روشنیوں کا شہر اور اس کی زندگی

مبین مرزا  اتوار 23 جولائی 2017
شہرِ کراچی دیکھتے ہی دیکھتے ’’کچراچی‘‘ بن جاتا ہے۔ فوٹو : فائل

شہرِ کراچی دیکھتے ہی دیکھتے ’’کچراچی‘‘ بن جاتا ہے۔ فوٹو : فائل

میرؔ صاحب نے کہا تھا:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ، ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اُس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اُجڑے دیار کے

جو کچھ کہا گیا، یقیناً دل گرفتگی کے عالم میں کہا گیا ہوگا۔ کیوں نہ کہا جاتا، غریب الوطنی کا تجربہ ہوتا ہی ایسا ہے کہ آدمی کو لہو رُلا دے۔ وطن سے دُوری دنیائے شعر و ادب کا ایسا موضوع ہے کہ عہدِ قدیم سے اِس دور تک فکر و احساس کی شمعیں مسلسل روشن کرتا چلا گیا ہے۔ زمین سے بچھڑے ہوئے، جڑوں سے کٹے ہوئے لوگ اسی طرح گریہ کرتے اور آزردہ خاطر دکھائی دیتے ہیں جس طرح لوگ ماں کی میّت پہ روتے ہیں۔ عجیب سوگ ہوتا ہے یہ بھی، جان گھلا دیتا ہے آدمی کی۔

سوگ کی یہ صورت تو جانی پہچانی ہے۔ ہم اسے غزل کے شعروں میں، نظم کی لائنوں میں، افسانے کے کرداروں میں، ناول کے ماجروں میں اور فلم کے منظروں میں دیکھتے، پڑھتے اور سنتے آئے ہیں، لیکن پامالی کا تجربہ ایک صورت اور بھی رکھتا ہے۔ یہ صورت کچھ عجیب ہوتی ہے کہ آدمی اس کا نوحہ کرے تو کیسے اور سوگ منائے تو کیوں کر۔ اس کی بپتا یوں نرالی ہوتی ہے کہ اس میں بے گھری اور بے دری کا ماجرا آدمی پر نہیں گزرتا، لیکن اُس کی ابتلا اِس سے کم بھی نہیں ہوتی۔ سچ پوچھیے تو کچھ سوا ہوتی ہے۔ یقین نہ آئے تو اہلِ کراچی کی زندگی کو ذرا قریب سے دیکھ لیجیے۔

انسانوں کی طرح شہروں کی بھی ایک تقدیر ہوتی ہے جو اُن کے ساتھ اسی طرح کھلواڑ بھی کرتی ہے۔ کراچی ہی کو دیکھ لیجیے، اور بہت دور جانے کی ضرورت بھی نہیں۔ بس ذرا آزادی کے بعد سے اب تک کے ان ستر برسوں پر ہی ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ لاہور، ملتان، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ سب شہروں کا اپنا رنگ اور اپنی رونق ہے، لیکن کراچی کچھ الگ ہی رنگ، ایک الگ ہی رونق رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ نوتشکیل ریاست کا سب سے مرتب شہر ہے اور اسے بجا طور پر کوسمو پولیٹن شہر کہا جاسکتا ہے۔

یہاں ہُن تو خیر نہیں برستا، لیکن یہ غریب پرور شہر ضرور ہے۔ کشادہ دل، کشادہ ظرف، امیر غریب، گورا کالا، اپنا پرایا، عالم جاہل، نیک بد، جو بھی یہاں آگیا، آسانی سے سما گیا۔ اس شہر کی شخصیت کا نمایاں عنصر جاذبیت ہے۔ مسافر یہاں پہنچتے ہیں اور پھر یہیں کے ہو رہتے ہیں۔ اس کے باسی قدم نکالتے ہیں، دنیا جہان کا سیر سپاٹا کرتے ہیں، لیکن پھر لوٹ کے آتے ہیں اور یہیں قرار پاتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ یہ دارالحکومت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دارالحکومت بھی لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ ان کی سیاحت و معیشت میں ایک کشش ہوتی ہے جو لوگوں کو اپنی طرف بلاتی ہے، لیکن کراچی کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ یہ اس کی انسان دوستی اور غریب پروری ہے جو بلا تفریقِ رنگ و نسل اور بلاامتیازِ زبان و مذہب آنے والوں کو اپنے دامن میں سمیٹے جاتی ہے۔

پھر سیاست و اقتدار کا کھیل یہاں رنگِ روزگار بدلنے لگتا ہے۔ یہ عمل جہاں بھی ہو، اس کی رفتار ہمیشہ تیز ہوتی ہے، ایک آندھی کی طرح۔ سو یہاں بھی گرد سی اڑنے لگتی ہے۔ تب اس شہر کے باسی دیکھتے ہیں کہ ملک کے دیوارودر پر جس پہلے آمر کا مہیب سایہ پڑا تھا، اسی کا منہ زور بیٹا آمریت کی فتح کا جشن مناتا، پھریرے لہراتا، ٹرکوں کا لمبا جلوس لے کر شہروں میں داخل ہوا تھا۔ یہ وہ جارحیت تھی جس نے اس شہر کا مزاج بدلنے میں پہلا بڑا اور افسوس ناک کردار ادا کیا تھا۔ انسانوں کی طرح شہر بھی اپنی پامالی کے بعد وجودی، یعنی جغرافیائی صورت میں چاہے ویسے ہی نظر آئیں، لیکن اندر سے اُن کی کیمسٹری تبدیل ہوجاتی ہے۔ بعد ازاں جارحیت کا ہر تجربہ تبدیلی کے اس عمل کو بڑھاتا اور مہمیز دیتا چلا جاتا ہے۔

اس کے بعد دارالحکومت کی تبدیلی، ذوالفقار علی بھٹو کا کوٹہ سسٹم، ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کا کھیل، سیاست کی شطرنج پر نئے مہروں کا ظہور اور ان کی حرکت، پھر نصیر اللہ بابر کی ریاستی دہشت گردی اور ماورائے عدالت قتل و غارت گری کا منظرنامہ، مشرف کی آمریت میں نئی بساط کا بچھایا جانا، غرضے کہ کراچی کی زندگی کو دیکھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حیرت اور افسوس کے مناظر سے بھری ہوئی ایک فلم ہے جو مسلسل چل رہی ہے۔ کردار ابھرتے ہیں، تماشا برپا ہوتا ہے اور شہر کی کیمسٹری بدلتی چلی جاتی ہے۔

بس ایک گروہ ہے کہ اس صورتِ حال پر آواز اٹھاتا ہے، مدافعت کی کوشش کرتا ہے، اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے اور اپنا رنگ جمانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس درمیان پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا ہے۔ اسٹیج بدل گیا ہے اور اس کے کردار بھی بدل گئے ہیں۔ گروہ میں پھوٹ پڑتی ہے۔ آوازیں تقسیم ہوجاتی ہیں۔ ملک کی سالمیت کا سوال فوقیت رکھتا ہے، ہر مسئلے پر مقدم ہے، ہونا بھی چاہیے۔ اصولوں اور اقدار کی سیاست کا زمانہ مدت ہوئی، گزر چکا۔ سیاست کے کھیل میں منافقت ترپ کا پتا بن گئی ہے۔ سیاست کا منظرنامہ قومی ہو یا بین الاقوامی، نان اسٹیٹ ایکٹرز نمایاں ہیں۔ غیر مذہبی بنیادوں پر بھی انتہا پسندی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ان سب حوالوں اور اشاروں سے باآسانی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ ۲۰۱۷ء کی دنیا ہے۔

سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہے۔ دوسرے دورانیے کا آخری برس شروع ہوچکا ہے، یعنی مکمل خود مختاری، آزادی، اختیار اور اقتدار کے تسلسل کا دسواں سال۔ اتنے عرصے میں ملکوں کے، قوموں اور معاشروں کے دن پھر جاتے ہیں، قسمت بدل جاتی ہے۔ نہیں بدلتی تو بس روشنیوں کے شہر کراچی کی قسمت نہیں بدلتی۔ یہاں اب بھی اندھیرے اپنی جگہ بنانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں، اور کامیابی بھی حاصل کرتے رہتے ہیں۔ افسوس صد افسوس، سیاست داں، خواہ ان کا تعلق مذہبی جماعتوں سے ہو یا جمہوری جماعتوں سے، دونوں ہی سر دھڑ کی بازی لگا کر دنیاوی مفادات کی چوہا دوڑ میں شامل ہیں۔ دونوں طرف کے لوگ اس شہر کے والی وارث بننا چاہتے ہیں، لیکن یہ خواہش صرف اور صرف اپنا مفروضہ حق اور خدائی حدوں کو پہنچا ہوا اقتدار و اختیار حاصل کرنے کی حد تک ہے، یہاں فرائض سے کسی کو سروکار نہیں۔ ان کے بارے میں تو کوئی سننا ہی نہیں چاہتا۔

پہلے شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا کہ جمہوری حکومت کو کسی واقعے کی روک تھام یا حالات کا تقاضا مجبور کرتا اور وہ مدد کے لیے فوج کو پکارتی۔ اگر کبھی ایسا ہوتا تو جمہوری حکومت اپنی ساکھ کی بحالی کے لیے اس اقدام کی وضاحت کرتے اور اُس کے لیے جواز پیش کرتے ہوئے نہ تھکتی۔ سمجھا جاتا تھا اور درست سمجھا جاتا تھا کہ فوج کا کام تو ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہوتا ہے، نظم و نسق کی ذمے داری تو سیاست داں اٹھاتے ہیں۔ آج یہ حال کہ صرف دفاع نہیں، انتظامیہ، اشرافیہ اور سیاست دانوں میں کسی کا کام بھی فوج کے بغیر نہیں چلتا۔ آج اقتدار میں فوج باقاعدہ دخیل ہے۔ اس صورتِ حال میں فوج کی منشا کا کتنا حصہ ہے اور وقت کا تقاضا کتنا؟ یہ ایک الگ اور تفصیل طلب موضوع ہے۔

اس پر آئندہ کبھی اطمینان سے بات کریں گے۔ سرِدست آپ دیکھ لیجیے کہ کراچی کے سیاسی درجۂ حرارت کو گھٹانے، حالات کو بہتر بنانے، بینک ڈکیتیوں، اسٹریٹ کرائمز اور دہشت گردی کی وارداتوں کی روک تھام اور کراچی شہر کی زندگی کو نارمل رکھنے میں رینجرز کا براہِ راست اور نمایاں حصہ ہے۔ یہ تجربہ کئی بار کیا گیا اور افسوس کہ ہر بار یہی ثابت ہوا کہ اگر رینجرز نہ ہو تو اس شہر میں جنگل کا قانون نافذ ہوجاتا ہے۔ لٹھ ماروں کا راج ہوتا ہے۔ شہر کے گلی کوچوں میں بھیڑیے، لکڑ بھگے، روگ اور ریچھ دندناتے پھرتے ہیں۔ عوام کا سب کچھ، جان، مال، عزت آبرو درندوں کی دسترس میں آجاتی ہے۔ انتظامیہ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے سب کے سب حالات پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ تب ماننا پڑتا ہے، رینجرز کے بغیر یہ شہر تو شہر رہتا ہی نہیں، جنگل بن جاتا ہے۔

تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہوگیا، یہ شہر مسلسل ابتلا کے دور سے گزر رہا ہے۔ وہ دن کہ جب یہاں روز گرنے والی لاشوں کا اسکور گنا جاتا تھا، صبح شام، دن رات میں کسی بھی وقت کہیں سے بھی فائرنگ کی آوازیں آنے لگتی تھیں، معصوم اور نہتے لوگ نامعلوم وجوہ کی بنا پر لقمۂ اجل بن جاتے تھے اور آئے دن کاندھوں پر نوعمر جنازے نظر آتے تھے— اُس وقت روشنیوں کا یہ شہر ’’کراہ چی‘‘ تھا۔ کراچی کے حالات سندھ کی سیاحت کا مزاج متعین کرتے ہیں۔ کراچی بدامنی کا شکار ہو تو سندھ کا پورا سیاسی منظرنامہ ابتری کا نقشہ پیش کرنے لگتا ہے۔ یہ رنگ ملکی سطح پر بھی اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ سیاست کے مرکزی دھارے میں جگہ بنانے والوں کی مجبوری ہے کہ سندھ سے آنکھیں نہیں چرا سکتے، یعنی کراچی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی نظر انداز تو ہورہا ہے، اس کی حق تلفی تو کی جاری ہے۔

نیویارک، پیرس، ٹوکیو، لندن اور بیجنگ ہی کی طرح کراچی بھی کوسمو پولیٹن شہر ہے، لیکن گزشتہ تیس پینتیس برسوں میں اس کی باگ ڈور سنبھالنے والوں نے اس کی کوسمو پولیٹن زندگی کے لیے کیا پلاننگ کی، کیا اقدامات کیے، کن تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا؟ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال نے کراچی کے لیے اگر کچھ کیا ہے تو اس خوش بختی کے پس منظر میں آمرانہ اقتدار کے استحکام کی ضرورتیں کارفرما تھیں۔ چلیے کسی بہانے سہی، شہر کا کوئی پرسانِ حال تو ہوا، لیکن اس کے بعد کے دس برسوں میں روشنیوں کے اس شہر میں کوڑے کے ڈھیر لگتے چلے جاتے ہیں۔

شہرِ کراچی دیکھتے ہی دیکھتے ’’کچراچی‘‘ بن جاتا ہے۔ بلدیاتی حکومت سرے سے ناپید اور صوبائی حکومت کا اس کے ساتھ وہی سلوک ہے جو رات کی رات اوباشی کرنے والوں کا ہوتا ہے کہ وہ مسروقہ عورت سے حقوق تو زوجیت کے طلب کرتے ہیں، لیکن سر کا سائیں بننے والے فرائض قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اب تو وہ ایم کیو ایم رہی اور نہ ہی اس کا وہ اقتدار و اختیار۔ سو، وسیم اختر علامتی میئر سے زیادہ ہو بھی کیا سکتے ہیں۔ قوتِ نافذہ ان کے پاس نہیں، بجٹ اُن کے ہاتھ میں نہیں اور سیاسی طاقت سے وہ محروم۔ کراچی کے صوبہ بنائے جانے کے نعرے پر پیپلز پارٹی چراغ پا ہوجاتی ہے، ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔

یہ شہر سے جذباتی وابستگی کا نہیں، اختیار کے چھن جانے کی وحشت کا اظہار ہوتا ہے۔ پورے ملک کا ریوینیو دیکھ لیجیے اور اکیلے کراچی کا ریوینیو بھی دیکھ لیجیے۔ کہتے ہیں دودھ دینے والی گائے کی لات بھی ہنس کر سہہ لی جاتی ہے۔ دیکھیے یہ کیسی گائے ہے کہ دودھ بھی دیتی ہے اور چپ چاپ لاٹھیاں بھی کھائے جاتی ہے۔ اسے تو کھانے کو ہرا کیا، سوکھا بھی ڈھنگ سے نہیں ملتا۔ روشنیوں کا شہر کراچی، دیکھتے ہی دیکھتے گزشتہ دس برسوں میں کھنڈرات میں تبدیل ہوتا ہوا اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے، لیکن نظر نہیں آرہا تو اس کے صوبائی حکمرانوں کو نہیں آرہا۔

شہر اور جنگل میں جو چیز سب سے پہلے فرق کا احساس دلاتی ہے، وہ قانون کی عمل داری ہوا کرتی ہے۔ کراچی میں قانون کی عمل داری وزیرِاعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کے اطراف میں ہی دکھائی دیتی ہے، باقی تو سب اللہ ہی اللہ ہے۔ ہاں اس کی جھلک اُس وقت بھی نظر پڑتی ہے، جب وزیر، سفیر، صدر وغیرہ کسی شاہراہِ خاص سے سرپٹ دوڑتے قافلے کی پناہ لیے ہوئے گزرتے ہیں۔ ویسے آپ شہر بھر میں گھوم کر دیکھ لیجیے۔ قانون کا نام تو بے شک سنائی دے گا، مگر مجال ہے جو وہ کہیں دکھائی بھی دے جائے۔ پھل فروشوں کے ٹھیلوں سے لے کر دودھ، سبزی کی دکانوں تک، ٹریفک کے سگنل سے لے کر محکمۂ آب رسانی تک، تھانوں سے لے کر عدالتوں کے احاطوں تک ہر جگہ آپ مسکرا کر خود ہی کہہ دیں گے، نام ہی کافی ہے۔

انسانوں کی کایا کلپ تو پلک جھپکتے میں ہوسکتی ہے، لیکن شہروں کی نہیں ہوتی۔ شہروں کو چولا بدلنے میں وقت لگتا ہے۔ اتنا وقت ضرور لگتا ہے کہ اُن کو سنبھالنے والے، چلانے والے اُن کی بہتری کی سو تدبیریں کرسکتے ہیں۔ جس طرح پوت کے پاؤں پالنے ہی میں نظر آجاتے ہیں، اسی طرح صوبے جیسی وسعت اور کوسمو پولیٹن آبادی کی رنگا رنگی کو دامن میں سمیٹنے والے شہر بھی ابتدا ہی میں اپنے تیور دکھانے لگتے ہیں۔ کراچی نے بھی دکھائے تھے، لیکن اس کے لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق اقدامات تو کیا ہوتے، جو اُس کا حال تھا اور جو سہولتیں یہاں میسر تھیں، اُن تک کو برقرار رکھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ زرداری صاحب کے عہدِ صدارت میں تو کراچی کی ابتری کا وہ دور شروع ہوا کہ اپنی مثال آپ کہیے۔

ایسے شہروں میں عوامی سفر کی سہولتوں کے لیے ماس ٹرانزٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں الٹا یہ ہوا کہ جو بسیں اور کوچز چلا کرتی تھیں، وہ ایک ایک کرکے سڑکوں سے غائب ہوگئیں۔ کیوں ہوگئیں؟ بھتّا خوری، لوٹ مار، بدمعاشی۔۔۔۔۔ اس موضوع کو بھی تفصیل سے دیکھنے کی ضرورت ہے سو، کسی اور موقعے پر سہی۔ بسوں میں ایک وقت میں پچاس ساٹھ لوگ سفر کرتے تھے۔

ان کی جگہ اب چنگ چی نے لے لی، جس میں پانچ چھ سواریاں سماتی ہیں۔ سفری سہولتیں نہ ہونے پر عوام الناس میں موٹر سائیکل کی سواری کا رُجحان ایسا بڑھا کہ خدا کی پناہ۔ آج مرکزی شہر کے کسی سگنل پر رک کر دیکھ لیجیے، پچاس فی صد سے زیادہ لوگ موٹر سائیکل پر سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ پولیس ٹریفک کا نظام سنبھالنے میں ناکام، ٹریفک حادثات میں غیر معمولی اضافہ اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ روڈ پر چلنے والے ہر شخص کی سائیکی بیماری اور خود غرضی کی کیفیت کا تماشا دکھانے لگی۔ ہر شخص اب یہ سمجھتا کہ صرف اسے جلدی ہے، اس لیے اسے فوراً راستہ ملنا چاہیے، باقی ساری دنیا جائے بھاڑ میں۔ سو، ہر جگہ سگنل توڑنا، غلط سمت میں چلنا، اپنی باری کا انتظار نہ کرنا اور دوسرے کی باری میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے اپنا راستہ بنانا معمول بن چکا ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر نفسانفسی کا جیسا منظر دکھائی دیتا ہے، جنگل بھی اس کے آگے شرما جائے۔

عطائی حکیم، جعلی ڈاکٹر، صحت کش ادویات، مضرِصحت کھانے، جان بنانے کے نسخے، قسمت آزمانے کے مواقع، لاٹری نکلوانے والے، محبوب کو قدموں میں لاڈالنے والے، ہر بلا اور ہر جادو کا توڑ کرنے والے، دنوں میں امیر بنانے والے، امریکا کا ویزا اور شان دار نوکری دلانے والے، سستے داموں جائیداد دلانے والے اور خدا جانے کیسے کیسے کاروبار دن دہاڑے چل رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ کوئی ٹوکنے والا۔ تو یہ ہے روشنیوں کا شہر کراچی اور اس کی زندگی کا منظرنامہ۔ جو نقشہ پیش کیا گیا ہے، وہ سب صرف اور صرف سامنے کے احوال کی عکاسی ہے، درونِ خانہ اور بہت کچھ ہورہا ہے۔ اندر باہر کا سارا حال تو آدمی اپنی ہستی کا نہیں جان پاتا، یہ تو پھر ایک بھرا پرا شہر ہے:

آزردہ ہے یہاں کوئی دل شاد ہے یہاں
اک آرزو کا شہر کہ آباد ہے یہاں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔