زرداری کے لیے سبق

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 22 جولائی 2017
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پیپلزپارٹی بہت عرصے بعد کراچی کے شہری علاقے سے ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوئی۔ پیپلزپارٹی کے پرانے کارکن اور مزدور رہنما سعید غنی نے ایک مقابلے کے بعد انتخاب جیت لیا۔ اگرچہ ایم کیو ایم کی عرضداشت پر الیکشن کمیشن نے پی ایس 114 کے انتخابی نتائج کو معطل کردیا مگر اس ضمنی انتخاب میں 30 فیصد ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ پی ایس 114 ایک طرح کا چھوٹا سا پاکستان ہے اور اس حلقے میں پاکستان کی تقریباً تمام لسانی اکائیاں موجود ہیں جب کہ ہندو اور عیسائی برادری کی بھی ایک بڑی تعداد یہاں مقیم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ 1988ء سے اب تک پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کے امیدوار اس حلقے سے کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس حلقے میں پہلی دفعہ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ کمیشن نے ووٹروں کی شناخت کے لیے بائیومیٹرک سسٹم اور الیکشن کمیشن کو فوری طور پر نتائج ارسال کرنے کے لیے موبائل فون فراہم کیے تھے تاکہ کاؤنٹنگ شیٹ فوری طور پر Whatsapp کردی جائے مگر الیکشن کمیشن نے انتخابات سے چند دن قبل ووٹروں کی تصدیق کے لیے بائیومیٹرک سسٹم استعمال کرنے سے معذرت کرلی۔ الیکشن کمیشن نے بائیومیٹرک سسٹم استعمال نہ کرنے کی ذمے داری قومی شناختی کارڈ بنانے والے ادارے نادرا پر عائد کی۔

نادرا نے الیکشن کمیشن کو اس حلقے کے امیدواروں کا ڈیٹا فراہم نہیں کیا، یوں انفارمیشن ٹیکنالوجی مکمل طور پر استعمال نہ ہوسکی مگر یہ امر حیرت انگیز ہے کہ نادرا نے موبائل فون کمپنیوں کی چھوٹی چھوٹی فرنچائز کو تو اپنے صارف کی تصدیق کے لیے نادرا کے ڈیٹابیس تک رسائی دیدی اور الیکشن کمیشن کو اس ڈیٹابیس سے منسلک ہونے کی اجازت نہیں دی۔ کراچی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی طاہر حسن خان نے اس صورتحال کی وجہ ملٹی نیشنل موبائل کمپنیوں کی نادرا کے عملے کو پرکشش پیشکش قرار دی۔

ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس نادرا کے افسروں کے لیے پرکشش پیشکش نہیں ہے اس بناء پر نادرا کے افسروں کے لیے الیکشن کمیشن سے تعاون کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں تھی۔ بہرحال جب کراچی کے شہری علاقے کے ایک حلقے میں نادرا الیکشن کمیشن کو ڈیٹا فراہم نہیں کرسکتا تو پھر آیندہ قومی اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں کیا توقع کی جاسکتی ہے؟

اس حلقے سے سابق صدر غلام اسحاق خان کے داماد عرفان اللہ مروت کئی دفعہ کامیاب ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرفان اللہ مروت نے 2013ء کے انتخابات میں اس بار مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی مگر الیکشن ٹریبونل نے پی ایس 114 کے انتخابات کو کالعدم قرار دیدیا۔ اعلیٰ عدالتوں نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی، یوں حلقہ 114 میں دوبارہ انتخاب ہوا۔ عرفان اللہ مروت نے چند ماہ قبل پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ انھوں نے سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقاتوں کے طویل دور کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا مگر عرفان اللہ مروت کے ماضی کے کردار کے تناظر میں آصفہ بھٹو نے آواز بلند کی۔

آصفہ بھٹو نے اپنے ٹویٹ میں لکھا تھا کہ عرفان اللہ مروت سابق وزیر اعلیٰ جام صادق کے دور میں پیپلز پارٹی کی خاتون کارکنوں پر تشدد اور توہین آمیز سلوک اختیار کرنے کا ملزم تھا۔ عرفان اللہ مروت پر تحریک پاکستان کے رہنما سردار شوکت حیات کی بیٹی وینا حیات جوکہ بے نظیر بھٹو شہید کی قریبی دوست تھی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات تھے۔

پھر مروت کے احکامات کے تحت پولیس نے پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن (P.S.F) کی خواتین کارکنوں جن میں موجودہ ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا بھی شامل تھیں اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا تھا مگر اب سابق صدر آصف زرداری کی حمایت سے وہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کررہے تھے۔ پہلی دفعہ زرداری خاندان میں بغاوت عوام کے سامنے ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کی دونوں صاحبزادیوں آصفہ اور بختاور نے سوشل میڈیا پر عرفان اللہ مروت کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کی مخالفت کی۔ آصفہ نے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا کہ مروت نے پیپلز پارٹی کی خواتین کارکنوں پر تشدد کرایا تھا اور وہ وینا حیات پر مجرمانہ حملے میں ملوث تھے لہٰذا پیپلز پارٹی میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

اگرچہ آصف زرداری نے مروت کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا دفاع کیا تھا مگر عرفان اللہ مروت مایوس ہوئے اور ان کا رخ تحریک انصاف کی طرف ہوگیا۔ پھر پی ایس 114 کے ضمنی انتخاب کے لیے پیپلز پارٹی نے اپنے پرانے کارکن سعید غنی کا انتخاب کیا ۔ سعید غنی نے جن کا یہ آبائی حلقہ ہے پرانے کارکنوں کو متحد کیا۔ انھیں پیپلز پارٹی کے کارکنوںاور ہمدرردوں کی حمایت حاصل ہوئی۔ سعید غنی کی حمایت میں ٹریڈ یونین کارکن بھی متحرک ہوئے۔ سعید غنی ایک شفاف ماضی رکھتے ہیں۔ وہ سلجھے ہوئے سیاسی کارکن کی طرح ٹاک شوز میں دھیمے انداز میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ اسی بناء پر ان کا امیج پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی انتخابی حکمت عملی بھرپور طریقے سے کامیاب ہوئی۔

سعید غنی کی کامیابی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی پالیسی کے منافی ہے۔ جب سے آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی ہے انھوں نے پیپلز پارٹی کی ہیت کو تبدیل کردیا ہے۔ زرداری اپنے قریبی دوستوں، جاگیرداروں اور بااثر افراد کو مختلف عہدوں پر تعینات کرتے ہیں جن سے حکومت اور پیپلز پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ڈاکٹر عاصم وغیرہ ان کے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی غلط پالیسی کے نتیجے میں لیاری کے گینگسٹر شہر بھر میں پھیل گئے۔

ڈاکٹر عاصم تیل و گیس کی وزارت کے سربراہ بنے تو کک بیک کے الزامات عام ہوئے۔ پھر انھیں سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا سربراہ بنادیا گیا۔ یہ کمیشن کام ہی نہیں کرپایا۔ اب وہ پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر بنادیے گئے ہیں۔ وہ حلقہ پی ایس 114 کے انتخابات میں کہیں نظر نہیں آئے۔ پنجاب میں طویل عرصے تک منظور وٹو کی پنجاب کے صدر کی حیثیت سے سرگرمیاں زرداری کی ناکام ڈاکٹرائن کا نتیجہ تھیں۔ منظور وٹو اب بھی پنجاب کے روایتی سیاستدان  ہیں۔ ان کا رابطہ امراء اور متوسط طبقے کی اوپر کی پرت   سے رہا۔ پنجاب کے امراء اور متوسط طبقے کے لیے اب پیپلز پارٹی میں کوئی کشش نہیں۔ ان کی نظریاتی وابستگی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف سے زیادہ قریبی نظر آتی ہے۔

وٹو صاحب نے پیپلز پارٹی کی بنیادی قوت سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ زرداری اور منظور وٹو جوڑ توڑ کی سیاست کے ذریعے پی پی کی انتخابات میں کامیابی کا تصور رکھتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی مقبولیت کی ایک بنیادی وجہ مزدور اور کسان تنظیموں، طلبہ انجمنوں، خواتین اور سول سوسائٹی کے ارکان کی حمایت تھی۔ پیپلز پارٹی نے اپنے قیام کے ساتھ ہی بھاری صنعتوں اور بینکوں کو قومیانے، ریاست کی تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولتوں کی فراہمی کے وعدوں پر مشتمل منشور تیار کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب اور پختون خواہ میں پہلے غریبوں میں مقبول ہوئی تھی مگر مزدوروں اور کسان تنظیموں کے دباؤ کے بعد پنجاب کا امراء او رمتوسط طبقہ پیپلز پارٹی کا حامی بنا تھا مگر امرائے سے وابستہ گروہوں نے 1977 ء میں پیپلز پارٹی کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی سے ہجرت کرلی تھی مگر مزدور، کسان، صحافی اور دانشور پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے۔

ان لوگوں نے بھٹو صاحب کی جان بچانے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے تاریخی قربانیاں دی تھیں مگر زرداری کی کی ڈاکٹرائن کے نتیجے میں مزدور، کسان، طلبہ اور دانشور پیپلزپارٹی سے دور چلے گئے۔ امراء اور متوسط طبقے کو پیپلز پارٹی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اندرون سندھ کے علاوہ ہر جگہ سے ناکام ہورہی ہے۔ زرداری صاحب کو پی ایس 114 کے انتخابات سے سبق سیکھنا چاہیے اور پیپلز پارٹی کی دوست مزدوروں، کسانوں، طلبہ ، صحافیوں اور خواتین کی تنظیموں کو اہمیت دینی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔