجرت سے قبل خانۂ کعبہ کی کنجی اسی خاندان کے ایک فرد حضرت عثمان بن طلحہؓ کے پاس رہا کرتی تھی جو اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔

بیت اللہ پیر اور جمعرات کے دن کھولا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ تشریف لائے اور حضرت عثمان بن طلحہ ؓ سے بیت اللہ کا دروازہ کھولنے کو فرمایا، تو حضرت عثمان بن طلحہ ؓ نے دروازہ کھولنے سے انکار کردیا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم : اے عثمان! آج تم یہ دروازہ کھولنے سے انکار کررہے ہو، ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ بیت اللہ کی یہ کنجی میرے قبضے میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا یہ کنجی دوں گا۔ حضرت عثمان بن طلحہ ؓ نے کہا تو کیا اُس دن قوم قریش ہلاک ہوچکی ہوگی؟

پھر جب  مکہ مکرمہ فتح ہوا اور سیدالانبیاء و سید البشر حضرت محمد مصطفی ﷺ کسی جنگ و جدل کے بغیر مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو سب سے پہلے بیت اللہ میں تشریف لائے اور کلید بردار حضرت عثمان بن طلحہ ؓ سے کہا: لاؤ وہ کنجی میرے حوالے کردو۔ حضرت عثمان بن طلحہ ؓنے وہ چابی حضور اکرم ﷺ کے سپرد کردی۔ رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کنجی لے کر حضرت عثمان بن طلحہ ؓسے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا : کنجی رکھو، میں بھی تم ہی کو کلید بردار مقرر کرتا ہوں، یہ کنجی میں صرف تم کو نہیں دے رہا ہوں بل کہ تمہاری نسلوں کے حوالے کررہا ہوں، تم سے کوئی ظالم ہی یہ کنجی لے گا۔

حضرت عثمان بن طلحہ ؓ نے جب دوبارہ کنجی لی تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: عثمان! وہ دن یاد ہے جب میں نے تم سے بیت اللہ کی کنجی طلب کی تھی اور تم نے دروازہ کھولنے سے انکار کردیا تھا، اور میں نے کہا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ یہ کنجی میرے قبضے میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا، دوں گا۔ حضرت عثمان بن طلحہ ؓ نے کہا: ہاں حضور، مجھے یاد ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسولؐ ہیں۔ اس وقت سے لے کر آج تک بیت اللہ کی کنجی اسی خاندان کے سربراہ کے پاس رہتی ہے۔ بنو شیبہ خاندان میں سے جو شخص سب سے زیادہ عمر رسیدہ ہوتا ہے اللہ کے مقدس گھر کی کنجی اسی کے پاس رہتی ہے۔

بیت اللّٰہ کی تعمیر: بیت اللہ کی مختلف تعمیریں ہوئی ہیں، چند مشہور تعمیریں حسب ذیل ہیں: ٭ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل سب سے پہلے اس کی تعمیر فرشتوں نے کی۔ ٭ حضرت آدم علیہ السلام کی تعمیر۔ ٭ حضرت شیث علیہ السلام کی تعمیر۔ ٭ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے صاحب زادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر کعبہ کی از سر نو تعمیر کی۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی بیت اللہ کی تعمیر کو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں اس واقعہ کو ذکر کیا ہے، مفہوم : ’’ اس وقت کا تصور کرو جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور اسماعیل بھی (ان کے ساتھ شریک تھے اور دونوں یہ کہتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے پروردگار! ہم سے (یہ خدمت) قبول فرمالے۔ بے شک تُو، ہر ایک کی سننے والا، ہر ایک کو جاننے والا ہے۔ (سورۃ البقرۃ )

٭ عمالقہ کی تعمیر۔ ٭ جرہم کی تعمیر (یہ عرب کے دو مشہور قبیلے ہیں) ٭  قصی کی تعمیر جو حضور اکرم ﷺ کی پانچویں پشت میں دادا ہیں۔ ٭ قریش کی تعمیر، اس وقت نبی اکرم ﷺ  نے اپنے ہی دست مبارک سے حجر اسود کو بیت اللہ کی دیوار میں لگایا تھا۔ ٭ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حطیم کے حصے کو کعبہ میں شامل کرکے کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی اور دروازے کو زمین کے قریب کردیا، نیز دوسرا دروازہ اس کے مقابل دیوار میں قائم کردیا تاکہ ہر شخص سہولت سے ایک دروازے سے داخل ہو اور دوسرے دروازے سے نکل جائے۔ حضور اکرم ﷺ کی خواہش بھی یہی تھی۔ ٭ حجاج بن یوسف نے کعبہ کو دوبارہ قدیم طرز کے موافق کردیا، یعنی حطیم کی جانب سے دیوار پیچھے کو ہٹادی اور دروازہ اونچا کردیا، دوسرا دروازہ بند کردیا۔ ٭  سلطان احمد ترکی نے چھت بدلوائی اور دیواروں کی مرمت کی۔ ٭ سلطان مراد کے زمانے میں سیلاب کے پانی سے بیت اللہ کی بعض دیواریں گرگئیں تھیں تو سلطان مراد نے ان کی تعمیر کرائی۔

غلاف کعبہ: بیت اللہ شریف جو بے حد واجب التعظیم عبادت گاہ اور متبرک گھر ہے، اسے ظاہری زیب و زینت کی غرض سے غلاف پہنایا جاتا ہے۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ سب سے پہلے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پہلا غلاف چڑھایا تھا۔ اس کے بعد عدنان نے کعبہ پر غلاف چڑھایا تھا جو نبی اکرم ﷺ کے بیسویں پشت میں دادا ہیں۔ یمن کے بادشاہ (تبع الحمیری) نے ظہور اسلام سے سات سو سال قبل کعبہ پر غلاف چڑھایا۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ حضور اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے دن یمن کا بنا ہوا کالے رنگ کا غلاف کعبہ شریف پر چڑھایا۔ آپ ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سفید کپڑا چڑھایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی اپنی خلافت کے زمانے میں نئے نئے غلاف بیت اللہ (کعبہ) پر چڑھائے۔ بنو امیہ کے اقتدار کے زمانے میں اور پھر بنو عباس کے زمانے میں بھی یہ سلسلہ باقاعدہ جاری رہا۔

حطیم: یہ دراصل بیت اللہ ہی کا حصہ ہے، لیکن قریش مکہ کے پاس حلال مال میسر نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے تعمیر کعبہ کے وقت یہ حصہ چھوڑ کر بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کعبہ شریف میں داخل ہوکر نماز پڑھنا چاہتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ میرا ہاتھ پکڑ کر حطیم میں لے گئے اور فرمایا: جب تم بیت اللہ (کعبہ) کے اندر نماز پڑھنا چاہو تو یہاں (حطیم میں) کھڑے ہوکر نماز پڑھ لو، یہ بھی بیت اللہ شریف کا حصہ ہے۔ بیت اللہ کی چھت سے حطیم کی طرف بارش کے پانی کے گرنے کی جگہ میزابِ رحمت کہی جاتی ہے۔

حجر اسود: حجر اسود قیمتی پتھروں میں سے ایک پتھر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی روشنی ختم کردی ہے، اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ پتھر مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کردیتا۔ حجر اسود جنت سے اترا ہوا پتھر ہے جو کہ دودھ سے زیادہ سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ۔

مُلتزم: ملتزم کے معنی ہے چمٹنے کی جگہ، حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان ڈھائی گز کے قریب کعبہ کی دیوار کا جو حصہ ہے وہ ملتزم کہلاتا ہے، حضور اکرم ﷺ نے اس جگہ چمٹ کر دعائیں مانگیں تھیں، یہ دعاؤں کے قبول ہونے کی خاص جگہ ہے۔

رکن یمانی: بیت اللہ کے تیسرے کونے کو رکن یمانی کہتے ہیں۔

مقام ابراہیمؑ: یہ ایک پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیمؑ نے کعبہ کو تعمیر کیا تھا، اس پتھر پر حضرت ابراہیمؑ کے قدموں کے نشانات ہیں۔

اللہ تعالٰی ہمیں بھی اپنے اور اپنے حبیبؐ کے گھر کی زیارت سے سرفراز فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔