دعائیں، بددعائیں انسان کا پیچھا کرتی ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 22 جولائی 2017

انسا ن جس دولت اور چیزوں کے لیے ساری عمر کرپشن ، لوٹ مار، غبن ، فراڈ کر تا رہتا ہے، جھوٹ بولتا اور دھوکا دیتا رہتا ہے وہ ایک دن اس کے کچھ کام نہیں آتی ہیں اور سب بے معنیٰ ہوجاتی ہیں لیکن پھر بھی ان بے معنیٰ چیزوں کے لیے انسان ساری عمر دوسروں کو ہراتا رہتا ہے پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ خود بری طرح ہار جاتا ہے۔ ملکہ الزبتھ کی خوابگاہ کے سامنے بیسیوں افراد خدا کی بارگاہ میں ملکہ کی صحت کے لیے دعا گو تھے ملکہ نزع کے عالم میں تھی۔

ملک کے ماہر ترین طبیب اس کے علاج میں مصروف تھے آخر کار ملکہ نے اپنی بے بسی پر مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا ’’ میری دولت کس کام کی ۔‘‘ سکندراعظم  جب دنیا کو فتح کرکے واپس آرہا تھا تو شہر دامغان میں اس کا انتقال ہوگیا اس نے مرنے سے پہلے یہ وصیت کی کہ میری لاش کو ایک تابوت میں رکھ کر اس میں ایک سوراخ کردیا جائے اور میرے دونوں ہاتھ اس سوراخ سے باہر نکال دیے جائیں تاکہ لوگ دیکھیں کہ میں دنیا کو فتح کرنے کے باوجود خالی ہاتھ اس دنیا سے جارہا ہوں ۔

ٹالسٹائی اس قدر ہر دل عزیز تھاکہ اس کی وفات سے بیس برس پہلے اس کے دروازے پر عقیدت مندوں کا ہجوم لگا رہتا تھا ہزاروں لوگ دور دراز سے یہ خواہش دل میں لیے وہاں آتے تھے کہ اس کی ایک جھلک دیکھ سکیں ۔ اس کی باتیں سن سکیں یا اس کے ہاتھ کو بوسہ دے سکیں، اس کے دوست اس کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ شارٹ ہینڈ میں قلمبند کرلیتے یہاں تک کہ وہ عام بات چیت میں اپنی زندگی کا کوئی معمولی سے معمولی واقعہ بھی سناتا تو وہ کاغذ پر رقم ہوجاتا۔  اس کی اپنی نگارشات کی ایک سو دس جلدیں ہیں اس شخص کی زندگی اور نظریات کے بارے میں کم و بیش 23000 کتابیں اور 56000 مضامین لکھے جاچکے ہیں وہ بیالیس کمروں کی ایک شاندار حویلی میں پیدا ہوا اس کے پاس دولت کے انبار لگے ہوئے تھے ۔

اس نے قدیم روسیوں کی طرح شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے پرورش پائی لیکن وہ زندگی کے آخری دور میں اپنی تمام دولت و جائیداد سے دستبردار ہوگیا۔ اس نے تمام سازوسامان غریبوں میں بانٹ دیا اور روس کے ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر وفات پائی۔  زندگی کے آخری حصے میں وہ روسی کسانوں کی طرح انتہائی سستا لباس پہنتا اپنے جوتے خود اپنے ہاتھوں سے بناتا اپنا بستر خود لگاتا کمرہ خود صاف کرتا لکڑی کی بوسیدہ سی میزکرسی پر بیٹھ کر چمچے سے انتہائی سادہ اور سستی غذا کھاتا تھا۔

انسان چاہے بادشاہ ہو یا فقیر بس پانچ چھ فٹ کے ایک پتلے کا نام ہے جسے اس دنیا میں کوئی ساٹھ ستر برس زندہ رہنا ہے۔ اس چینی مقولے میں اصل دانش کی روح ہے کہ ’’ ہوسکتا ہے آپ ایک ہزارایکڑ رقبے کے واحد مالک ہوں پھر بھی آپ پانچ فٹ لمبے بستر پر ہی سوئیں گے ‘‘ ایک بادشاہ کو بھی زیادہ سے زیادہ سات فٹ لمبے بستر کی ضرورت ہوگی ۔

جہاں وہ رات کولمبا لیٹ کر سو سکے اس زندگی سے ہر ایک کو کچھ حصہ ملتا ہے مگرکسی کے پاس زندگی کا رہن نامہ نہیں ہوتا۔ ہم اس روئے زمین پر موروثی اور دائمی مزارعین نہیں ہیں ہم تو یہاں عارضی مہمان ہیں گویا اصل میں زمیندار یا مالک کا لفظ وہ مفہوم نہیں رکھتا جو ہم سمجھتے ہیں یہاں کوئی شخص حقیقت میں نہ کسی مکان کا مالک ہے نہ زمین کے کسی ٹکڑے کا ۔ افسوس کہ زندگی اور موت کی جمہوریت کو کم ہی پہچانا گیا ہے، اگر موت نہ آتی تو نپولین کے لیے جزیرہ سینٹ ہلینا کی بھی کوئی اہمیت نہ ہوتی اور پھر نہ جانے یورپ کا کیا حال ہوگا اگر موت نہ آئے تو دنیا میں کسی نامور شخص کسی فاتح کی سوانح حیات نہ لکھی جاتی۔  ہم اس دنیا کے بڑے آدمیوں کو اسی لیے معاف کردیتے ہیں کہ وہ مر چکے ہوتے ہیں اور ان کی موت کی وجہ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا اور ان کا معاملہ طے ہوچکا ہے سو اب انھیں معاف ہی کردینا چاہیے ۔

یوں سمجھیے کہ ہر جنازے کے ساتھ یہ جھنڈا ہوتا ہے کہ ’’سب انسان برابر ہیں ‘‘ موت کی اس جمہوریت سے انسان زندگی کے ایک تماشا ہونے اور اس کی گہری شعریت کا احساس پیدا ہوتا ہے جو شخص موت کی بصیرت حاصل کرلے اسے انسانی زندگی کے ایک تماشا ہونے کی بصیرت بھی مل جاتی ہے۔ شیکسپیئر نے اپنے لافانی کردار ہیملٹ کے منہ سے سکندر کی خاک کے بارے میں جو باتیں کہلوائیں ان سے اس صداقت پر مہر لگ جاتی ہے ‘‘سکندر مرا اور اسے زمین میں دفن کر دیاگیا۔ اس کا جسم خاک میں مل کر خاک ہوگیا،اس مٹی سے ہم ایک ڈھیلا بنالیتے ہیں اور سکندر کی خاک کا یہ ڈھیلا ایک ڈاٹ کے طور پر شراب کے مٹکے کے منہ پر لگادیا جاتا ہے۔‘‘

ذرا شیکسپیئر کے ڈرامے رچرڈ دوم کو دیکھیے ، شاہ رچرڈ قبروں اورکپڑوں اورکتبوں اور اس تاج کے نگینے کا ذکر کرتا ہے، جو بادشاہ کی فانی کنپٹیوں پر دھرا رہتا ہے یا پھر جب وہ ایک بہت بڑے جاگیردار کا ذکر کرتا ہے، جواب اپنے قوانین ، اپنے اختیارات ، مراعات ، جاگیروں سمیت محض خاک کا ایک ڈھیر ہے۔ فارسی حکیم و شاعر عمر خیام اور اس کے چینی ساتھی چیانوشی کا بھی یہ حال تھا اور وہ یہ ہی کہتے رہے کہ دیکھو یہ شاہوں کی قبریں ہیں جن میں اب گیدڑوں نے اپنے بھٹ بنارکھے ہیں ۔

چینی فلسفے میں گہرائی چوانگ زے کی بدولت پیدا ہوئی جس نے اپنے سارے فلسفے کی بنیاد انسانی کھوپڑی کے ذکر پر رکھی ہے ملاحظہ ہو ’’چوانگ زے شہر چاؤگیا وہاں اس نے ایک کھوکھلی اور پرانی کھوپڑی دیکھی چوانگ زے نے اس کھوپڑی سے پوچھا تمہارا یہ حال اس لیے ہوا کہ تم عیش ونشاط کے بندے تھے اور تم نے زندگی بے اعتدالی سے گذاری کیا تم کوئی فراری تھے جو قانون کی زد سے بچنا چاہتاتھا یہ نہیں توکیا تم نے کوئی ایسا کام کیا تھا جس سے تمہارے والدین اور تمہارے خاندان کی نیک نامی کو بٹا لگا شاید تم فاقوں کی موت مرے، ہوسکتا ہے کہ تم پوری عمر کو پہنچ کر مرے اور تمہاری موت طبعی موت تھی آخر بات کیا ہے‘‘ دنیا کے تمام فلسفیوں تمام صوفیوں نے یہ ہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہم سب فانی ہیں اور دنیا میں مہمان ہیں اورکسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں گویا یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم محض اداکار ہیں جو اپنا اپنا پارٹ ادا کررہے ہیں لیکن انسان بیچارا کیا کرے ہمارے جسم میں ایک اتھاہ گڑھا ہے جسے پیٹ کہتے ہیں۔

اس پیٹ نے ساری انسانی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا ہے یہ ہی پیٹ تمام ظلم زیادتی اور ناانصافی کی ماں ہے۔ دنیا کی ساری برائیوں اور خرابیوں نے اسی سے جنم لیا ہے ہمارے ساتھ بھی یہی المیہ رہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں، کرپٹ سیاست دانوں ، اشرافیہ اور بیوروکریسی کو اس پیٹ نے کچھ زیادہ ہی تنگ کررکھا ہے۔ یہ سب اسی پیٹ کی ہوس کے مارے ہیں ان کی بھوک ہے کہ ختم ہونے نہیں پا رہی ہے انھیں زندگی کا یہ فلسفہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بھی دوسروں کی طرح دنیا میں مہمان ہیں اور کسی بھی چیزکے مالک نہیں ہیں اورجب وہ دنیا سے رخصت ہونگے تو سکندر کی طرح خالی ہاتھ ہی جائیں گے اور ان کے ساتھ صرف ان کے اعمال ہی جائیں گے یہ بات طے ہے کہ دعائیں اور بدعائیں مرنے کے بعد بھی اس کا پیچھا کرتی ہیں اس لیے انھیں لوگوں سے دعائیں لینے کی ضرورت ہے نہ کہ بددعائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔