صدر ممنون کا سفر، عوام کے لیے ’Suffer‘ بن گیا

معاذ احمد  جمعـء 21 جولائی 2017
اتنے بڑے اسٹیشن پر فقط ایک شاندار ٹرین چار ڈبوں اور دو انجنوں کے سائے میں صدر صاحب کے انتظار میں کھڑی تھی۔ دو انجن اِس لئے کہ سفر میں اگر ایک خراب بھی ہو تو دوسرے کی موجودگی کا فائدہ اٹھایا جاسکے۔ فوٹو: ایکسپریس

اتنے بڑے اسٹیشن پر فقط ایک شاندار ٹرین چار ڈبوں اور دو انجنوں کے سائے میں صدر صاحب کے انتظار میں کھڑی تھی۔ دو انجن اِس لئے کہ سفر میں اگر ایک خراب بھی ہو تو دوسرے کی موجودگی کا فائدہ اٹھایا جاسکے۔ فوٹو: ایکسپریس

راقم کو ٹرین سے سفر کی عادت ریلوے سے ایک طویل وابستگی کی وجہ سے ہے اور گزشتہ ایک سال سے لاہور شہر میں قیام نے اِس عادت کو مزید پختہ کیا ہے۔ گزشتہ روز بھی عادت سے مجبور جب میں بہ نفس نفیس اپنے علاقے گجرات کو روانگی کے لیے لاہور اسٹیشن کی طرف روانہ ہوا تو صدرممنون صاحب پاناما ایکشن سے بے خبر یا انجان بن کر نظریں چرائے، لاہور سے راولپنڈی بمعہ اہل و عیال بذریعہ ریل گاڑی سفر کرنے کا مصمم ارادہ کیے بیٹھے تھے۔

حضور پھر کیا تھا، چینلز پر ہیڈلائن چلی کہ،

’’اکثر و بیشتر قومی معاملات میں چُپ کا روزہ رکھنے والی ہستی آج عام عوام کے ہمراہ سفر کرے گی‘‘

مگر حقیقت تو یہ ہے کہ وہاں نہ تو آم تھے اور نہ عوام، تھے تو بس کالی و ہریالی وردی والے بے شمار ’’قانون کے رکھوالے‘‘ بلکہ یوں کہیں ’’صدر ممنون کے رکھوالے‘‘ اور ہاں ’’ہریالی‘‘ اس لئے لکھا کہ آج کل لاہور پولیس کی وردی سبز، جبکہ ریلوے پولیس کی وردی کا رنگ سیاہ ہے۔

پورا اسٹیشن چھاؤنی میں تبدیل ہوچکا تھا، سہ پہر 3 بجے سے شام 5 بجے تک نہ تو کوئی ٹرین لاہور آوے نہ جاوے، یہ تھا حکمِ سرکاراں۔ میں تو خیر اکیلا تھا مگر سینکڑوں افراد اپنے بچوں، ماؤں اور بہنوں کے ہمراہ بے یارو مددگار اُن پلیٹ فارمز پر بھجوا دئیے گئے، جو کئی سال سے استعمال ختم ہونے کی وجہ سے شناختی نمبروں سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ اتنے بڑے اسٹیشن پر فقط ایک شاندار ٹرین چار ڈبوں اور دو انجنوں کے سائے میں صدر صاحب کے انتظار میں کھڑی تھی۔ دو انجن اِس لئے کہ چپ والی سرکار کے سفر میں اگر ایک خراب بھی ہو تو دوسرے کی موجودگی کا فائدہ اٹھایا جاسکے۔

ٹرین پر جلی حروف میں لکھا تھا ’’لاہور تا راولپنڈی‘‘ اور ہماری منزل بھی کہیں اِن دو شہروں کے درمیان تھی۔ اِس بے جا انتظار پر احتجاج کا ارادہ اِس لئے ترک کیا کہ چلو صاحب دیر سے ہی سہی مگر ٹرین تو آئے گی؟ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور صدرِ مملکت کی ’’عام عوام ‘‘ سے لدی ہوئی ٹرین ہوبہو 1947ء میں ’’دہلی سے لاہور‘‘ آنے والی ٹرین جیسا منظر پیش کرتی ہوئی لاہور سے روانہ ہوگئی اور یوں حواس باختہ عوام الناس کی جان میں جان آئی۔ اب ہر مسافر ایک دوسرے کو ٹکٹکی باندھے تک رہا ہے، کہیں ریلوے انتظامیہ سے سوالات، تو کہیں قُلی صاحبان سے لڑائی جھگڑا، ٹرین کہاں ہے؟ کب آئے گی؟ یہ کیا ڈرامہ تھا؟

اِسی ہنگام کے بعد جب میں ریلوے انتظامیہ تک پہنچا تو پتا چلا ممنون صاحب والی ٹرین وہی تھی جس میں آج سفر کی ٹھان کر گھر سے میں بھی نکلا تھا اور یقین جانیے یہ جان کر منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

خیر میرے ساتھ جو گزری سو گزری، اصل بات تو یہ ہے کہ وہاں لوگوں کے ہجوم میں لاری اڈے جانے سے قبل باہر میڈیا کی گاڑیاں دیکھیں۔ ہم بھی اِسی پیشے سے منسلک ہیں مگر بے دردی کی انتہا کہ عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے بجائے ٹی وی چینلز کے کیمروں کا رُخ سوائے پاناما کی سماعت کے کہیں نہیں ہے۔ تبھی تو سوا گز کے فاصلے پر ڈی ایس این جیز کے ہمرا پاناما اور صدر کی ٹرین کا شور تو سنائی دیا مگر ہائے افسوس کہ عوام کی بدحالی، پریشانی اور چیخ وپکار سنائی نہ دی۔ ارے بھئی صدر ممنون کی تفریحی دورے کے بعد اسٹیشن پر رُلنے والی عوام سے کچھ تو پوچھا ہوتا۔

خیر بات کڑوی ہے لیکن سچ یہی ہے کہ یہاں چیخ تبھی نکلتی ہے، جب اپنی دُم پر پاؤں آئے اور آج تو شاید پاؤں کسی انسان کا نہیں ہاتھی کا محسوس ہوا جو تحریر میں غصے، بے قراری اور درد کی صورت عیاں ہوگیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے  مختصر  مگر جامع  تعارف  کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔

معاذ احمد

معاذ احمد

بلاگر ،جرنلزم کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد نجی ٹی وی چینل میں بطور اسسٹنٹ پروڈیوسر کام کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔