قند، شکر قند، زقند اور سمرقند

سہیل احمد صدیقی  اتوار 23 جولائی 2017
قند اور شکر قند سے صوتی مماثلت والا لفظ، زقند بھی شاید اُن الفاظ میں شامل ہوگیا ہے جو نئی نسل کے لیے نامانوس ہیں۔ فوٹو : فائل

قند اور شکر قند سے صوتی مماثلت والا لفظ، زقند بھی شاید اُن الفاظ میں شامل ہوگیا ہے جو نئی نسل کے لیے نامانوس ہیں۔ فوٹو : فائل

ہائے ہائے کیا دور آگیا ہے کہ جب وہاٹس ایپ کے کسی پیغام کے جواب میں راقم لکھتا ہے، قندمکرر، تو اچھی خاصی پختہ عمر کی شخصیت سوال کرتی ہے: سہیل بھائی یہ کیا ہوتا ہے؟ ع: کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا…..یہ تو خیر ہوئی کہ ابھی شکر قند/شکرقندی، بازار میں عام دست یاب ہے، ورنہ یہ بھی ہر کسی کو بتانا اور سمجھانا مشکل ہوجاتا، ویسے برگر لوگ۔۔۔ بے چارے پوچھ لیتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ بتانا پڑتا ہے: Sweet potato۔ ناواقفین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ قند سے مراد ہے:

1۔ شکر، کھانڈ، چینی، بورا، شکرتری
2۔ گاڑھا شیِرہ پکاکر جمائی ہوئی کھانڈ(White crystallized sugar=Sugar cubes)، جما ہوا برف سا شیرہ
3۔ وہ دانے دار مٹھائی جس میں قند اور کندا یعنی دودھ کا ماوا ڈال کر پکاتے ہیں اور کونڈے وغیرہ میں جماکر قاشیں تراش لیتے ہیں، یعنی آج کل کی زبان میں قلاقند۔
4۔ پکے سرخ رنگ کا سوتی کپڑا، اک رنگا، سالو، ٹول، شال باف، شال بانہ
5۔ ایک زردرنگ کی کھجور
(فرہنگ آصفیہ، نوراللغات۔http://www.urduencyclopedia.org)۔

علاوہ ازایں (اس کے علاوہ۔ فارسی)، بطور استعارہ یا صفت استعمال ہونے کی صورت میں قند کا مطلب ہے نہایت شیریں۔ فارسی لغات سے پتا چلتا ہے کہ یہ ’’میٹھے ٹکڑے ‘‘[Sugar cubes] چائے یا قہوے/کافی میں مٹھاس کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ وضاحت کرتا چلوں کہ اصل میں یہ لفظ فارسی کا ’کند‘ تھا جسے معرب کرکے (یعنی عربی شکل دے کر) قند کردیا گیا اور آج فارسی میں بھی یہی ہجے رائج ہیں، یہ اور بات کہ ایرانی فارسی میں اس کا تلفظ وہ نہیں جو ہم ( اردو گو) کرتے ہیں۔ یوں بھی ایرانی فارسی میں ’ق‘ اکثر جگہ ’غ‘ بن چکا ہے، جیسے لفظ آقا تھا، اسے آغا کردیا گیا۔ اب اگر آقا لکھا بھی ہو تو آغا ہی بولا جائے گا۔ اَب یہ بھی جان لیجے کہ قندمکرر کا مفہوم کیا ہے۔ لفظی اعتبار سے تو یہ ہے، دو مرتبہ صاف کیا ہوا قند جو نہایت عمدہ اور شفاف ہوتا ہے، مگر مجازاً (خصوصاً ادب میں) اس سے مراد ہے عمدہ، بامقصد کلام یا مضمون کا اعادہ / دہرانا۔ قند مکرر سے مراد معشوق کے ہونٹ بھی ہیں۔

قدیم اردو میں سب سے پہلے1611ء میں کلیات قلی قطب شاہ میں لفظ قند کا استعمال کیا گیا۔ لفظ قندی کا استعمال 1703ء کی کتاب ’جنگ نامہ بھنگی خان پوستی‘ میں پہلے پہل ہوا تھا۔ …[http://www.urduencyclopedia.org]لفظ قند کا استعمال کسی مرکب میں دیکھنا ہوتو وہ ہیں: قندِسفید (سفید شکر) اور قندخُو (میٹھی زبان والا، جس کے لہجے میں مٹھاس ہو)۔ مستند لغات کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی قیمتی شئے کے گم ہوجانے پر افسوس کی بجائے، کم قیمت/ادنیٰ چیز کی حفاظت کا خوب انتظام کرے تو ایسے میں کہا جاتا ہے: قندلُٹے، کوئلوں پر مہر (فرہنگ آصفیہ)۔ چھند و قند سے مراد عیاری، مکاری، فریب اور نازو ادا ہے۔ اب آئیے شکرقند کی طرف جسے شکرقندی بھی کہا جاتا ہے۔

لفظی اعتبار سے اس کا مطلب بھی نہایت میٹھا ہے، مگر اصطلاح میں اس سے مراد وہ میٹھی ترکاری ہے جو زمین کے اندر پیدا ہوتی ہے، مولی جیسی ہوتی ہے اور جسے بھُون کر یا اُبال کر کھایا جاتا ہے اور اس کے اندر سے ایک سوت/دھاگا بھی نکلتا ہے۔ (اسے زمین قند بھی کہتے ہیں)۔ شکرقند کے طبی فوائد کے متعلق ماہرین تغذیہ (Dietitians or dieticians)سے تفصیلی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ خاکسار کو تو یہ پتا ہے کہ یہ لذیذسبزی/ترکاری خاص طور پر اُن لوگو ں کے لیے مفید ہے جنھیں بوجوہ ہڈیوں، جوڑوں اور مُہروں کی کم زوری کی شکایت ہو۔ شکرقند کے مسلسل استعمال سے نظر اچھی ہوتی ہے، نیز یہ سرطان [Cancer]سے تحفظ اور ڈھلتی عمر کے مسائل کے حل کے لیے مفید ہے۔ چلیے آپ کی آسانی کے لیے ایک اقتباس بہ زبان فرنگی نقل کیے دیتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ یہ میٹھی شئے درحقیقت حیاتین کا خزانہ ہے:
“Sweet potatoes are high in vitamin A, vitamin B5, B6, thiamin, niacin, riboflavin, and, due to their orange color, are high in carotenoids,” said San Diego-based nutritionist Laura Flores. Plus, they’re fat-free, relatively low in sodium and have fewer calories than white potatoes — although they do have more
sugar.[https://www.livescience.com/46016-sweet-potato-nutrition.html]
ترجمہ قصداً نہیں کررہا ہوں، قارئین ازخود زحمت کریں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ انگریزی نام کا مطلب تو ہے میٹھا آلو، مگر علم نباتات کی رُو سے اسے آلو سے کوئی نسبت، ناتا نہیں۔ فرنگی زبان کی ہر بات درست یا اچھی نہیں ہوتی، کیا سمجھے؟؟ ویسے ایک سرسری مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اگر آلو سے موازنہ کیا جائے تو فوائد کے لحاظ سے شکرقند کا پلڑا بھاری ہے۔

جب شکرقند کی بات ہورہی ہے تو لگے ہاتھوں شکر کا بھی ذکر کرتے چلیں۔ انگریزی لفظ Sugarکی اصل ہے عربی لفظ سکّر، مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی، عربی لفظ کا مآخذ ہے سنسکرت کا لفظ ’شرکر‘ جسے قدیم ہندی میں ’سرکر‘ کیا گیا تو اردو میں شکر۔ درمیان میں ایک اور ارتقاء یہ ہوا کہ سنسکرت کی ہم رشتہ قدیم زبان پہلوی سے جب فارسی نے جنم لیا تو یہ وہاں بھی شکر ہوگیا۔ قدیم یونانی زبان نے اسے Sákkharisکہہ کر پکارا جو عین ممکن ہے یونانیوں کی ہندوستان میں آمد کے دور کا واقعہ ہو۔ ہوتے ہوتے جب اسی لفظ نے یورپ کی راہ لی تو قدیم زبان لاطینی میں، عربی کے توسط سے ہی، Succarum ہوگیا (جو اُسی کی جدید شکل اطالوی زبان میں Zucchero ہے) اور اسی اثناء میں جب ہسپانوی [Spanish]زبان تشکیل پارہی تھی تو اُس نے عربی لفظ ’السکّر‘ کو Azucar بناکر اپنالیا۔ لاطینی سے انگریزی میں گیا تو Sugar، قدیم المانوی یعنی جرمن میں Zucuraہوا تو جدید جرمن میں Zucker ۔ ساتھ ساتھ فرینچ کو بھی مَت بھولیں جس نے انگریزی سے بھی پہلے اس اہم چیز کو Sucre(سُوکغ) کہہ کر پکارا۔ دیگر یورپی زبانوں کا معاملہ بھی ملتا جلتا ہے۔ اس سے قبل ایک ایسی زبان کا ربط بھی لازماً سامنے آئے گا جو بہ یک وقت ایشیا اور یورپ میں رائج ہے۔

میری مراد ہے روسی سے، روسی زبان میں شکر کو Sakhar(سَخَر) کہا جاتا ہے۔ یہاں سے یہ لفظ مشرقی یورپ کی زبانوں سربین اور پولش میں داخل ہوا تو علی الترتیب Cukar اور Cukier کہلایا۔ اس ضمن میں آخری بات یہ ہے کہ گُڑکو انگریزی میں Jaggeryکہا جاتا ہے جو پُرتگیز[Portuguese]کے لفظ Jagaraکی تبدیل شدہ شکل ہے جس کا ماخذ ہے سنسکرت کا لفظ ’شرکر‘…..اس شکر کے پیچھے پڑے تو ثابت ہوا کہ دنیا گول ہے۔ لگے ہاتھوں یہ ذکر بھی ہوجائے کہ ہندوستان میں اول اول تو ہندو حلوائی ہی مٹھائی بنانے کے ماہر مشہور تھے، مگر پھر مسلمانوں نے بھی یہاں کی مٹھائیوں کی تیاری میں اپنا کمال دکھایا اور پھر ایک وقت آیا کہ لکھنؤ کی تہذیب میں دیگر کمالات کے ساتھ ساتھ یہ صنعت بھی عروج کو پہنچی۔

یہ بات اب تاریخ کا حصہ ہے۔ بعد کے دور میں یہ ہوا کہ برطانوی دور استبداد میں ریاست ریواڑی کے مسلمانوں نے اس شعبے میں نام کمایا۔ آج کراچی اور ملتان میں اس برادری کے بہت سے افراد اپنی منفرد مٹھائیوں کے سبب مشہور ہیں۔ کراچی میں تو انھوں نے لفظ شیریں کو اتنا مشہور اور مقبول کیا کہ ہر علاقے میں حلوائی اپنی دکان کا نام اپنے یا کسی کے نام کے ساتھ ’شیریں‘ بطور لاحقہ لگا کر رکھنے لگے کہ شاید یہی کام یابی کا ضامن ہو۔ اس تمام تفصیل سے قطع نظر، ریواڑی سے ہجرت کرکے آنے والے اہل علم و فن میں، محمد رفیق خان المعروف بابو رفیق ریواڑوی (گیارہ اپریل انیس سو سترہ تا نوجوان انیس سو چھیاسی) کا نام بہت ممتاز ہوا۔ اُن کے متعلق معلومات دیگر ذرائع کے علاوہ انٹرنیٹ پر بھی دست یاب ہیں۔ ہمارے قدرے بزرگ معاصر پروفیسر میرزاسلیم بیگ، استاد جامعہ سندھ، جام شورو کا مضمون ملاحظہ فرمائیں:

https://ijrakarachi.files.wordpress.com/2013/07/20-last-rafiq-riwari.pdf
لگے ہاتھوں اسی مضمون میں شامل اس بزرگ شاعر کے کچھ اشعار بھی یہاں نقل کرتا ہوں:
ممکن ہے خدا اور میری عمر بڑھا دے
دنیا مرے مرنے کی دعا مانگ رہی ہے
۔۔۔۔۔۔
ظلم کی ایک حد مقرر ہے
صبر کی انتہا نہیں ہوتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائے رے وقت کہ انساں بھی رفیق
گھٹ کے رہ جاتا ہے سایہ جیسا

قند اور شکر قند سے صوتی مماثلت والا لفظ، زقند بھی شاید اُن الفاظ میں شامل ہوگیا ہے جو نئی نسل کے لیے نامانوس ہیں۔ یہ اردو لفظ اصل میں فارسی سے آیا اور اس کا درست املاء ہے: زغند۔ اس کے معانی ہیں: جَست، چھلانگ، کُودپھاند، ہرن کی چَوکڑی۔ اردو میں محاورہ ہے، زقند بھرنا، یعنی جست یا چھلانگ لگانا، پھلانگنا۔ تیندوے [Panther] کی جست اور پھُرتی مشہور ہے، چیتے [Leopard/Cheetah]کی تیز رفتار، جسے ناواقف لوگ گڈمڈ کردیتے ہیں۔ انگریزی میں تیندوے کی جَست کے علاوہ اُس کا وقار [Grace] بھی ضرب المثل ہے: Panther-like grace۔ چیتے کی بات کی جائے تو ہمارے یہاں چیتے کی نگاہ بھی مشہور ہے (شیر کی نگاہ بھی مشہور ہے مگر دوسرے معنی میں) جب کہ انگریزی میں محاورہ ہے کہ چیتا اپنے جسم کے دھبے بدل نہیں سکتا: A leopard cannot change its spots۔ بالکل اُسی طرح جیسے شیر کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے جسم کی دھاریاں تبدیل نہیں کرسکتا: The tiger cannot change its stripes۔ خاکسار کا خیال ہے کہ غالباً جدید ایرانی فارسی میں لفظ زغند/زقندمتروک ہوگیا ہے ، کیوں کہ تہران، ایران کی مطبوعہ ’’فرہنگ انگلیزی ۔فارسی‘‘ میں کہیں نظر نہیں آیا۔ اب ہم ذکر کرتے ہیں سمرقند کا جو آج کل ازبکستان کے صوبہ سمرقند [Samarqand Region] کا دارالحکومت ہے، مگر صدیوں ہماری شان دار اسلامی تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہے۔

یہ دھیان میں رکھیں کہ اس شہر کے نام میں لفظ قند کا کسی بھی قند یعنی میٹھے سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ کند کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ قیاس ہے کہ قدیم سُغدی زبان میں سمرکند کا (جو بعد میں عربی کے زیراثر فارسی، ترکی اور ازبک میں سمرقند ہوگیا) مطلب تھا : پتھر سے بنا ہوا شہر یا قلعہ۔ آج کل کچھ لوگ اسے اپنے خیال میں ثمرقند لکھنے لگے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ یہ وہی سمرقند ہے جس کا ذکر عظیم سخنور حافظؔ شیرازی کی مشہور غزل کے مطلع میں بھی کیا گیا ہے:

اگر آں تُرکِ شیرازی بدست آرد دل ِ مارا
بہ خال ِ ہندویش بخشم سمرقند وبخارا را

حافظ ؔ اپنے محبوب کی طرف سے وفا (کی پیشکش قبول کرنے) کی صورت میں اُس کے رخسار کے ایک تِل کے عوض، سمرقند اور بخارا بطور بخشش دینے کو تیار ہوگئے تھے۔ جب یہ کلام امیرتِیمور لنگ تک پہنچا تو انھوں نے اس عظیم غزل گو کو دربار میں بلالیا۔ حافظؔ شیرازی دربار میں پہنچے تو دنیا کے عظیم فاتح نے قدرے درشتی سے سوال کیا کہ ہم نے تو اس سمرقند اور بخارا کو سجانے کے لیے ایک دنیا اُجاڑدی اور آپ ہیں کہ محبوب کے ایک تِل کے بدلے یہ شان دار ریاستیں (اُس وقت تو یہ شہر نہیں، ریاستیں تھیں) لُٹانے کو تیار ہیں، ایسا کیوں؟ ذی علم شاعر نے برجستہ، معصومیت سے جواب دیا: حضور! اسی لیے تو بندہ اِس حال کو پہنچ گیا ہے (یعنی اپنی غربت اور بادشاہ کے سامنے بے حیثیتی کی طرف اشارہ کیا)۔

امیرتِیمور خود صاحب علم تھا اور اہل علم کا قدرداں….حافظؔ کے اس جواب سے بہت خوش ہوا اور انھیں انعام واکرام سے نوازا۔ آج اُسی تِیمور کا مقبرہ (موسوم بہ ’گور ِ امیر‘) سمرقند میں موجود شان دار عمارات میں شامل ہے، دیگر لائق دید یا قابل ذکر مقامات میں مسجد بی بی خانم اور قدیم مرکز ثقافت ’ریگستان‘ ہیں، جہاں پہنچ کر انسان اس خطے کے شان دار ماضی میں گم ہوجاتا ہے۔ اس مقام پر تین مختلف مدارس کی عمارتیں موجود ہیں جن میں سب سے زیادہ مشہور ’مدرسہ اُلَغ بیگ‘ ہے۔ یہ شہر یونیسکو کے مشتہر کردہ عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔ (یہ نام ہمارے یہاں ’تَے مُور‘ بولا جاتا ہے ، درست ہے : تی مُورTimur-۔ علاوہ ازیں انڈونیشیا کی جس ریاست کو سازش کے تحت مرکزِعیسائیت بناکر بغاوت کرائی گئی اور پھر آزاد کراکے جلد ہی اقوام متحدہ میں شامل بھی کرالیا گیا، اُس کا نام ہے: مشرقی تی۔مور، بغیر پیش کے: East Timor)۔ سمرقند وسط ِ ایشیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں شامل ہے۔

ایک اندازے کے مطابق یہ شہر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت باسعادت سے بھی کوئی سات یا آٹھ سو سال قبل بسایا گیا تھا۔ قدیم شاہراہ ریشم پر واقع یہ شہر چین اور بُحَیرہ روم[Mediterranean]کے درمیان ہونے کے سبب کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل تھا۔ اس شہر نے مختلف ادوار میں قدیم یونانی، ایرانی اور ترک نیز ازبک فاتحین اور حکم رانوں کا دور دیکھا۔ سن تین سو انتیس[329] قبل از مسیح (علیہ السلام) میں اسکندر نے سمرقند فتح کیا۔ (سکندرنہیں) ۔ سن سات سو دس میں عظیم مسلم فاتح حضرت قُتَیبہ بن مُسلم باہِلی [Qutayba ibn Muslim]نے سمرقند فتح کیا۔ وہ بزرگان دین کے طبقہ تابعین میں شامل تھے۔ اس فتح کے بعد یہاں اسلام کی خو ب اشاعت ہوئی۔ اس سے قبل یہاں مختلف مذاہب بشمول بدھ مَت، پارسی مذہب، ہندومَت، منیخی مَت، یہودیت اور عیسائی فرقے نسطوریہ کے مقلدین پائے جاتے تھے۔ یہاں رک کر ایک اہم تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا چلوں۔ سمرقند کے نواح میں ایک جگہ ’شاہ ِ زندہ‘ کے مزار کے متبرک مقام کے لیے مشہور ہے۔ یہ شاہ زندہ درحقیقت ہمارے پیارے رسول (ﷺ) کے چچازاد بھائی اور صحابی حضرت قُثم بن عباس رضی اللہ عنہ‘ شہید ہیں جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں یہاں تبلیغ کے لیے تشریف لائے اور یہیں شہید ہوئے۔

(یہ نام قاف پر پیش ، ثے پر زبر کے ساتھ ہے:Qutham)۔ کہا جاتا ہے کہ خلافت عباسیہ کے عہد میں، سن سات سو اکیاون [751] میں ہونے والی جنگ طلاس میں قید ہونے والے دو چینی باشندوں سے کاغذسازی کا راز معلوم کرکے ، سمرقند میں کاغذسازی کے اولین کارخانے کا سنگ بنیاد رکھا گیا جو نہ صرف عالم اسلام میں اس صنعت کے فروغ کا سبب بنا، بلکہ یہاں سے یورپ میں بھی کاغذسازی کا دروازہ کھل گیا (کیا ٹیلی وژن پر اناپ شناپ بکنے والے مدہوش دانشور کو اِس راز کا علم ہے؟)۔ یہ جنگ عباسیوں نے اپنے حلیف اہل ِتبت کے ساتھ مل کر چین کے حکم راں خاندان تانگ کے بادشاہ Xuanzongکے خلاف لڑی تھی۔

عباسیوں سے اقتدار چھیننے والے ساسانی حکم راں خاندان نے اسے سلطنت کا مرکز بنادیا، اُن کے بعد یہاں قرہ خانی اور پھر مختلف ترک قبائل بشمول سلجوق کی حکومت رہی اور ایک وقت آیا کہ یہاں خوارزم شاہ کا اقتدار قایم ہوگیا۔ سن بارہ سو بیس [1220]میں منگول فاتح چنگیز خان نے سمرقند پر قبضہ کیا۔ بعدازآں یہاں حکومت کرنے والوں میں شیبانی خاندان اور عظیم مغل بھی شامل تھے۔ سوویت یونین کے قیام کے بعد دیگر مسلم ریاستوں اور شہروں کی طرح یہ علاقہ بھی اس اتحاد کا حصہ بن گیا، جو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد، آزاد جمہوریہ ازبکستان کا دوسرا بڑا شہر قرار پایا۔ سمرقند مختلف ادوار میں دنیا کے مختلف شہروں کا جُڑواں شہر قرار پایا، جن میں نیشاپور (ایران)، بخارا (ازبکستان)، بَلخ (افغانستان)، مَرو (ترکمانستان) اور جدید دور میں یہ شہر شامل ہیں:

خُوجند۔تاجکستان، اِزمِیر۔ ترکی، ایسکی شہر۔ ترکی، قیروان۔ تُونس (تیونس غلط ہے)، بندا آچے۔ انڈونیشیا، جیونگ جو۔ جنوبی کوریا، کزکو ۔ پیرو[Cuzco]، نئی دہلی۔ہندوستان، لیویو۔یوکرائن اور لاہور۔ پاکستان۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔